پنجاب کے آئینی مقدمے کی قسط نمبر ایک کا اختتام ''آخر یہ لوگ ہیں کون؟‘‘ کے جملے پہ ہوا تھا۔ اس جملے میں مَیں نے اُن لوگوں کا حوالہ دیا ہے جو لہندا پنجاب کے مزید علاقوں کو پرساد سمجھ کر مزید بانٹنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کی اس تقسیمِ مزید کے لیے کام ہوم ورک سے بھی ذرا آگے نکل چکا ہے‘ بڑے غیر محسوس طریقے سے اور دو اقدامات کے لبادے میں۔ آئیے ان کا سرجیکل جائزہ لیں۔
سرزمینِ پنجاب کی تقسیمِ مزید کے لیے پہلا قدم: آپ کو یاد ہوگا کہ پی ڈی ایم حکومت نے جاتے جاتے جلد بازی میں جو ''تَتے تاوّلے‘‘ اقدامات کیے تھے‘ اُن میں سے ایک مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ تھا۔ آئین کے آرٹیکل 153میں صوبوں کے درمیان اہم ترین معاملات پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے ایک کونسل آف کامن انٹرسٹ قائم کی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کی اس کونسل کے ارکان کو صدرِ مملکت تعینات کرتے ہیں‘ جن میں سے وزیراعظم کونسل کا چیئرمین ہوتا ہے جبکہ آرٹیکل 153(2)bکے مطابق صوبائی وزرائے اعلیٰ اس کونسل کے ارکان ہوتے ہیں۔ ہماری ریاست کے فیڈرل سٹرکچر میں مشترکہ مفادات کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جو وفاق کے مختلف یونٹس کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور چاروں وفاقی یونٹس کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ وفاق اور فیڈریشن کی ورکنگ کو ممکن بناتی ہے۔ اس اہم قومی فورم کے ذریعے سے پالیسی میکنگ کے وہ فیصلے‘ جو آئین کے آرٹیکل 154میں درج پائے جاتے ہیں‘ اُنہیں ایڈوائزری باڈی کے طور پر اتفاقِ رائے سے ممکن بناتی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کی اہمیت اور طریقۂ کار پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے مختلف نوعیت کے تنازعات میں بہت سے فیصلے صادر کر رکھے ہیں۔ جن میں سے تین فیصلے مشترکہ مفادات کونسل کی حیثیت و اہمیت کے حوالے سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں سے پہلا فیصلہ سپریم کورٹ منتھلی ریویو سال 1977ء صفحہ 641‘ دوسرا فیصلہPLD سال 1993ء سپریم کورٹ صفحہ 473 اور جبکہ تیسرا فیصلہ PLDسال 2006ء سپریم کورٹ صفحہ 587پر رپورٹ شدہ ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کی تکمیل کے لیے چاروں صوبوں کے اندر عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب کیے جانے والے چیف منسٹر کی موجودگی ضروری ہے۔ آئین کے مطابق کوئی عارضی یا الیکشن کروانے کے لیے 60اور90دن کے لیے لگایا جانے والا نگران وزیراعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل میں نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ ہمارے آئین کی منشا ہے اور اُس کا لیٹر اور سپرِٹ بھی۔
پی ڈی ایم کی آئین اور جمہوریت کے حوالے سے توبہ شِکن طرزِ حکمرانی کی نمائندہ حکومت کے عرصے میں‘ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دونوں وفاقی یونٹس میں اسمبلیاں سِرے سے موجود ہی نہیں تھیں۔ اور نہ ہی ان دونوں صوبوں میں منتخب وزرائے اعلیٰ صوبائی چیف ایگزیکٹیو کے آفس/ عہدے پر تھے۔ اس طرح شہباز شریف نے ایک آئین شِکن اجلاس میں ایک بار پھر ملک میں مردم شماری کا من پسند فیصلہ کر لیا۔ جس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس فیصلے کا بڑا نشانہ صوبۂ پنجاب ہے‘ جس کی نمائندگی مشترکہ مفادات کی کونسل میں نہ ہونے کی وجہ سے ایک غیر منتخب شخص نے ربڑ سٹیمپ کا کردار ادا کیا۔ اس طرح بے وقعت اور بے وقت مردم شماری کا فیصلہ ہوا‘ جس کا ایک ہی ٹارگٹ ہے کہ کسی طریقے سے پنجاب کی آئین میں درج عددی طاقت اور نمائندگی کو غیر مؤثر بنایا جا سکے۔ اپنی طرف سے شہباز شریف نے شریفانہ Status Quoکے خلاف بغاوت کرنے کے جرم میں پنجاب کے عوام کو سزا دینے کا فیصلہ کیا‘ وہ بھی سرزمینِ پنجاب کی تقسیمِ مزید کے ذریعے۔
سرزمینِ پنجاب کی تقسیمِ مزید کے لیے دوسرا قدم: قائداعظم کا دیا ہوا پاکستان آدھا تڑوا کر علیحدہ کرنے کے بعد سال 1973ء میں جبکہ تخلیقِ پاکستان کو ڈھائی عشرے گزر چکے تھے‘ 10اپریل 1973ء کے دن ہم پہلا متفقہ آئین اپنی قوم کو دے سکے۔ یہ آئین اسمبلی نے 12اپریل 1973ء کے دن ملک کے لیے Adoptکر لیا۔ صوبائی خود مختاری اس آئین کا بنیادی وفاقی حصول ہے جس کے آرٹیکل نمبر51 میں 326 ارکان پر مشتمل ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی کا براہِ راست انتخاب ہوتا ہے‘ جس میں سے 141جنرل نشستیں‘ 32خواتین کی نشستیں‘ ٹوٹل 173نشستیں صوبہ پنجاب کے حصے میں آتی ہیں۔ آرٹیکل 51کے سَب آرٹیکل 6کی کلاز (e) کے تحت خصوصی اقلیتوں کے لیے نشستیں ملا کر 342 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ تازہ رپورٹ شدہ اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا ایسا فارمولا تیار کیا ہے جس کے ذریعے سے پنجاب کی نشستوں میں کمی ہونے جارہی ہے۔ جس کے دو اسباب سیاسی منظر نامے پر بڑے واضح طور سے نظر آرہے ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ پنجاب میں عمران خان فیکٹر‘ باقی ساری سیاسی قوتوں کو ملا کر واضح نہیں بلکہ بھاری اکثریت کے ساتھ تمام سرویز میں آگے ہے۔ پی ٹی آئی کی اس عوامی قوت کو محدود کرنے کے لیے پنجاب کو سرزمینِ بے آئین جیسے سلوک کا مستحق سمجھا جار ہا ہے۔ اِس کا دوسرا سبب پنجاب کی سیٹیں ایسے علاقوں میں دھکیلنا ہے جہاں سے سیاست کی ماں باپ پارٹیاں اور منتشر گروپ کم ووٹوں کی طاقت سے جھرلو اور ٹھپے کے ذریعے سے منتخب کروائے جائیں اور پھر انہیں ایک گملے کی پنیری میں لگا کر درِ اقتدارکی آخری راہداری میں سجایا جا سکے۔
وکالت نامہ یہاں تک پہنچا تھا کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ پی ٹی آئی کا وفد تشکیل پایا جسے میں نے لیڈ کیا۔ اتفاق یہ ہوا کہ جمعرات کے دن دو بجے پنجاب کا یہی آئینی مقدمہ مجھے پورے الیکشن کمیشن کے ممبران اور چیئرمین (CEC) کے سامنے پیش کرنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع دے دیا۔ چنانچہ میں نے پنجاب کی تقسیمِ مزید پر سخت تنقید کی اور الیکشن کمیشن کو وارننگ دی کہ ایسا کرنے والوں کو صوبائی خود مختاری کے حامی عوام کبھی معاف نہیں کریں گے۔ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان نے میرے پیش کردہ نکات کو پیچیدہ موضوع پر انتہائی اہم قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے فاضل ممبران نے اس معاملے کے آئینی پہلوؤں پر باری باری سوالات کیے۔ جن کے جواب میں مَیں نے کہا لمبے عرصے کے بعد پاکستان میں صوبائی عصبیت کاخاتمہ ہوا ہے۔ اب کسی بھی بہانے یہ جن دوبارہ بوتل سے باہر آگیا تو اس کی ذمہ داری الیکشن کروانے والے ریگولیٹر پر آئے گی‘ جو آپ ہیں۔چیف الیکشن کمشنر نے یقین دلایا وہ ان نکات کا گہرائی میں جا کر جائزہ لیں گے اور ضرورت پڑی تو دوبارہ اس موضوع پر مزید بات کریں گے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ فیڈریشن بچانے کا واحد راستہ 90روز کی آئینی مدت میں الیکشن کروانے سے کُھلے گا۔ یہ تاریخی تناظر بھی الیکشن کمیشن کے سامنے رکھا کہ پاکستان سیاسی عمل کے ذریعے بنا تھا۔ سیاسی عمل کے ذریعے سے ہی اسے پچھلے 16ماہ کی خوفناک گمبھیرتا سے نکالا جا سکتا ہے۔
پسِ نوشت: اگلا وکالت نامہ اٹک جیل سے آئے گا‘ جہاں قیدی نمبر 804اور میں 90منٹ سے زائد اکٹھے بیٹھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved