رات کے اندھیرے میں کہیں کہیں روشنی تھی۔ پہاڑوں کے درمیان رات ویسے بھی زیادہ تاریک لگنے لگتی ہے اور اگر وہ رات پورے چاند کی رات نہ ہوتی تو یہ مہم ناممکن تھی۔ بہتے چشموں اور ندی کی آوازیں‘ بہتی ہوا کی آوازوں کے ساتھ رات کے سکوت میں گھل مل جائیں تو رُخ کا تعین بھی ممکن نہیں رہتا۔ ہم اپنے کیلاش رہنما کے پیچھے پیچھے بلند پہاڑ پر چڑھے جار ہے تھے۔ پہاڑ پر نہ کوئی باقاعدہ راستہ تھا‘ نہ سیڑھیاں؛ چنانچہ پتھروں کو پکڑ پکڑ کر چڑھنا ہی ممکن تھا۔ چڑھتے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی لیکن وہ مقام آنے کا نام نہیں لیتا تھا جہاں کیلاش قبیلے کا تہوار تھا۔
''اب کتنی دور اور مرے دوست‘‘؟ میں نے ہانپتے ہوئے سوال کیا۔ ''بس وہ جہاں روشنی ہے۔ وہاں جانا ہے‘‘۔ اس نے نصف پہاڑ کی بلندی پر ایک ٹمٹماتی روشنی کی طرف اشارہ کیا۔ روشنی اچھی خاصی دور تھی۔ اپنے آپ کو باآوازِ بلند بُرا بھلا کہنا نہایت مشکل کام ہے لہٰذا جی چاہا دانت پیس کر اپنے آپ کو زیرِلب بُرا بھلا کہوں کیونکہ یہ آئیڈیا میرا ہی تھا۔ اس وقت یہی لگا کہ خواہ مخواہ اپنی بیگم اور بچوں کے ساتھ یہ مہم جوئی شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی‘ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ اب ہم پہاڑ کی بلندی پر ٹنگے کھڑے تھے۔
ہم کل شام چترال میں کیلاش قبائل کی تین وادیوں بمبوریت‘ رمبور اور بریر میں سے ''بمبوریت‘‘ پہنچے تھے۔ میاں بیوی اور تین بچوں نے کیلاش وادیوں کو دیکھنے کے شوق میں دو تین دن کا سامان لیا‘ باقی سامان چترال ہی میں چھوڑا اور جیپ کرائے پر لے کر چل نکلے۔ کیلاش قبائل کی بڑی اور حسین ترین وادی بمبوریت چترال سے تقریباً چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘ لیکن اس راستے میں چترال سے بارہ پندرہ کلومیٹر دور وہ خوبصورت وادی اور گاؤں آتا ہے جسے ''آیون‘‘ کہتے ہیں اور جس کی غیرمعمولی خوبصورتی آنکھوں سے اب تک محو نہیں ہوتی۔ آیون کی وادی میں پہاڑوں سے بتدریج اترتا دریائے بمبوریت کا سبز گوں پانی‘ دریائے چترال کے مٹیالے پن سے آملتا ہے اور پھر یک رنگ اور یک جان ہوکر یہاں سے آگے سفر کرتا ہے۔ یہاں سے کیلاش وادیوں کے لیے جیپ کی چڑھائی شروع ہوتی ہے۔ پہاڑی بکریوں کے ریوڑوں کے درمیان سے چڑھائی چڑھتے‘ پہاڑ کی کمر سے چمٹ کر سفر کرتے جیپ ایک موڑ مڑ کر ٹھہر گئی۔ نیچے ایک سبز جزیرے کی طرح آیون کی آبادی نظر آرہی تھی۔ یہ منظر دَم سادھ کر دیکھنے والا تھا اور سورج ترچھی کرنوں سے اسے دَم سادھے ہی دیکھ رہا تھا۔
اُدھڑے ہوئے راستے کو سڑک کہنا دل گردے کا کام تھا۔ نوکیلی چٹانوں کے چھجوں تلے جیپ گزرتی تو غیر شعوری طور پر مسافر بھی سر نیچے کر لیتے۔ بالآخر سامنے ایک پہاڑ آکھڑا ہوا اور بمبوریت کی وادی کا نشان نظر آیا۔ جہاں پہاڑ کے ساتھ دائیں طرف بریر اور بائیں طرف بمبوریت کو راستہ جاتا تھا‘ جیپ بائیں طرف مڑ گئی۔ بمبوریت پہنچے تو سہ پہر ہو چلی تھی۔ ٹورازم اتھارٹی کا ہوٹل ہی ٹھہرنے کے لیے محلِ وقوع کے لحاظ سے سب سے بہتر نظر آیا۔ کھلا اور وسیع ہوٹل‘ جس میں کمروں کے سامنے کھلے لان ہیں اور عقب میں ایک چھوٹی سی گنگناتی ندی گزرتی ہے۔ بمبوریت وادی ایک غیرمعمولی دلکش وادی ہے جو سطح سمندر سے قریباً 3700 فٹ بلند ہے۔ اطراف پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ہم بلند پہاڑوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے جو بیرا ہماری خدمت پر مامور تھا‘ وہ کیلاش تھا اور چترالی لہجے میں صاف ستھری اردو بولتا تھا۔ اسی مکالمے میں پتا چلا کہ آج پورے چاند کی رات ہے اور کیلاشی ایک چھوٹا سا تہوار اس رات میں مناتے ہیں۔ قدرے تذبذب کے بعد اس نے ہامی بھر لی کہ وہ رات کو کھانے کے بعد ہمیں تہوار والی جگہ پر لے جائے گا۔ اور اب ہم پہاڑی بکروں کی طرح پتھروں کو پھاندتے‘ نالے نالیاں پھلانگتے‘ سانسیں قابو کرتے‘ چاند کی روشنی میں کیلاش رہنما کے پیچھے پیچھے چڑھے چلے جارہے تھے جہاں نصف پہاڑ کی بلندی پر ایک روشنی جھلمل کرتی تھی۔ آخری چڑھائی ذرا زیادہ دشوار تھی لیکن اس نے ہمیں پھولے ہوئے سانسوں کے ساتھ اس مسطح قطعے تک پہنچا دیا جہاں ڈھول پیٹے جارہے تھے۔ کیلاش عورتیں اپنے روایتی لباس میں اور کیلاش مرد پروں والی ٹوپیاں پہنے ٹولیاں بنائے کھڑے تھے۔ ہمارا رہنما نیم روشن تاریکی میں کسی ٹولی میں مدغم ہو گیا اور ہم ایک طرف ٹک کر تماشا دیکھنے لگے۔ غیر کیلاش افراد میں صرف ہم اس ہجوم کا حصہ تھے اور کیلاش لوگ تہوار میں اتنے منہمک تھے کہ نیم تاریکی میں ایک طرف کھڑے ہم لوگوں کا نوٹس ہی نہیں لیا گیا۔ مردوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔ پروں والی ٹوپیاں ہی کیلاش مردوں کی پہچان بھی ہیں۔ کیلاش لڑکیوں اور عورتوں نے سیاہ روایتی لباس پہنے ہوئے تھے جس پر سرخ اور پیلے رنگ کی خوبصورت کڑھائی اور نقش و نگار غالب تھے۔ کہیں کہیں سبز اور نیلا رنگ بھی مرصع چنریوں اور مزین پٹکوں میں جھلک پڑتا تھا۔ انہوں نے عمر کے اعتبار سے تین تین اور چار چار کی ٹولیاں بنائی ہوئی تھیں۔ ہر ٹولی کی عورتوں نے ایک ساتھ ایک رُخ پر کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے شانوں پر ہاتھ پھیلائے ہوئے تھے یا کمر میں ڈالے ہوئے تھے۔ بے معنی‘ لہریے دار آوازیں نکالتے ہوئے جن کا واحد مطلب یہی لیا جا سکتا تھا کہ یہ طربیہ چیخیں ہیں۔ یہ ٹولیاں چھ سات قدم آگے آتیں‘ پھر پیچھے جاتیں۔ پھر یہ ڈار ایک قوس کی صورت میں گھومتی اوردائرہ مکمل کرنے سے پہلے سیدھی ہو جاتی۔ ہر کچھ دیر بعد ایک ٹیپ کے بند کی طرح خوشی کی آوازیں بلند ہوتیں۔ منظر اور چاند کے رُخ بدلتے گئے۔ کچھ دیر گزر جانے پر یہ مناظر منجمد کرنے کے لیے میں نے کیمرہ نکالا۔ اسے سیٹ کیا اور پہلی تصویر کھینچی۔ فلیش کی چکا چوندجیسے ہی لوگوں کے چہروں پر پڑی‘ غصے بھری چیخیں بلند ہوئیں اور تمام ہجوم کی توجہ ایک دم میری طرف ہوگئی۔ ''کیلاشا‘‘ زبان سمجھ نہ سکنے کے باجود میں سمجھ سکتا تھا کہ تمام کیلاش برہم ہیں کہ ان کی ذاتی زندگی میں کس نے یہ بلا اجازت مداخلت کی ہے۔ یہ جسارت ہے کس کی؟ جیسے ہی کچھ مرد میری طرف دوڑے‘ مجھے یقین ہو گیا کہ پورن ماشی کی رات اتنی بلندی پر میری ٹھکائی ان کے تہوار کی خوشی میں اضافہ کرے گی لیکن اسی لمحے اچانک ہمارا رہنما کہیں سے ان لوگوں کے سامنے‘ میرے آگے آکر کھڑا ہوگیا۔ وہ کیلاشا میں چیخ چیخ کر ان سے کچھ کہہ رہا تھا حتیٰ کہ ہجوم اپنی جگہ واپس چلا گیا اور ڈھول کی تھاپ پھر تیز ہونے لگی۔ ہمارے رہنما نے بہت سختی سے ہمیں تصویر لینے سے منع کیا لیکن اس رات اور اس تہوار کی بہرحال ایک تصویر لی جا چکی تھی۔
بمبوریت اور بریر کی وادیاں آپس میں ایک سرے سے ملی ہوئی ہیں اور ان میں رسم و رواج اور عقائد میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے۔ البتہ رمبور کے کیلاش کا معاملہ الگ ہے اور وہ باقی کیلاش سے مختلف بھی ہیں۔ کیلاشا زبان ایک الگ زبان ہے جس کے حال ہی میں باقاعدہ قواعد مرتب کیے گئے ہیں۔ کیلاش کے تین بڑے تہوار چلم جوشی (وسط مئی)‘ اچھاؤ (موسم خزاں)‘ چاؤ مس (سردیو ں کے درمیان) منائے جاتے ہیں۔ ان سب کا تعلق کسی نہ کسی عقیدے‘ روایت یا فصلیں پکنے یا کاٹنے کے موسموں سے ہے۔ دنیا کے ہر تمدن اور ہر تہذیب سے دیکھنے اور سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ اسی لیے مجھے اس کا بہت شوق ہے۔ اس رات ایک بات ہمیشہ کے لیے دل میں جم گئی اور وہ یہ کہ اگر کوئی قوم اپنے لباس‘ اپنی روایات‘ اپنے عقائد‘ اپنے رہن سہن اور اپنی زبان پر جم جائے تو باقی دنیا کو اس کا احترام کرنا ہی پڑتا ہے۔ اسے ماننا ہی پڑتا ہے اور ہم جو اتنے عظیم مذہب‘ اتنی کمال تہذیب‘ اتنی حسین روایات‘ اتنی خوبصورت زبان کے وارث ہیں۔ ہے کوئی اپنے لباس‘ اپنے عقائد‘ اپنی روایات‘ اپنے رہن سہن اور اپنی زبان کا احترام کروانے والا؟ ہے کوئی گمشدہ نسل سے سبق سیکھنے والا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved