کسی بھی معاملے کا حقیقی حُسن یہ ہے کہ وہ آپ کو چونکادے، حیرت زدہ کردے۔ اگر کسی معاملے میں حیران کرنے کی صلاحیت نہیں تو لوگ اُس کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ ہر وہ کہانی کامیاب سمجھی جاتی ہے جو آپ کو قدم قدم پر چونکانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ وہی فلمیں کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور لوگوں کو عشروں تک یاد رہتی ہیں جن میں چونکانے کی صلاحیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہو۔ بالکل اِسی طور ہم اپنے معمولات میں بھی کچھ نہ کچھ ایسا تلاش کرتے رہتے ہیں جو ہمیں چونکانے پر کمربستہ ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ زندگی ہمیں قدم قدم پر حیران کرے، کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہے جسے دیکھ کر ہم دنگ رہ جائیں اور سوچنے پر مجبور ہوں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کا حسن بہت حد تک سادگی میں ہے مگر آج کا انسان سادگی کے حقیقی مفہوم سے نا آشنا اور اُس کی تاثیر سے یکسر محروم ہے۔ آج کی بدیہی حقیقت یہ ہے کہ جن معاملات میں صرف سادگی ہوتی ہے وہ ہمیں زیادہ متاثر نہیں کرتے۔ کچھ نہ کچھ نیا تو ہونا ہی چاہیے۔ سیف الدین سیفؔ نے خوب کہا ہے ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
آج کے انسان کو کیا میسر نہیں؟ کبھی جن چیزوں کا محض خواب دیکھا گیا تھا وہ اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں۔ کبھی جو محض خواہشوں کا حصہ ہوا کرتی تھیں وہ چیزیں اب ہماری زندگی میں یوں شامل ہیں کہ اُنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ آج عام آدمی کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو گزرے ہوئے زمانوں میں بادشاہوں کو بھی میسر نہ تھا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حقیقت عام آدمی بھی اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے مگر اِس کے باوجود تشکر کی منزل تک نہیں آتا اور بیشتر وقت کمی اور محرومی ہی کا رونا روتا رہتا ہے۔
آج ہم بہت کچھ پاکر بھی اپنے آپ کو ادھورا سا محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری نفسی ساخت سے حیرت کا عنصر غائب ہوچکا ہے۔ وہ زمانے کب کے جاچکے جب وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ اچھا ہونے کا انتظار رہا کرتا تھا۔ دنیا بھر میں مختلف شعبوں کے ماہرین دادِ تحقیق میں مصروف رہتے تھے اور کچھ نہ کچھ ایسا ایجاد ہوتا رہتا تھا جو انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ ترقی کا سفر خاصا سست رفتار تھا۔ ایجادات خاصے طویل وقفے سے ممکن بنائی جاتی تھیں۔ یہی حال دریافت کے شعبے کا بھی تھا۔ ایک زمانے تک تحقیق کا بازار گرم رکھنے کی صورت میں کچھ ایجاد ہو پاتا تھا۔ آزمائش یعنی تجربے کے مراحل بھی متعدد تھے۔ جب تک محققین اپنے آپ کو آزمائش کی کسوٹی پر اچھی طرح پرکھ نہیں لیتے تھے تب تک ایسا کچھ بھی سامنے نہیں لا پاتے تھے جو ایک دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے۔ ششدر رہ جانے کے لیے انگریزی میں لفظ awe استعمال ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں اِس لفظ کے مفہوم میں خوف نمایاں تھا یعنی کوئی ایسی بات جس سے خوف زدہ ہوکر انسان کا ذہن ہتھیار ڈال دے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس لفظ کا مفہوم بدلتا گیا۔ اب یہ لفظ ایسی کیفیت کو بیان کرتا ہے جسے دیکھ کر انسان یہ سوچے کہ جو کچھ وہ اب تک سوچتا اور سمجھتا آیا ہے وہ کیا تھا۔ یعنی کوئی ایسی کیفیت جو اِس دنیا کے بارے میں آپ کے ادراک کو ناقابلِ یقین حد تک تبدیل کردے۔
برکلے یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات ڈیچر کیلٹنر نے اپنی تازہ کتاب Awe: The New Science of Everyday Wonder and How It Can Transform Your Lifeمیں اِس نکتے پر مدلل بحث کی ہے کہ حیران رہ جانے کا عنصر ہی وہ کیمیا ہے جو آج ہماری زندگی میں بے پایاں نوعیت کی مسرّت کا اہتمام کرسکتا ہے۔ ہم زندگی بھر طمانیتِ قلب کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ دولت کے ذریعے سب کچھ پانے کے مغالطے کا شکار رہتے ہیں مگر جب ڈھیروں دولت مل جاتی ہے تب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ایساکچھ نہیں ہے یعنی حقیقی مسرّت کا دولت سے کوئی خاص تعلق نہیں۔
یونیورسٹی آف ٹورونٹو (کینیڈا) کے محققین نے بتایا ہے کہ جن کی زندگی میں یکسانیت ہوتی ہے وہ رفتہ رفتہ مزاجاً سست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اختلاجِ قلب اور ذیابیطس جیسے امراض سے دوچار ہونے کا خطرہ بھی کم نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کی زندگی میں خوش گوار حیرت کا تاثر قدم قدم پر یقینی ہوتا ہے وہ خوش رہتے ہیں۔ اُن کی زندگی مجموعی طور پر متوازن رہتی ہے اور وہ اپنے معمولات میں بھی خاصی فرحت محسوس کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے اِس سے زیادہ مثالی کیفیت کیا ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے معمولات سے بھی راحت پائے؟ ڈیچر کیلٹنر کہتے ہیں کہ حقیقی مسرّت اس بات سے مشروط ہے کہ آپ حیرت کے عنصر کو زندگی کا حصہ بنائیں یعنی ایسی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ لیں جو آپ کو کسی نہ کسی حد تک چونکادیں، کچھ ایسا نیا دکھائیں جو آپ کے ذہن میں پائے جانے والے متعلقہ تصورات کو تھوڑا سا بدل دے۔ جو لوگ حیرت کے عنصر کو زندگی کا حصہ بناتے ہیں وہ رفتہ رفتہ خالص مادہّ پرست نقطۂ نظر سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی زندگی روحانی بالیدگی کا تصور پنپتا جاتا ہے۔ ہم ایسی بہت سے سرگرمیوں سے دور ہوچکے ہیں جو بہت آسان ہیں اور ہمیں خاصی راحت دیتی ہیں۔ اِن سرگرمیوں میں بہت زیادہ چونکانے کی صلاحیت تو نہیں ہوتی مگر پھر بھی اُن کے ذریعے ہم تھوڑی سی خوش گوار حیرت کے حامل ضرور ہو پاتے ہیں۔ جو سبزیاں ہم روزانہ کھاتے ہیں اُنہیں کھیتوں میں دیکھنے کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ آلو، پیاز، ٹماٹر وغیرہ کھیتوں میں دیکھیے تو عجیب راحت محسوس ہوتی ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ اپنے آنگن میں اُگانے کی کوشش کیجیے تو؟ تب تو کسی اور ہی طرح کی مسرّت حاصل ہوتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جو پھل آپ ٹھیلے سے خرید کر کھاتے ہیں وہی پھل کسی کے گھر میں درخت پر لگے ہوئے دکھائی دیں تو عجیب سی مسرّت ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ وہی پھل ہیں جو ہم ٹھیلوں سے خریدتے ہیں مگر جب ہم اُنہیں شاخوں پر لگے ہوئے دیکھتے ہیں تو منفرد سا خوشگوار احساس ہوتا ہے۔ یہی ہوتا ہے حیرت کا عنصر۔ اِسی طور جو لوگ گھر میں پرندے، بلیاں، بکریاں وغیرہ پالتے ہیں اُن کا مزاج بیشتر وقت خاصا شگفتہ رہتا ہے۔ پرندے، بلیاں اور بکریاں وغیرہ پالنے سے گھر میں رونق سی لگی رہتی ہے اور اِس رونق کے بطن سے ہمارے لیے یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ thrill سی ہویدا ہوتی ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ لازم نہیں کہ ہر چونکانے والی بات ہی ہمیں بھرپور مسرّت سے ہم کنار کرے۔ معمول سے ہٹ کر کیا جانے والا کوئی بھی کام زندگی میں تھوڑی سی خوش گوار تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے۔ معمولات کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرنے سے ہم یکسانیت کے نتیجے میں بیزاری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یکسانیت اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیزاری سے نجات پانے کے لیے متعین باقاعدگی کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہنا لازم ہے۔ نیا کرنے کا مطلب پوری زندگی کو بدلنا نہیں بلکہ ایسی سرگرمیوں پر متوجہ ہونا ہے جو ہمیں معمولات کے دائرے سے تھوڑا سا نکالیں۔ مثلاً آپ جہاں کام کرچکے ہیں وہاں دو تین ماہ میں ایک بار کچھ دیر کے لیے جانا بھی آپ کی خوش مزاجی کے دائرے کو تھوڑی سی وسعت دے سکتا ہے۔ جب ہم معمول سے ہٹ کر کچھ کرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ نیا پن تو محسوس ہوتا ہی ہے۔ جو کچھ ہم یومیہ بنیاد پر کرتے ہیں اُسے مختلف طریقوں سے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی صورت میں بھی تھوڑی سی فرحت کا سامان ضرور ہوتا ہے۔ بچے بہت خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں جو کچھ معلوم ہوتا جاتا ہے اُس سے خوشگوار حیرت میں پڑ کر خاصا لطف پاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو زندگی سے لطف کشید کرنا ہے تو بچوں والا مزاج پیدا کرنا ہوگا۔ یہ کام بہت مشکل سہی، ناممکن ہرگز نہیں۔ بچوں کی زندگی میں حیرت کا عنصر ہی رنگینی اور لطف پیدا کرتا ہے۔ ہمیں بھی بچوں کی طرح معاملات سے لطف اندوز ہونا سیکھنا پڑے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved