تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-09-2013

گوپی چند نارنگ اور غالبؔ

غالبؔوہ خوش قسمت شاعر ہے کہ جس کثرت سے اس کے بارے میں لکھا جاچکا ہے، ہمارے کسی اور شاعر کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی ۔ اس کی ایک وجہ تو اس کے اشعار میں فارسی ترکیبوں اور الفاظ کی بھرمار ہے۔ یہ درست ہے کہ غالبؔکے زمانے میں کم وبیش فارسی ہی کا دور دورہ تھا لیکن اسے شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ زبان رفتہ رفتہ ہماری زندگیوں سے یکسر نکل ہی جائے گی اور ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ غالب فہمی میں روزبروز کمی ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔ تاہم اس کی ایک اور وجہ غالب کی پیچیدہ گوئی بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تجرید اور ابہام شاعری کی جان ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ کم ازکم الفاظ ہی قاری کے لیے اجنبی ہوکر نہ رہ جائیں۔ سیدھی بات کو بھی گھما کر کہنا غالب کے خاص سٹائل کا حصہ ہے لہٰذا قاری کو کچھ مشکلات اس طرف سے بھی پیش آتی ہیں۔ میری مراد اوسط درجے کے قاری سے ہے جو شاعری کا ذوق بھی رکھتا ہے اور اسے پڑھنا بھی چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ اب اوسط درجے کا یہ قاری بھی کم سے کم تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ چنانچہ زیادہ امکان یہی ہے کہ غالب پر ابھی مزید لکھا جاتارہے گا کیونکہ جو اشعار سیدھے ہیں ان پر کچھ لکھے جانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، ماسوائے اس کے ،کہ ان کی تعریف کردی جائے، یا نئے نئے محاسن بیان کردیئے جائیں۔ غالب خود کہتا ہے کہ ؎ ازبسکہ کلام میرا اے دل سن سن کے جسے سخنورانِ کامل آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل حتیٰ کہ اسے مہمل گو اور بے معنی بھی کہا گیا اوراسے کہنا پڑا کہ ع گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی زیرِنظر گوپی چند کی غالبؔ پر تازہ چھپنے والی کتاب ہے جو سنگ میل والوں نے لاہور سے شائع کی ہے اور جس میں غالب کی شاعری اور شخصیت کے ہرپہلو پر کھل کر لکھا گیا ہے ۔ حالیؔ کے علاوہ جن نقادوں نے غالب کے بارے میں لکھ رکھا ہے، نارنگ نے ان سے مدد بھی حاصل کی ہے اور کئی جگہ اختلاف بھی کیا ہے اور خاص طورپر زور اس بات پہ دیا ہے کہ غالبؔ کے اس اضطراب کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے اور جس میں انہوں نے غالب کے ڈانڈے ویدانت سے بھی جوڑے ہیں اور بدھ ازم سے بھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اکثر اشعار کی گتھیوں کو بھی سلجھایا ہے اور ان کے معنی کھول کر بیان کیے ہیں۔ ہم عصر فارسی اور اردو شعراء کے ساتھ ان کے ربط وضبط پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ خاص طورپر بیدلؔ دہلوی سے غالب ؔ کا متاثر ہونا۔ انہوں نے حالیؔ کی ’یادگارِ غالبؔ‘ کی تعریف بھی کی ہے اور اس سے استفادہ بھی حتیٰ کہ تمام ادب آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس سے کئی جگہ اختلاف بھی کیا ہے۔ تحریر ہو یا تقریر ، گوپی چند نارنگ کی بات دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی اکثر اوقات سمجھ میں ہی نہیں آتے کہ کیا کہہ گئے ہیں۔ چند برس پیشتر انہوں نے یہاں اقبال اکیڈمی میں ’’اقبال کو کیسے نہ پڑھا جائے ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا لیکن سبھی کہہ رہے تھے کہ ان کے پلے تو کچھ بھی نہیں پڑا۔ اگلے روز ان کا لیکچر اورنٹیل کالج میں تھا، جہاں بھی ویسی ہی صورت حال رہی۔ یہ غالباً ان کے تبحر علمی کی وجہ سے ہے، اور، نارنگ کی بات شاید اس لیے سمجھ میں جلدی آجاتی ہے کہ وہ ان سے کم پڑھے لکھے ہوں گے! ظاہر ہے کہ یہ کوئی تبصرہ نہیں ہے اور نہ میں اس کا اہل ہی ہوں۔ صرف یہ اطلاع دینی مقصود تھی کہ یہ تحفہ کتاب شائع ہوچکی ہے۔ نیز نارنگ نے جہاں غالبؔ کی زندگی کے ہرپہلو کا احاطہ کیا ہے وہاں اس کتاب میں اس کا کوئی تذکرہ یارائے درج نہیں ہے کہ جہاں غالب کے کئی ہم عصروں اور چاہنے والوں کو کالا پانی سمیت پھانسی کے تختوں اور سولیوں پر لٹکایا جارہا تھا، وہیں غالبؔ اس کے خلاف کسی احتجاج کے بغیرانگریز بہادر کی شان میں قصیدے لکھ رہے تھے۔ البتہ اپنے خطوط میں اس پر انہوں نے اپنے رنج وغم کا اظہار کرنا ہی کافی سمجھا۔ بلکہ غالب ؔ پر تو فری میسن ہونے کا الزام بھی ہے جس کا تذکرہ مالک رام کی کتاب ’ذکر غالبؔ ‘میں موجود ہے۔ یہ بات بھی خالی از دلچسپی نہیں کہ ڈاکٹر انیس ناگی کی غالبؔ پر لکھی گئی کتاب کا عنوان ہے ،’’غالب ایک اداکار‘‘۔ نارنگ کی اسی کتاب میں درج ہے کہ غالبؔ نے اپنے کلام کے کچھ حصوں سے فارسی الفاظ نکال دیئے تھے اور اسے آسان فہم زبان میں منتقل کردیا تھا۔ حالانکہ اگر وہ اپنے سارے کلام کو اس عمل سے گزار دیتے تو آج قاری کو جو مسائل درپیش ہیں وہ نہ ہوتے۔ کیونکہ غالب جب خود کہتے ہیں کہ ع رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر تو انہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے تھا کہ جو ٹوئے ٹبے اور گڑھے ان کے کلام میں جگہ جگہ باقی رہ گئے ہیں، انہیں بھی لگے ہاتھوں دور کردیتے۔ چنانچہ اب بھی غالبؔ کے کلام کا معتدیہ حصہ قاری کی دسترس سے نہ صرف دور ہے بلکہ روزبروز دورتر ہوتاچلا جارہا ہے ، حتیٰ کہ نارنگ صاحب نے جن مشکل اشعار کے معنی بیان کردیئے ہیں قاری کی ایک بارتو سمجھ میں آجاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں دوسری بار پڑھنے کو جی نہیں چاہتا ،چنانچہ غالبؔ کے کلام کا بیشتر حصہ اب محققین ہی کے استفادے کے لیے رہ گیا ہے جبکہ جو سمجھ میں آتا ہے اس کا بہت سا حصہ اب ضرب الامثال میں شامل ہے، اور غالبؔ اگر غالب ہے تو ایسے ہی اشعار کی وجہ سے۔ پھر یہ بھی ہے کہ غالبؔ نے زندگی بھر تنکا توڑ کر دوہرا نہیں کیا اور ساری عمر وظیفوں اور پنشنوں کے پیچھے ہی بھاگتے اور خوار ہوتے رہے، اللہ بس، باقی ہوس۔ آج کا مطلع یہ سنگ چاہئیں نشتے، کوئی صنم رؤڑا بہت زیادہ نہیں ہے اگر تو کم رؤڑا رؤڑا(پشتو) بمعنی لے آ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved