نام جو بھی ہو‘ دیکھنا تو کام ہوتا ہے۔ اور پھر نام نگران ہو‘ عبوری ہو یا تیرہ جماعتی حکومت‘ ایسا ہر بندوبست حکومت ہی تو کہلاتا ہے۔ یہاں رئیسانی صاحب کی سَند والی بات بالکل صادق آتی ہے۔ موجودہ نگران حکومت سے پہلے آٹھ ایسی حکومتیں آچکی ہیں۔ اکثر تو اب یاد ہی نہیں کہ وزرائے اعظم کون تھے‘ کہاں سے آئے تھے‘ کون انہیں لایا تھا اور اپنے فرائض پورے کرنے کے بعد وہ کہاں چلے گئے۔ اب ہم نویں نگران حکومت کی نگرانی میں روز و شب بسر کررہے ہیں۔ اور نگران بھی ایسے کہ شاید جو موقع انہیں ان کی ذاتی صلاحیتوں‘ وطن سے محبت اور جمہوریت کی کشش کی وجہ سے ملا ہے‘ شاید دوبارہ نہ مل سکے۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے کیا خوب فارسی کا شعرکہا یا پھر یہ ان سے منسوب ہوگیا ''بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘۔ مجھے غلط نہ سمجھیں‘ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا کہ نئی اور نویں نگران حکومت عیش کررہی ہے۔ دراصل تیرہ جماعتی حکومت بہت سے کام ادھورے چھوڑ گئی۔ وہ بھی کیا خوب تجربہ تھا۔ ظاہر ہے کہ حکومتوں کے کاموں میں تسلسل ہوتا ہے‘ اور جانے سے پہلے وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جو اُن کے دور میں پاکستان کا ترقی کی جانب تیز رفتار سفر شروع ہوا تھا‘ اسے جاری رکھا جائے۔ ملک کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کا جو وژن اور خواب تھا‘ نگران حکومت اسے جاری رکھے گی۔ یہ ٹائیگر والی بات شاید آپ بھول چکے ہوں۔ رائے ونڈ والوں کی نواب شاہ والوں سے سیاسی جنگ تھی‘ یہ اسی سنہرے دور کی بات ہے کہ جب لاہور کے قریب والے پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر بنانے کے نعرے لگائے گئے‘ لیکن عجیب بات ہے کہ چوتھی دفعہ اقتدار میں آنے کے بعد ایشیائی ٹائیگر والی بات اُن کی زبانوں سے ایسی غائب ہوئی جیسے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا انقلابی نعرہ۔
تیرہ جماعتی حکومت جو بالکل آئینی اور جمہوری طریقے سے بنی تھی‘ اس کے بارے میں خواہ مخواہ بے تُکا پروپیگنڈا کیا گیا کہ درآمدی تھی۔ ناچیز کا ذاتی خیال ہے کہ بالکل مقامی ساختہ تھی۔ کیا ہوا اگر اس کی سیاسی اُٹھان کے پیچھے کسی اور کی سیاست تھی۔ یہ ہم نہیں بتا سکتے کہ ایسی فہم و فراست کے مالک کون تھے جنہوں نے سوچا کہ پاکستان کو معیشت کے بحران اور سیاسی کشمکش سے بچانے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ تیرہ دھڑوں کو اکٹھا کیا جائے اور حکومت کی باگ ڈور ان کے حوالے کرکے پاکستان کو استحکام اور ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا جائے۔ پندرہ ماہ کی اس حکومت کے بعد آپ خوب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امریکی کرنسی ہو یا کسی اور ملک کی‘ ان کرنسیوں نے پاکستان میں کتنی ترقی کی ہے۔ مہنگائی نے بھی ہمیشہ اوپر کی اُڑان جاری رکھی ہے۔ یہ شاید آپ کو معلوم ہی ہو کہ کھربوں کے مزید قرضے بھی ہماری ترقی کی دلیل ہیں۔ پٹرول کی قیمت کی اب کیا بات کرنی کہ ہم تو پہلے ہی پیدل تھے‘ اور اب بھی ہیں۔ فرق تو عوام کو پڑے گا کہ انہیں موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر ترقی کے نظارے کرنے کے لیے کچھ قربانی تو دینا پڑے گی۔ نگران حکومت کی کابینہ اور وزیر مشیر کا انتخاب کرنے کے لیے بہت محنت اور سوچ بچار کے بعد ملک کے کونے کونے سے بہترین دماغوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ملک کو بحرانوں سے نکالیں۔ تو ظاہر ہے کہ ان ذہین دماغوں سے بہتر پاکستان کے مسائل کا کیا کسی کو ادراک ہوگا۔ ذاتی طور پر تو ہم ہمیشہ یہ بات کرتے آئے ہیں کہ نگران وہی کریں جو ان کا آئینی فرض ہے یعنی نوے دنوں میں انتخابات کرائیں اور پھر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں۔ اس مرتبہ چونکہ ''ترقی‘‘ کا عمل جو جاری رکھنا مقصود ہے تو انہیں مزید اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔ ایک لحاظ سے ان کے غیرمنتخب ہونے پر اعتراض نہیں بنتا‘ وہ بھی کسی کا حسنِ انتخاب ہیں۔ ہمارے ہاتھ دعا کے لیے بلند ہیں‘ اورسب دعائیں ان کے لیے لب پر تمنا بن کر آرہی ہیں کہ وہ مسائل کو روایت کے مطابق آنے والوں پر نہ چھوڑیں اور کچھ کر دکھائیں۔ اب دیکھنا تو یہ ہوگا کہ وہ کیا کر دکھاتے ہیں کہ اس حکومتی جہاز کو گہرے سمندر میں تو ڈال دیا گیا ہے اور کم از کم اس کے عملے کے چند افراد جانتے بھی ہیں کہ اسے کیسے چلانا ہے‘ مگر اس کی ہمت اور منزل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس نئے تجربے کے بعدجب کوئی اور تجربہ ہوگا‘ کوئی پرانا جہاز اور اس کا عملہ دوبارہ بدلا جائے گا تو کچھ حساب کتاب عوام کے ذہنوں میں ہوگا۔ سوال ہمیشہ کی طرح یہ ہوگا کہ آپ کے ذمے کیا تھا اور حضور آپ کیا کرتے رہے ہیں؟ انتخابات کی بات کریں تو ابھی سے کہہ رہے ہیں کہ یہ تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ کارکردگی کا سوال اٹھے گا تو کہیں گے کہ وہ نگران تھے‘ انتخابات کرانے آئے تھے۔ اور یہ بھی ہم ان سے سن چکے ہیں جنہیں یہ کردار ماضی میں سونپا گیا تھا کہ وقت بالکل محدود تھا‘ وہ کیا کر سکتے تھے۔ اگر جلد بازی میں نئے قانون بنائے جا سکتے ہیں تو جو پہلے سے قوانین موجودہیں‘ ان کا نفاذ کرنے میں تاخیر کیوں؟ ایسے کام جو روزمرہ نوعیت کے ہیں‘ حکومتیں اپنی اور ریاست کی حیثیت کو قائم کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ شہروں اور دیہات میں غلاظت کے ڈھیر کسے نظر نہیں آتے؟ صرف وہ علاقے صاف ہیں جہاں امیر کبیر لوگ رہتے ہیں۔ گلی گلی‘ کوچے کوچے‘ دریائوں‘ نہروں اور سڑکوں پر آپ کو پلاسٹک کے لفافے نظر نہیں آتے؟ پاکستان کا کون سا علاقہ ہے جہاں بجلی چوری نہیں ہوتی اور اس میں مقامی عملہ ملوث نہیں ہوتا۔ ہمارے سرکاری دفتروں میں کتنے لوگ ہیں جو وقت پر آتے اور جاتے ہیں۔ اور پھر آپ دیکھتے نہیں کہ لوگوں کو دفاتر کے چکر لگوا لگوا کرکیسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سرکاری اہل کاروں کی جیبوں میں کچھ ڈالیں۔ ہر جگہ آپ کو ملاوٹ نظر نہیں آتی؟ ظلم دیکھیں‘ ہر جگہ جعلی دودھ‘ کیمیائی مادوں کی ملاوٹ کھلے عام ہو رہی ہے۔ سرکار‘ آپ نے ایسا ہر کام روکنے کے لیے عملہ بھی بھاری تنخواہ پر رکھا ہوا ہے۔ بہتری کے لیے صرف احساسِ ذمہ داری درکار ہے جو کہیں نظر نہیں آتا۔
نئی حکومت میں مجھے تو کوئی نیا پن‘ تحریک‘ جوش و جذبہ اور معمولی نوعیت کے شہری مسائل کی طرف توجہ ابھی تک دکھائی نہیں دی۔ ہماری معیشت کے ساختی نوعیت کے مسائل پر گزشتہ چالیس برسوں سے قومی اور بین الاقوامی اداروں نے بے شمار تجزیے‘ رپورٹس اور پالیسیاں بنا رکھی ہیں۔ ان میں حکومت کے اخراجات میں کمی‘ توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو‘ بدعنوانی کا خاتمہ‘ دستاویزی معیشت‘ ٹیکس نادہندگان سے ٹیکس کی وصولی‘ سرکاری مراعات میں کمی شامل ہیں۔ ماضی میں جو آتے جاتے رہے‘ انہوں نے کچھ نہیں کیا بلکہ طاقتور مافیاز جو منظم انداز میں کام کرتے ہیں‘ اپنی صفوں میں رکھے ہوئے تھے۔ سوچیں اگر مافیاز طاقتور ہو جائیں تو پھر ریاست کے اداروں کو وہ اپنی منشا اور مفادات کے مطابق کیوں نہ چلائیں گے۔ کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں‘ سٹیل مل کو نہ چلا سکیں‘ نہ اس کی نجکاری ہو سکی۔ قومی ایئر لائن سینکڑوں ارب کے خسارے میں ہے‘ ریلوے کا حال آپ کو معلوم ہی ہے کہ صرف غریب خطرہ مول لے کر ہی اس پر سفر کرتا ہے۔ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ امید کچھ زیادہ نہیں‘ مگر مقدمہ پیش کرنا تو ہمارا فرض بنتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved