ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم اُن امور پر فوکس کرتے ہیں جو ہمارے لیے اہمیت کے حامل نہیں ہوتے۔ ہم اُن امور میں پھنسے رہتے ہیں جو دنیا کے دیگر ممالک میں آسانی سے طے کر لیے جاتے ہیں۔ اب صدرِ مملکت کی ایک ٹویٹ پر نہ ختم ہونے والی بحث جاری ہے۔ صدرِ مملکت کا دعویٰ درست تھا یا غلط‘ ہم اسی جھمیلے میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے کچھ اور ہو نہ ہو‘ سیاسی بے یقینی میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ صدر کے آرمی ایکٹ ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہ ہونے کی خبر کے بعد کاروباری ہفتے کے پہلے ہی روز سٹاک ایکسچینج میں مندی دیکھی گئی۔ کے ایس ای100 انڈیکس میں 770پوائنٹس کی کمی کے بعد 48ہزار پوائنٹس کی حد برقرار نہ رہی اور 78فیصد سے زائد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت کم ہو گئی۔ سرمایہ کاری مالیت بھی 114ارب 38کروڑ 5لاکھ روپے گھٹ گئی اور کاروباری حجم بھی تقریباً17فیصد کم رہا۔ گو کہ سٹاک ایکسچینج کی مندی کے دیگر عوامل بھی ہیں لیکن منفی خبروں کی وجہ سے بھی معیشت کو زبردست جھٹکے لگ رہے ہیں۔
صدرِ پاکستان کا مذکورہ ٹویٹ میں اللہ کو گواہ بناتے ہوئے کہنا تھا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے اور انہوں نے دونوں بلز بغیر دستخط کیے واپس بھجوا دیے تھے۔ صدرِ مملکت کے مطابق انہوں نے عملے سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا بل واپس بھجوائے جا چکے ہیں جس پر انہیں یقین دلایا گیا کہ بلز واپس بھجوائے جا چکے ہیں۔ صدرِ مملکت کے بقول ان کا عملہ مگر اُن کی مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔ یعنی صدر صاحب نے سارا ملبہ اپنے پرنسپل سیکرٹری پر ڈال دیا اور اُن کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو واپس بجھوا دیں۔ لیکن پرنسپل سیکرٹری آگے سے ڈٹ گئے اور صدر کے نام ایک خط میں کہا کہ صدر نے دونوں بلوں کی نہ توثیق کی‘ نہ ان کو واپس بھجوانے کا تحریری حکم دیا۔ دونوں بل ابھی تک سیکرٹری آفس کو موصول نہیں ہوئے اور صدارتی چیمبر میں موجود ہیں۔ صدر کسی بھی تحقیقاتی ایجنسی سے معاملے کی چھان بین کرا کر ذمہ داروں کا تعین کریں۔ میری خدمات کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کرنا انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں۔ ان کے مطابق اس سے قبل صدر منظور یا واپس کیے گئے ہر بل پر تحریری وجوہات کے ساتھ دستخط کرتے تھے۔
اب صدر اور اُن کے پرنسپل سیکرٹری دونوں کا مؤقف سامنے آ گیا ہے۔ پرنسپل سیکرٹری تو اور ہی کہانی سنا رہے ہیں۔ صدرِ مملکت کو بھیجے گئے ہر بل کے ساتھ ایک سمری ہوتی ہے جو نیچے سے اوپر تک جاتی ہے‘ اُس پر ڈپٹی سیکرٹری سے لے کر صدر کے پرنسپل سیکرٹری تک کے دستخط موجود ہوتے ہیں۔ ان دونوں بلوں کی سمری بھی صدر صاحب کو پیش کی گئی اور ان سے کہا گیا کہ آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے ان بلوں کی منظوری دینی ہے یا نہیں۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ صدر صاحب نے ان کی منظوری نہیں دی اور نہ ہی بلوں کو پارلیمنٹ کو واپس بھجوانے کے لیے کوئی تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ انہوں نے فائل سیکرٹری کو ویسے ہی واپس کر دی اور کہا کہ اس کا فیصلہ کچھ عرصے بعد کریں گے۔
نگران وزیر قانون نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ صدرِ مملکت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلوں پر دستخط نہیں کیے لیکن یہ دونوں بل بغیر دستخط کے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو واپس بھی موصول نہیں ہوئے۔ اب بحث یہ ہے کہ آیا یہ دونوں بل قانون کی شکل ختیار کر چکے ہیں یا نہیں۔ صدر کے اس ٹویٹ کے بعد کچھ قانونی سوال اٹھائے جا رہے ہیں جو میں اپنے قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ پہلا سوال: کیا صدر کا نوٹ لکھ کر بلز کو مسترد کرنا ضروری ہے؟ دوسرا سوال: اگر ایوانِ صدر کی جانب سے بل کو واپس نہ بھیجا جائے تو کیا اس کو قانون مان لیا جائے گا؟ تیسرا سوال: کیا ایوانِ صدر کی قانونی ٹیم کا مؤقف یہ تھا کہ اگر بغیر دستخط بل واپس بھیجا گیا تو یہ قانون بن جائے گا؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب صدر نے بلز کی واپسی کے حوالے سے کوئی تحریری حکم نامہ جاری نہیں کیا تو پھر ایسے میں صدر کے سیکرٹری کیا کر سکتے تھے؟ کیونکہ صدر نے سارا ملبہ اپنے عملے پر ڈال دیا ہے۔ صرف الزام لگانا ہی کافی نہیں‘ بلکہ صدر صاحب کو یہ الزامات ثابت بھی کرنا پڑیں گے۔ کیا اُن کے پاس اپنے الزامات ثابت کرنے کے لیے ثبوت موجود ہیں؟ اب پی ٹی آئی نے صرف صدر کی ٹویٹ کی روشنی میں سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کردی ہے جس میں تحریک انصاف کے وکلا ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے کہ چونکہ یہ قوانین بدنیتی سے منظور کیے گئے‘ اس لیے انہیں کالعدم قرار دیا جائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ سے پہلے پہلے اس کیس کی نَیا پار لگ جائے گی۔ اگر چیف جسٹس ان قوانین کو معطل کر دیتے ہیں تو یہ درمیان میں لٹکے رہیں گے۔ بعض قانونی ماہرین کی رائے میں پھر شاہ محمود قریشی اور عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا نہیں ہو سکے گی۔ اُدھر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت بھی وجود میں آچکی ہے جس نے اسی ایکٹ کے تحت شاہ محمود قریشی کا سائفرمعاملے پر چار روز کا جسمانی ریمانڈ بھی دے دیا ہے۔ یعنی اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے بعد یہ تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف متحرک بھی ہو چکا ہے۔
ایک طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ساری گیم عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو سائفر معاملے میں بچانے کیلئے کھیلی گئی۔ صدر صاحب پر یہ تنقید ہو رہی ہے کہ انہوں نے پارٹی کا آلہ کار بن کر دباؤ میں ایسا ٹویٹ کرکے بے یقینی کی کیفیت پیدا کی۔ صدرِ مملکت نے اس سے قبل کئی بلز دستخط کیے بغیر واپس بجھوائے اور اُن کے حوالے سے ایسا کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوا‘ لیکن اب ایسا کیا ہوا کہ یہ تنازع کھڑا ہو گیا۔ کیا عارف علوی صاحب کو صرف اپنی پارٹی کے قائدین کو بچانا مقصود ہے؟ عارف علوی صاحب کی ساکھ کو اسی قسم کے طرزِ عمل کی وجہ سے پہلے بھی نقصان پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے عمران خان کی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرکے بھی غیر آئینی کام کیا تھا‘ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ صدر غیر جانبدار نہیں بلکہ وہ پی ٹی آئی کے نمائندہ بنے ہوئے ہیں۔ مذکورہ ٹویٹ کے بعد سیاسی رہنماؤں کی جانب صدر صاحب سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ صدرِ مملکت کا عہدہ وفاق کی علامت ہے۔ صدر ریاستِ پاکستان کا سب سے بڑا نمائندہ ہیں۔ اگر اُن کا سٹاف ان کی مرضی کے خلاف جا کر کوئی خلافِ ضابطہ کام کرتا ہے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر صدر سمجھتے تھے کہ اُن کے پاس ان قوانین کے دفاع کا کوئی جواز نہیں تو وہ ان قوانین کے خلاف خط لکھ سکتے تھے۔ اپنے اعتراضات کا اظہار کر سکتے تھے۔میں آپ کو اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ جب سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی طرف سے گورنر پنجاب کو قبل از وقت اسمبلی کی تحلیل کی سمری بھجوائی گئی تو گورنر پنجاب نے کہا کہ میں اس غیر آئینی کام کا حصہ نہیں بنوں گا پھر ہم نے دیکھا کہ اسمبلی گورنر پنجاب کے دستخط کے بغیر ہی تحلیل ہو گئی۔ یعنی آئین میں بہت گنجائش موجود ہے لیکن صدر صاحب نے اس راستے کا انتخاب کیا جس سے آئینی بحران نے جنم لیا۔
دوسری جانب صدرِ مملکت کی طرف سے ایک خط کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو آئندہ عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے مشاورت کی دعوت دی گئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چیف الیکشن کمشنرنے اس حوالے سے ایک مشاورتی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے‘ اب دیکھیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved