شاید یہ دورِ جاہلیت میں ہوتا ہو گا یا اس وقت جب انسان پتھر کے زمانے میں رہتا تھا‘ کہ کچھ طاقتور انسان دیگر انسانوں کو اپنا غلام بنالیتے تھے۔ تاریخ دان کہتے ہیں کہ فرعون بادشاہوں نے اہرامِ مصر اپنے غلاموں کے ذریعے بنوائے تھے‘ ان غلاموں کو مختلف خطوں سے پکڑ کر لایا جاتا تھا، بیڑیوں میں جکڑ کر رکھا جاتا تھا، ان غلاموں نے ہی منوں‘ ٹنوں وزنی پتھروں سے اہرام تعمیر کیے تھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے قصوں میں ہم پڑھتے ہیں کس طرح انسانوں کو غلام بناکر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے‘ ان کی کئی کئی نسلوں تک نے غلامی کی اور مظالم سہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں غلامی نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور اس کو انسانیت کے خلاف ایک جرم سمجھا جانے لگا۔ مگر اب بھی دنیا بھر میں ایسے علاقے‘ جہاں تعلیم کم ہے‘ شعور ناپید ہے‘ صحت کی سہولتیں مفقود اور غربت بہت زیادہ ہے‘ وہاں اب بھی غلامی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں پیری مریدی‘ وڈیرا اور مزارع سسٹم چلتا ہے۔ وہاں مریدین اپنے بچوں کو پیروں‘ وڈیروں اور امرا کی حویلیوں‘ درباروں اور بیٹھکوں میں چھوڑ جاتے ہیں۔ اندھی عقیدت کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ مڑ کر اپنے بچوں کا حال بھی نہیں پوچھا جاتا۔ ان بچوں کو دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے‘ تن ڈھاپنے کے لیے لباس‘ ان کے غریب والدین اسی میں خوش ہوجاتے ہیں کہ اب سائیں اور سائین کا ہاتھ ان پر آگیا ہے۔ ان مزارعوں، مریدین کے بیٹے رئوسا کے ڈیروں‘ ان کی بیٹھکوں‘ اصطبلوں‘ کھیتوں اور گوداموں وغیرہ میں کام کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ دن بھر ان لڑکے‘ لڑکیوں سے مشقت کرائی جاتی ہے اور اکثر ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے، انہیں عیش و عشرت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بچے بھی انسان ہیں‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری ہیں‘ ان کو کیسے ان کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں‘ ڈیروں پر محبوس رکھا جا سکتا ہے؟ کیسے ان کو اپنا غلام بنایا جا سکتا ہے؟ یہ بچے اس ملک کا مستقبل ہیں لیکن گھریلو غلامی ان کو نگل رہی ہے۔ غربت اور تعلیم کی کمی نے ان بچوں سے ان کی زندگی چھین لی ہے۔ یہ حویلیاں اور ڈیرے‘ ان کی دیواریں اتنی اونچی ہیں کہ ان بچوں کی چیخیں باہر نہیں سنائی دیتیں۔ یہ اندر ہی گھٹ گھٹ کر مرجاتے ہیں۔ مسلسل کام ، مارپیٹ وحشیانہ تشدد یا جنسی استحصال کی وجہ سے اگر کسی بچے کی جان چلی جائے تو بیماری کا بہانہ بنا دیا جاتا ہے اور رات کی تاریکی میں ان کو دفنا دیا جاتا ہے۔ لواحقین کا منہ بند کرانے کے لیے انہیں تھوڑے پیسے دے دیے جاتے ہیں، گھر میں دانے ڈال دیے جاتے ہیں۔ وہ اسی میں خوش ہو کر اپنا کوئی اور بچہ دوبارہ حویلی‘ ڈیرے پر چھوڑ آتے ہیں۔ نہ اس ملک میں آبادی کی کمی ہے نہ ہی غربت کی۔ بچوں کو بَلی کا بکرا بناکر ان درندوں کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔ والدین کی اندھی عقیدت‘ ان کی کم علمی یا ان کی غربت ان کو یہ سب کرنے پر مجبور کرتی ہے ورنہ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد کو تکلیف ہو‘ اسے ایک کانٹا بھی چبھے۔ مزارعے، مرید اور عقیدت کی دلدل میں دھنسے ہوئے عوام غلامانہ سوچ کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں‘ وہ کسی بھی ظلم، جبر، استحصال کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں، اگر آواز اٹھائیں بھی تو کوئی ان کی آواز سننے والا نہیں ہوتا۔ ایسے پسماندہ معاشروں میں جہاں طاقتور کی لاٹھی اور اس کا پیسہ چلتا ہو‘ غریب کی سنتا ہی کون ہے؟ اس کی یا اس کی جان کی حیثیت ہی کیا ہے؟
سندھ کے علاقے رانی پور کی فاطمہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسی غلامی کا شاخسانہ ہے۔ غریب لوگ امرا کے پاس اپنے بچے اس لیے چھوڑ کر جاتے ہیں کہ انہیں دو وقت کا کھانا مل جائے گا‘ تھوڑے پیسے بھی مل جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ الٹا بچوں سے ان کا بچپن، ان کی زندگی تک چھین لی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک امر ہے کہ ان ننھے پھولوں پر جنسی تشدد کیاجاتا ہے، اگر وہ زندہ بچ جائیں تو ساری زندگی ڈر‘ خوف اور بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ ان کی زندگی بہت مشکل اور کٹھن ہوجاتی ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو بچے کو تاعمر تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں سے زیادتی کرنے والے انسان کو سنگسار کردینا چاہیے‘ ان کو سر عام پتھر‘ کوڑے مارنے چاہئیں تاکہ دیگر لوگ بھی اس سے عبرت پکڑیں۔ اگرچہ میں نے پھانسی جیسی انتہائی سزا کی متعدد بار مخالفت کی ہے کہ مہذب معاشروں میں ایسے جرائم کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم مہذب معاشرے کی تعریف پر پورا اترتے ہیں؟ یہاں جس قسم کے جرائم ہو رہے ہیں‘ سزائیں بھی اسی حساب سے سخت سے سخت تر ہونی چاہئیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سرعام پھانسی کے پھندے پر لٹکانا چاہیے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بیشتر کیسز میں یہاں انصاف نہیں ہوتا‘ شاید یہی وجہ ہے کہ طاقتور مزید شیر ہوجاتا ہے اور اپنے سے کمزوروں پر مزید ظلم کرتا ہے۔
فاطمہ کے بہیمانہ قتل کے بعد اس کی قبر پر بھی پہرہ دینا پڑا کیونکہ یہ ڈر تھا کہ مرکزی ملزم کے ملازمین اس کی لاش نکال کر نہ لے جائیں۔ بچی کو بنا پوسٹ مارٹم کے دفنا یا گیا تھا، بعد ازاں ڈاکٹرز نے قبرکشائی کرکے اس کا پوسٹ مارٹم کیا اور پھر اس کو دوبارہ دفنایا گیا۔ اب جب پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے تو یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بچی کا شدید جنسی استحصال کیا گیا، اس کے جسم پر تشدد کے بھی متعدد نشانات تھے اور ایک بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا جبکہ بچی کی لاش یہ کہہ کر اس کے والدین کو تھمائی گئی تھی کہ اس کو ہیپاٹائٹس کی بیماری تھی، اس کو اچانک پیٹ میں درد ہوا اور اسی بیماری کی وجہ سے وہ فوت ہوگئی۔
ایک بات بہت عجیب ہے کہ ملزم نے اپنے سونے کے کمرے میں بھی کیمرے لگارکھے تھے۔ گھر کے اندر‘ وہ بھی خواب گاہ میں کیمرے بہت عجیب بات ہے۔ اس واقعے سے متعلق ایک وائرل وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچی برہنہ حالت میں کمرے میں تڑپ رہی تھی اور اسی طرح وہ تڑپ تڑپ کر دم توڑ گئی لیکن وہ شیطان صفت انسان نہیں جاگا۔ جب ایک عورت اور ایک دیگر ملازمہ کمرے میں داخل ہوئیں، تب جاکر یہ آدمی بستر سے باہر نکلا اور بچی کی طرف دیکھا‘ جو اس وقت بالکل آخری دموں پر تھی۔ یہ فوٹیج میڈیا اور سوشل میڈیا پر آنے کے بعد عوام نے شدید ردعمل دیا اور اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا، ورنہ اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد بھی اس نے پریس کانفرنس کی اور تمام الزامات کو جھوٹ قرار دے کر خود کو کلین چٹ دینے کی کوشش کی۔ جس عورت کوسی سی ٹی وی فوٹیج میں کمرے میں داخل ہوتے دیکھا گیا‘اس کی چند ہزار روپے کے عوض ضمانت ہوچکی ہے۔ مقامی پولیس بھی مرکزی ملزم کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں رہی اور کچھ بعید نہیں کہ اس حوالے سے ثبوت مٹانے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ہو۔ معاملہ میڈیا کے ذریعے سامنے آ گیا لہٰذا چند گرفتاریاں عمل میں آ گئی ہیں وگرنہ ہم نے پہلے بھی دیکھا کہ ایسے کیسز میں معاملہ طوالت کا شکار ہوجاتا ہے اور ملزمان اپنے اثرو رسوخ سے صلح نامہ کرکے صاف بچ نکلتے ہیں۔ کیا شاہ زیب کو انصاف ملا؟ کیا نقیب اللہ کو انصاف ملا؟ ایسے کتنے ہی کیسز ہیں جہاں مرکزی ملزم اپنے تعلقات، اثر و رسوخ یا پیسوں کی بنا پر رہا ہو گئے۔
گھریلو ملازمت کو پاکستان میں غلامی اور جنسی زیادتی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا کیس سامنے آرہا ہے اور یہ سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہا۔ سب سے پہلے بچوں کی گھریلو ملازمت پر مکمل پابندی لگائی جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسی طرح زیادتی کے کیسز میں ریاست خود مدعی بنے اور مظلوم کیلئے مقدمہ لڑے۔ ریاست سے زیادہ طاقتورکوئی نہیں ہوتا۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ بہرصورت رضوانہ اور فاطمہ کو انصاف دلائے۔ یہاں دین سے د وری جیسے عوامل کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ ایسے گناہوں کی کیا سزا ہے۔ لوگ بے خوف ہوگئے ہیں اور گناہ سے ڈرتے نہیں ہیں۔ اللہ کی پکڑ بہت شدید ہے‘ اگر یہ قوم اس کی لپیٹ میں آگئی تو بہت برا ہوگا۔ سب کو چاہیے کہ توبہ کریں‘ گناہوں سے بچیں اور جرائم کے خلاف آواز اٹھائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved