فاطمہ کی کہانی کیا ایسی ہے کہ ایک دن اخبار کی سرخی بنے اور پھر بھلا دی جائے؟
عالم کے پروردگار نے یہ دنیا آزمائش کے لیے نہ بنائی ہوتی اور یومِ حساب یقینی نہ ہوتا تو یہ وہ ظلم تھا کہ اس پر آسمان سے عذاب نازل ہوتا یا پھر یہ بستی زمین میں زندہ دھنس جاتی۔ فرشتے عذاب کا تازیانہ برساتے اور ظالم عاد اور ثمود کی طرح عبرت کا نشان بن جاتے۔ وہ نظامِ عدل کس کام کا جو ایسے ظلم پر بھی سوموٹو نہ لے سکے؟ اس حکومت کا کیا مصرف جو فاطمہ کی جان بچا سکے نہ آبرو؟ ان سیاسی جماعتوں سے کیا توقعات باندھی جائیں جو اس واقعے پر چپ سادھ لیں؟ وہ اہلِ مذہب خدا کے حضور میں کیا جواب دیں گے جن کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تصورات میں فاطمہ کا کہیں گزر نہیں؟
قرآن مجید کی آخری سورتوں میں بطور ِخاص ہنگامۂ محشر کا ذکر ہے۔ جب قیامت برپا ہو گی تو کیا ہو گا؟ جب انصاف کے لیے لوگ پروردگار کے حضور میں پیش ہوں گے تو اُس دن کا منظر کیا ہو گا؟ سورۃ التکویر کا مضمون بھی یہی ہے۔ ابتدائی آیات میں بتایا گیا ہے کہ قیامت برپا ہو گی تو کیا ہو گا۔ بعد کی آیات بیان کرتی ہیں کہ جب حساب کتاب ہو گا تو سب سے پہلے داد رسی کے مستحق وہ ہوں گے جو اُن کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئے جنہیں ان کا محافظ بنایا گیا تھا۔ دیکھئے‘ قرآن مجید نے سب سے پہلے کس کا ذکر کیا ہے: ''جب اُس سے جو زندہ گاڑ دی گئی‘ پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی؟‘‘ فاطمہ پر ظلم کرنے والوں کا حساب تو سب سے پہلے ہو گا جسے ایک بار نہیں‘ بار بار مارا جاتا اور گاڑا جاتا رہا۔
پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ پڑھی نہیں جا سکتی۔ دس سال کی معصوم بچی کے جسم پر جو بیتا‘ قلم کے پاس وہ سکت کہاں کہ بیان کر سکے۔ درندے بھی ہم جنسوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں کرتے جو انسان نما حیوانوں نے فاطمہ کے ساتھ کیا۔ کون سا گھر ہے جہاں ایک نہ ایک 'فاطمہ‘ موجود نہیں۔ میں بھی ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کیجئے کہ وہ آپ کے اور میرے گھرمیں پیدا ہونے والی فاطمہ تھی۔ پھر سوچئے کہ اس کا درد کیسا ہے؟
امریکہ کی غلامی کے خلاف اٹھنے والوں کی نظر اُس غلامی پر کیوں نہیں پڑتی جو صدیوں سے اس قوم پر مسلط ہے؟ بچپن سے ہم نے اغیار کی غلامی کے بارے میں سنا۔ انگریزوں کی غلامی۔ روس کی غلامی۔ امریکہ کی غلامی۔ اس غلامی سے نجات کے لیے تحریکیں اٹھتی رہیں۔ اُس غلامی کے خلاف مگر کوئی تحریک برپا نہیں ہوئی جو پیری مریدی اور جاگیردارانہ کلچر کی صورت میں اس قوم پر مسلط ہے۔ یہ وہ سماجی غلامی ہے جس کو باقی رکھنے کے لیے مذہب جیسا مقدس نام بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ غلامی ذہنوں سے لے کر جسموں تک‘ ہر شے کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ فاطمہ جیسے معصوموں کے پھول سے بدن بھی اس سے محفوظ نہیں۔
علامہ اقبال نے انگریزوں کی غلامی سے نجات کی بات کی تو غلامی کے ان اداروں کو نظر انداز نہیں کیا۔ اغیار کی سیاسی غلامی اب باقی نہیں رہی۔ جو کچھ ہے وہ انحصار ہے اور اس سے نکلا جا سکتا ہے۔ قومیں اس سے نکلی ہیں۔ مسئلہ تو اس غلامی کا ہے جس کا ہمیں شعور ہی نہیں۔ اقبال نے ہمیں متوجہ کیا تھا:
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری
اشتراکیت داد کی مستحق ہے کہ اس نے جاگیردارانہ نظام کی شناعت کو واضح کیا۔ اس نے شعورِ انسانی کو اس کی سنگینی کی طرف متوجہ کیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اشترکیت نے اس کا جو حل پیش کیا‘ وہ قابلِ عمل ثابت نہیں ہوا۔ اس کی یہ خدمت مگر کم نہیں کہ اس نے لوگوں کو اس بارے میں حساس بنایا۔ پیری مریدی کا نظام جس ظلم کو جنم دے رہا ہے‘ وہ کبھی کسی تحریک کا موضوع نہ بن سکا۔ سندھ اور پنجاب میں خاص طور پر معاملہ دو آتشہ ہے۔ یہاں کا پیر جاگیردار بھی ہے۔ یہ جاگیریں انہی سادہ لوح عوام کا خون چوس کر بنائی گئی ہیں جن کے گھروں میں فاطمہ جیسی بچیاں جنم لیتی ہیں۔ ان ظالموں کے ہاتھ مرید کی جیب پر اور نظریں اس کی فاطمہ پر ہوتی ہیں۔
خانقاہی نظام مسلم تہذیب کا ایک ایسا ادارہ تھا جو تطہیرِ اخلاق کے لیے وجود میں آیا۔ پہلے فلسفیانہ تصوف نے اسے برباد کیا اور پھر نام نہاد پیروں نے۔ عالم اور مرشد‘ علم اور اخلاق کی علامت تھے۔ زوال نے جب ہمارے گھر وں کا رُخ کیا تو ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تزکیۂ علم کے لیے تو بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے عقیدے اور فکر کی اصلاح کے لیے گراں قدر کام کیا۔ اس خانقاہی نظام کی تطہیر کے لیے مگر کوئی تحریک برپا نہیں ہوئی۔ اصلاح پسندوں نے اس ادارے ہی کو رد کر دیا۔
انہوں نے اس بات کو نظر انداز کیا کہ یہ ادارہ ایک فطری ضرورت کے تحت وجود میں آیا ہے۔ اسے ختم کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ علم کی طرح تزکیۂ اخلاق کے لیے بھی ایک ادارہ لازم ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ خانقاہ کی مخالفت کے بجائے‘ اس کی اصلاح کی کوشش کرتے۔ انفرادی سطح پر بعض کوششیں ہوئیں جیسے مولانا اشرف علی تھانوی جیسے صوفیا نے اس کا اہتمام کیا۔ خرابی مگر یہ ہوئی کہ وہ بھی فلسفیانہ تصوف سے خود کو بچا نہ سکے۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ خانقاہ کا ادارہ قرآن وسنت سے ماخوذ تزکیہ کی اس روایت کو زندہ کرتا جس میں کسی غیر اسلامی فلسفے یا روایت کی آمیزش نہ ہوتی۔
اس خلا نے پیری مریدی کے اس نظام کو پنپنے کا موقع دیا جو مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ عزت کے لیے بھی خطرہ بن گیا۔ فاطمہ اسی نظام کا کشتہ بنی۔ اس کے خاندان کے لیے یہ تصور بھی محال ہے کہ اس کی بیٹی کے قاتل کبھی قانون کی گرفت میں آ سکیں گے۔ یہاں قاتل نے دستانے نہیں پہنے لیکن قانون شاید ہی فاطمہ کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا سکے۔ تاریخ کی شہادت تو یہی ہے۔ملزم کی ماں کے بقول اُس نے تو کبھی ان کنیزوں کو شمار ہی نہیں کیا جو بیٹے کے حرم میں موجود ہیں۔ ان میں دس برس کی فاطمہ بھی تھی۔ جب تعداد نہیں معلوم تو ان کی عمریں کیسے معلوم ہوں گی؟ لوگوں نے ریوڑ کی بکریاں گنی ہوتی ہیں۔ اس نظام میں حوا کی بیٹیاں تو اس لائق بھی نہیں کہ شمار کی جائیں۔ ان کی قیمت بھیڑ بکریوں کی قیمت سے بھی کم ہے۔ ان کی زندگی اہم ہے نہ ان کی موت۔
سماج کی موت یہ ہے کہ وہ ایسے حادثات کو معمول کے واقعات سمجھ کر قبول کر لے۔ کوئی سیاسی جماعت اس پر کسی احتجاج کی ضرورت محسوس نہ کرے۔ کوئی مذہبی تحریک فاطمہ کی حفاظت کے لیے نہ اٹھے۔ ایک مذہبی جماعت نے احتجاج کا اعلان کیا مگر اس کا ہدف بھی ریاست ہے‘ پیری مریدی کا وہ ظالمانہ نظام نہیں جو اس ظلم کی بنیاد ہے۔ جب سماج جڑانوالہ کے مظلوموں اور فاطمہ جیسے کمزوروں کے لیے آواز اٹھانے سے انکار کر دے تو پھر اس کی تجہیز و تدفین کا اہتمام کرنا چاہیے۔ جب فاطمہ کے لیے بھی نظامِ عدل سوموٹو کی ضرورت نہ سمجھے تو پھر قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس بے حسی کے بعد بھی کیا قیامت کے جواز کے لیے کسی عقلی دلیل کی ضرورت ہے؟ ایسا دن انصاف کا تقاضا ہے جب فاطمہ جیسے مظلوموں کے مجرم کیفرِ کردار تک پہنچیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved