جب سے انسان زمین آباد ہوا ہے قدرتی آفات کی زدّمیں ہے۔ زلزلے،سیلاب،آتش فشاں اورطوفان وقفے وقفے سے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے وسائل اور توانائیوں کو ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے لیکن سائنس و ٹیکنالوجی اور فنون کی ترقی کے باوجود انسان مکمل طور پر ان آفات کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔وہ ممالک جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے اُن میں بھی طوفانوں اور سیلابوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کی جانے والی تدابیر کئی مرتبہ بالکل کمزور اور بے وقعت نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں بھی وقفے وقفے سے قدرتی آفات آتی رہتی ہیں۔2005ء میں بالاکوٹ میں آنے والے زلزلے نے ہزاروں لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے سیلاب اور قدرتی آفات آتی رہیں۔گزشتہ برس پاکستان کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ ڈیرہ غازی خان ،راجن پور، صوبہ خیبرپختونخوا اور اندرونِ سندھ کے بہت سے علاقے زیرِ آب آگئے،اس سیلاب نے بھی لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا۔
چند روز قبل دریائے ستلج میں آنے والی سیلابی لہروں نے قصور ،اوکاڑہ،پاکپتن ،بہاولنگر اور منچن آباد کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیاہوا ہے۔ ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف ادارے اور تنظیمیں اپنی استعداد کے مطابق اپنا کردار ادا کررہے ہیں اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار لوگ اپنے دکھی بھائیوں کے کام آنے کے لیے اپنی توانائیوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ دکھ کے ان لمحات میں لوگ لاکھوں‘ کروڑوں روپے کے فنڈز اپنے بھائیوں کی بحالی کے لیے صرف کرتے ہیں۔ ان قدرتی آفات کا تجزیہ ماہرین ارضیات اور دیگر علوم کے ماہرین اپنے اپنے انداز میں کرتے رہتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان آفات کا تجزیہ کتاب و سنت کی روشنی میں بھی کرنا نہایت ضروری اور مفید ہے۔ قدرتی آفات انسانوں کو اپنی لپیٹ میں کیوں لیتی ہیں اس حقیقت کا تجزیہ جب کتاب و سنت کی روشنی میں کیا جاتا ہے تو تین اہم نکات سامنے آتے ہیں :
1۔قدرتی آفات نیکوکاروں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں: اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر اس بات کو واضح کیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کی آزمائش کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 155 تا 157 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کر کے اور پھلوں میں (کمی کر کے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو‘ وہ لوگ (کہ) جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘ (یہ) وہ لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے دیگر مقامات پر بھی اس حقیقت کو واضح کیا کہ اہلِ ایمان کو اللہ تبارک و تعالیٰ آزمائیں گے۔سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 214 میں ارشاد ہوا: ''کیا تم نے یہ سمجھ لیا کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تک نہیں آئے تم پر (حالات) ان لوگوں جیسے جو گزر چکے ہیں تم سے پہلے‘ پہنچی اُن کو تنگ دستی اور مصیبت اور وہ ہلا کے رکھ دیے گئے یہاں تک کہ پکار اُٹھے رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس پر‘ کب(آئے گی) اللہ کی مدد (جواب ملا:) سن لو بے شک اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔
اِن آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اہلِ ایمان کو مختلف طرح کی آزمائشوں سے گزار تے رہتے ہیں اور جو اہلِ ایمان اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ اُن سے راضی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی استقامت اور صبر کے نتیجے کے حوالے سے سورہ حم سجدہ کی آیات 30 تا 31 میں اعلان فرمایا: ''بے شک (وہ لوگ) جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے‘ پھر وہ خوب قائم رہے ‘اترتے ہیں ان پر فرشتے (اور کہتے ہیں) کہ نہ تم خوف کرو اور نہ تم غم کھاؤ اور تم خوش ہو جاؤ اس جنت میں جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیاوی زندگی میں اور اخرت میں (بھی) اور تمہارے لیے اس میں (وہ کچھ ہے) جو چاہیں گے تمہارے دل اور تمہارے لیے اس میں (وہ ہوگا) جو تم مانگو گے ‘‘۔
2۔گنہگاروں کے لیے تنبیہ: اِنسانوں کے گناہ ان کی تکالیف کا ایک بہت بڑا سبب ہیں۔ چنانچہ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کو مختلف طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حقیقت کو سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں یوں بیان فرمایا: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کے اجتماعی گناہوں کے نتائج کے حوالے سے اسی حقیقت کو بڑی وضاحت کے ساتھ سورۃ الروم کی آیت نمبر 41میں بیان فرمایا: '' فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آ جائیں)‘‘۔
جب انسان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی زندگی میں مختلف طرح کے مصائب اور تکالیف آتی ہیں؛ چنانچہ انسان کو ایسے موقع پراللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنا چاہیے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کے بڑے سے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الفرقان کی آیات 68 تا 70میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام) کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا)کو۔دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل ہو کر۔ مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل کیا نیک عمل تو یہی لوگ ہیں (کہ) بدل دے گا اللہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے‘‘۔
3۔مجرموں کے لیے عذاب کا کوڑا :قدرتی آفات، مصائب اور مشکلات مجرموں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کوڑا بن کے آتی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں آلِ فرعون کا ذکر کیا جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف طرح کے عذابوں میں مبتلا کیا۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 133 میں ارشاد ہوا: '' چنانچہ ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی دَل اور جوئیں اور مینڈک اور خون (جو) نشانیاں تھیں الگ الگ پھر (بھی) انہوں نے تکبر کیا اور تھے وہ مجرم لوگ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 38 سے 40 تک میں ارشاد فرمایا: '' اور عاد کو اور ثمود(ہم نے ہلاک کیا) اور یقینا واضح ہو چکی تم پر (یہ بات) ان کے (اجڑے) گھروں سے اور مزین کر دیا ان کے لیے شیطان نے ان کے اعمال کو پس اس نے روک دیا انہیں (اصل) راستے سے حالانکہ وہ تھے بصیرت رکھنے والے۔ اور (ہم نے ہلاک کیا) قارون اور فرعون اور ہامان کو اور یقینا آئے ان کے پاس موسیٰ واضح دلائل کے ساتھ تو انہوں نے تکبر کیا زمین میں اور نہ تھے وہ آگے نکل جانے والے (یعنی بچ نکلنے والے)۔ تو ہر ایک کو ہم نے پکڑا اس کے گناہ کے سبب پھر ان میں سے (کوئی ایسا تھا) جو (کہ) ہم نے بھیجی اس پر پتھراؤ کرنے والی آندھی اور ان میں سے (کوئی وہ تھا) جو (کہ) پکڑا اسے چیخنے (والی چنگھاڑ سے) اور ان میں سے (کوئی وہ تھا) کہ (جو) ہم نے دھنسا دیا اس کو زمین میں اور ان میں سے (کوئی وہ تھا) جسے ہم نے غرق کر دیا اور نہیں تھا اللہ (ایسا) کہ وہ ظلم کرتا ان پر اور لیکن تھے وہ (خود) اپنے نفسوں پر ظلم کرتے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر کر کے درحقیقت بعد میں آنے والوں کو تنبیہ کی ہے کہ انہوں نے طرزِ عمل کو نہ بدلا تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان پر بھی اپنے عذابِ الیم کو مسلط کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 96 میں اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ اگر ان بستیوں کے رہنے والے لوگ ایمان اور تقویٰ والے ہوتے تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان پر برکات کا نزول فرماتے لیکن ان پر اللہ کا غضب اس لیے اترا کہ انہوں نے اللہ کے احکامات سے انحراف کیا۔
قرآن و سنت میں مذکور حقائق پر غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ قدرتی آفات نیکوکاروں کے لیے اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں اور اُن کو اِن آزمائشوں پر صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے جبکہ گنہگاروں کے لیے یہ تنبیہ ہیں کہ اُنہیں اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں پر نادم ہو کر معافی کا طلب گار ہونا چاہیے۔ جبکہ یہ آفات مجرموں کے لیے اللہ کے عذاب کا کوڑا ہیں اور بعد میں آنے والے لوگوں کو اِس سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اللہ کی کبریائی کے احساس کو اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے اور اپنے اعمال کی اصلاح کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتوں کا حقدار بن جانا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قدرتی آفات اور سیلابوں میں پھنسی ہوئی انسانیت پر رحمت کا نزول فرمائے اور ہم سب کو اپنی بارگاہ میں جھکنے والا بنا دے، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved