تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-08-2023

کگوا کی کہانی

میانوالی کے دوست شعیب بٹھل‘ جو برسوں سے لندن میں سیٹل ہے‘ کی ایک خوبی یہ ہے کہ دوستوں کی محفل میں اس سے اچھا قصہ گو اور اداکار کوئی نہیں ہوتا۔ اس کا سٹار Libraہے اور لِبرا بڑے اچھے story tellerہوتے ہیں۔ یہ بڑے اچھے ڈیبیٹر ‘ استاد‘ وکیل اور جج بنتے ہیں۔ اگر آپ نے کبھی کوئی مشورہ کرنا ہو یا رائے لینی ہو تو لِبرا کو کنسلٹ کیا کریں۔ یہ بڑی سوچ بچار کے بعد نپی تلی رائے دیں گے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لِبرا فیصلہ کرتے وقت دیر کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن پر دباؤ ہوتا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کریں‘ لہٰذا ہر سمت دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
شعیب بٹھل نے میرے ساتھ ہی ملتان یونیورسٹی سے 1993ء میں ایم اے انگلش کیا تھا۔ شعیب نے جس طرح ایم اے انگلش کے سلیبس کو پڑھا‘ ہم نے کم ہی پڑھا ہوگا۔ کورس کی ہر کتاب جواُس نے پڑھی‘ وہ رنگا رنگ لکیروں سے بھری ہوتی تھی کیونکہ وہ ہر جملے یا سطر سے متاثر ہوتا اور اس کے نیچے لائن لگا دیتا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ وہ ایم اے انگلش کے بعد بھکر کالج میں انگریزی کا لیکچرر لگ گیا‘ لہٰذا اسے برسوں بعد بھی انگریزی کی نظمیں‘ شیکسپیئر کے ڈرامے اور دیگر ناولوں کے کردار سب کچھ یاد ہے‘ جن کا مظاہرہ وہ اکثر کرتا رہتا ہے۔ ابھی میں لندن میں تھا تو کچھ دن شعیب کے گھر گزرے۔ مجال ہے اُس کے پاس کوئی نیا قصہ یا کہانی نہ ہو۔اُس کی کمپنی میں آپ بور نہیں ہو سکتے۔ ایک دن میں صفدر بھائی کے گھر تھا تو شعیب وہیں آگیا۔ اُس نے میرے اور صفدر بھائی کے ساتھ محفل لگا لی اور ایک قصہ سنایا۔ یہ قصہ ایک انگریزی نظم کے ایک کردار کگوا کا تھا جسے اس نے اس انداز میں سنایا کہ میں اور صفدر بھائی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے لیکن کہانی کے انجام پر افسردہ بھی ہوئے اور اس سے اخلاقی سبق بھی سیکھا کہ کم بولنا کتنا ضروری ہے۔
اس نظم میں ہر اُس انسان کے لیے بہت سے سبق ہیں جسے زیادہ بولنے کا بہت شوق ہے۔ شعیب پوری اداکاری کے ساتھ کہانی سنا رہا تھا جبکہ میں اور صفدر بھائی ہمہ تن گوش تھے۔ کسی ریاست میں ایک شکاری رہتا تھا‘ جس کا نام کگوا تھا۔ وہ روز جنگل میں جاتا اور شکار کر کے لے آتا تھا۔ وہ ایک بہادر شکاری تھا جس سے جنگل کے سب جانور خوفزدہ رہتے تھے کہ پتا نہیں کب کس کو شکار کر لے۔ یوں اس کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ جہاں سے کگوا گزرتا وہاں سے چرند پرند سب غائب ہو جاتے ۔ کگوا کی دہشت اور شہرت ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ جہاں کگوا میں بہت سی خوبیاں تھیں وہیں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ وہ بہت بولتا تھا اور بولتا ہی رہتا تھا۔ مجال ہے وہ کچھ دیر کے لیے بھی بریک لے۔ ہر موضوع پر بولنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کگوا جنگل میں شکار کرنے نکلا ہوا تھا کہ اس کی نظر ایک انسانی کھوپڑی پر پڑی۔ اس کا دل کیا وہ اس کھوپڑی سے جا کر باتیں کرے۔ وہ اس کے قریب گیا اور اس سے پوچھا: What brought you here?۔ کھوپڑی آگے سے بول پڑی کہ Talking brought me here۔ اس کا جواب سن کر کگوا اچھل پڑا۔ وہ تو ایک مردہ انسان کی کھوپڑی تھی جسے دیکھ کر صاف لگ رہا تھا کہ اسے تو مرے ہوئے عرصہ ہو گیا ہے۔ ایسی بات تو آج تک کسی نے سنی تھی نہ ہی دیکھی تھی۔ کگوا پہلے خوفزدہ تو اب حیرانی سے اس کھوپڑی کو دیکھ رہا تھا۔ کھوپڑی نے کگوا کو جواب دیا کہ اسے بولنے کی عادت تھی۔ اسے اس کا زیادہ بولنا ہی یہاں لایا ہے اور اس کی یہ حالت ہوئی ہے۔کگوا کو فوری سمجھ نہیں آیا کہ وہ یہ غیرمعمولی بات کس کو بتائے کہ اس نے ایک ایسی انسانی کھوپڑی سے گفتگو کی ہے جو باتیں کرتی ہے۔ ایک ناقابلِ یقین سی بات‘ جسے سُن کر سب حیران ہوں گے اور اس کی باتیں سنیں گے۔ ہر طرف اس کا چرچا ہوگا اور وہ مزید مشہور ہو جائے گا۔ لوگ اسے پہچاننے لگ جائیں گے۔ اس کا نام ہوگا کہ وہ مردہ کھوپڑیوں سے باتیں بھی کرتا ہے۔ کگوا نے اس کھوپڑی کے جواب پر غور نہیں کیا کہ وہ وہاں تک کیسے پہنچی ۔ اس کے ذہن میں فوراً خیال آیا کیوں نہ بادشاہ کے دربار میں جاکر ساری رُوداد سنائے۔ ایسی خبر بادشاہ کو ہی سنانا بنتی ہے۔ ممکن ہے بادشاہ اس کھوپڑی کی تفصیل سن کر اسے عزت و احترام اور انعامات سے لاد دے ۔
باتونی کگوا فوراً بادشاہ کے محل کی طرف دوڑپڑا۔ وہ یہ خبر سب سے پہلے بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر اسے سنانا چاہتا تھا۔ ہانپتا کانپتا کگوا بادشاہ کے دربار میں پہنچا۔ وہاں اس سے پوچھا گیا‘بھئی خیریت ہے‘ ایسا کیا ہوگیا کہ جنگل میں شکار چھوڑ کر سیدھے دربار آن پہنچے؟ اپنی سانس درست کرنے کی زحمت کیے بغیر کگوا نے بادشاہ اور اس کے درباریوں کو کہانی سنانا شروع کی کہ کیسے وہ جنگل میں شکار کے لیے گیا ہوا تھا کہ اس نے وہاں ایک انسانی کھوپڑی دیکھی اور وہ اس سے باتیں کرنے بیٹھ گیا اور آگے سے اس کھوپڑی نے بھی اس سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ کگوا کی باتیں سُن کر بادشاہ سمیت اس کے سب درباری حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی انسانی کھوپڑی باتیں بھی کر سکتی ہے‘ لیکن کگوا نے پورے دربار کو یقین دلانے کے لیے گفتگو شروع کر دی۔ بادشاہ خاصی دیر تک کگوا کی باتیں سنتا رہا۔ اس کے جوش و خروش کا نظارہ کرتا رہا‘ جو یہ دعویٰ کررہا تھا کہ اس نے ایک انسانی کھوپڑی دیکھی جو باتیں کرتی ہے۔ آخر بادشاہ نے سوچا اگر یہ شکاری اتنے یقین سے کہہ رہا ہے تو اس میں ضرور کچھ سچ ہوگا ورنہ یہ اتنا طویل فاصلہ طے کرکے یہاں کیوں آتا؟
خیر بادشاہ نے کہا کہ وہ اس وقت تک اس کی باتوں پر یقین نہیں کرے گا جب تک وہ اس پورے واقعے کی تصدیق نہیں کرا لیتا۔ بادشاہ نے اپنے دو گارڈز بلوائے اور انہیں کہا کہ وہ کگوا کے ساتھ جنگل میں اُس جگہ جائیں جہاں اُس نے انسانی کھوپڑی کے ساتھ باتیں کی تھیں۔ بادشاہ نے کہا: اگر وہ کھوپڑی واقعی باتیں کرتی ہو تو اسے واپس ساتھ لے آنا اور اسے انعام دیں گے۔ اگر کھوپڑی بات نہ کرے تو کگوا کا سر وہیں قلم کر دینا۔ کگوا خوشی خوشی تیار ہو گیا کیونکہ اس نے خود انسانی کھوپڑی سے باتیں کی تھیں۔ خیر وہ چلتے چلتے جنگل کے اُس حصے میں پہنچے جہاں کگوا نے اُس بولتی ہوئی انسانی کھوپڑی کو دیکھا تھا اور اس سے باتیں کی تھیں۔ وہاں واقعی ایک انسانی کھوپڑی موجود تھی جسے دیکھ کر کگوا کی جان میں جان آئی۔ کگوا اُس کھوپڑی کے قریب جا کر بیٹھ گیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ کگوا نے اُس انسانی کھوپڑی سے پہلا سوال ہی یہی کیا کہ What brought you here۔ کھوپڑی نے کوئی جواب نہ دیا۔ کگوا نے دوبارہ پوچھا: What brought you here۔ کھوپڑی پھر بھی چپ رہی۔ اب کگوا نے تقریباً چیخ کر پوچھا‘ کھوپڑی پھر بھی چپ رہی۔ اب کگوا منت ترلے پر اُتر آیا اور بار بار کھوپڑی سے پوچھنے لگا :پلیز بتا دو تم یہاں کیسے پہنچی ہو؟ خدارا بتا دو‘ لیکن کھوپڑی چپ رہی۔ بے بس اور خوفزدہ کگوا نے شاہی گارڈز کی طرف دیکھا جنہوں نے جواباً اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ وہ بادشاہ کے حکم کے پابند تھے۔ دونوں نے وہیں تلوار کے وار سے کگوا کا سر قلم کر دیا اور چلتے بنے۔ کگوا کی لہولہان کھوپڑی اس انسانی کھوپڑی کے قریب جا گری جس سے کگوا نے باتیں کی تھیں۔اب وہ کھوپڑی بول پڑی اور اس نے کگوا کی کھوپڑی سے پوچھا کہ What brought you here?۔ کگوا کی کھوپڑی کا جواب تھا: Talking brought me here۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved