کسی سے بھی پوچھا جائے کہ آج کی دنیا کا سب سے خطرناک اور طاقتور ترین ہتھیار کون سا ہے تو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ایٹمی میزائل اور ایٹم بم کیونکہ یہ جہاں گرایا گیا وہاں اس نے ایسی تباہی مچائی کہ ہر چیز ملیا میٹ کر ڈالی۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہوئے آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں لیکن جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ایٹم بموں سے ہونے والی تباہی کے اثرات جانے کا نام ہی نہیں لے رہے لیکن اس جنگ عظیم میں گولہ بارود اور خطرناک اسلحے کے بعد ایک اور خطرناک ہتھیار استعمال کیا گیا جس کے بل بوتے پر جرمنی کسی بھی ملک پر‘ کسی بھی محاذ پر حملہ کرنے سے پہلے ہی آدھی جنگ جیت لیتا تھا۔ جرمنی کے نازی ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے پروپیگنڈا وزیر جوزف گوئبلز سے منسوب ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ''جھوٹ کو اگر بہت کثرت سے دہرائیں تو وہ سچ بن جاتا ہے‘‘۔ گوئبلز کے اس طریقہ کار اور دیے گئے سبق کو آج دنیا بھر میں پروپیگنڈا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ ہتھیار اور اس کی تیاری آج کی دنیا میں با قاعدہ ایک سائنس کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں ایک طرف جرمنی‘ جاپان اور اٹلی تھے تو مقابلے میں امریکہ‘ روس‘ برطانیہ‘ فرانس اور پولینڈ سمیت کئی ممالک تھے۔ اس جنگ میں جرمنوں نے پروپیگنڈے کا ہتھیار بڑی مہارت سے استعمال کیا۔ نازی پروپیگنڈا کے سربراہ کے طور پر جوزف گوئبلز نے بہت سے جھوٹ تیار کیے جنہوں نے جرمن عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا۔ یہ گوئبلز ہی تھا جو جرمنوں سے ہمیشہ یہ کہتا رہا کہ انہیں ہٹلر سے اپنی عقیدت مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے وہ اس کی ہر بات من و عن تسلیم کریں۔ اس نے 1933ء میں برلن میں 'غیر جرمن‘ کتابوں کو جلانے کا منصوبہ بھی بنایا اور پھر کتابیں جلانے کے اس پروپیگنڈا کو پھیلانے کے لیے موشن پکچرز کا استعمال کیا۔جھوٹ بولنے اور جھوٹ پھیلانے میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے جوزف گوئبلز کا تعلق تو جرمنی اور ہٹلر کے ساتھ تھا لیکن اب گوئبلز کے شاگردوں اور وارثان کی تعداد اس قدر زیا دہ ہو چکی ہے کہ وہ شمار میں نہیں آتے۔
تاریخ دان بتاتے ہیں کہ پروپیگنڈا یونانی زبان کا لفظ ہے جو یونان میں رہنے والے ایک شخص کا نام تھا۔ اس شخص کی عادت یہ تھی کہ وہ خود ہی کوئی بات گھڑتا اور پھر اسے اس مہارت سے پھیلا دیتا کہ جس چیز کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا تھا لوگ اسے بھی سچ سمجھ لیتے تھے۔ پروپیگنڈا نام کا یہ شخص یونان بھر میں خاصا مشہور ہو چکا تھا‘ اس لیے ان کے نام کی مناسبت سے ہر جھوٹ اور افواہ کو پروپیگنڈا کا نام دیا جانے لگا۔ یونانی سے یہ لفظ دوسری زبانوں میں بھی استعمال ہونے لگا۔ آج نہ صرف پاکستان میں اس لفظ کا استعمال عام ہے بلکہ پروپیگنڈا تکنیک کا استعمال بھی عروج پر ہے۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے جاتے جاتے میڈلز اور اعزازات کا ایسا اتوار بازار لگایا کہ گزشتہ حکومت کے اس فعل سے پروپیگنڈا کی بو آ رہی ہے۔ جن شخصیات کو اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا اُن میں چند ایک ہی ایسی تھیں جو واقعی اس قابل تھیں لیکن زیادہ تر ایسی شخصیات کا انتخاب کیا گیا جن کی ملک کے لیے برائے نام ''خدمات‘‘ سے شاید ہی کوئی واقف ہو۔ گزشتہ حکومت کی اس مشق کا مقصد معاشرے کے اُس طبقے کی ہمدردی حاصل کرنا تھا جو اُس سے کھنچا کھنچا رہا کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ شوبز اور میڈیا انڈسٹری سے وابستہ زیادہ تر شخصیات کی پی ڈی ایم میں شامل کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی سیاسی وابستگی نہیں اور جن چند ایک کی ہے وہ اُس کی پوری پوری قیمت وصول کرتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ اعلیٰ سول اعزازات کی بندر بانٹ کی صورت میں دیکھا جا چکا ہے۔ بعض طبقات کے نزدیک یہ بھی پروپیگنڈا ہی کی ایک شکل ہے۔ کیا آپ کسی ایسی کُشتی پر یقین کریں گے یا اُس کے ٹکٹ خریدنے کے لیے طویل قطار میں لگنا پسند کریں گے جس کے متعلق آپ کو پہلے ہی سے پتہ ہو کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلنے والا ہے؟ سابقہ حکومت کی طرف سے اعزازات کی بندر بانٹ نے ایسا تاثر ہی قائم کیا ہے۔پی ڈی ایم کی حکومت کی طرف سے جن شخصیات کو اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا گیا ہے‘ لوگ اب ان کی غیر جانبداری پر شک کریں گے۔ اپنے بچوں کو ان لوگوں کی بات نہیں سننے دیں گے۔ یہ اور ایسے ہی دیگر کئی عوامل کی بنا پر اب لوگوں کو پاکستان میں اپنا مستقبل تابناک نظر نہیں آ رہا۔شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارت خانوں کے باہر نہ ختم ہونے والی قطاریں لگی رہتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں کی نظر عنایت یا رشتہ داری کی وجہ سے جو بھی وزیر بنائے جاتے ہیں‘ حلف لینے سے قبل وزارت کا تقرر نامہ ان کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جس وزیر کو جو محکمہ دیا جارہا ہے اس کے متعلق وہ کچھ جانتا بھی ہے یا نہیں ؟چونکہ اپنی وزارت کے بارے میں کچھ جاننا اہلیت کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ ان کے پاس ایک خاصیت لازمی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے حاکم اور اس کے خاندان کی مدح سرائی میں ثانی نہ رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کی بطورِ خاص ترجیح دی جاتی ہے جو جھوٹ کو سچ کا لبادہ پہنانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ایسا صرف اب نہیں ہورہا بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتارہا ہے۔ حکومت میں جو بھی ہو گا ظاہر ہے وہ حکمرانوں کے مفاد کی ہی ترجمانی کرے گا‘ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ زیادہ تر اپوزیشن کی بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ سیاستدان حکومت میں ہوتے ہوئے جو باتیں کرتے ہیں‘ لوگ انہیں سنجیدہ نہیں لیتے اور جیسے ہی یہی سیاستدان اپوزیشن میں آجاتے ہیں تو انہی لوگوں کی باتوں کو عوام سچ سمجھتے ہیں اور ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ بطور حکمران ہمارے ملک میں جو بھی آیا‘ بیشتر نے ملک کے ساتھ زیادہ وفاداری نہیں نبھائی‘ لیکن اپنی تمام تر ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پروپیگنڈا ٹُول کا خوب استعمال کیا ۔ لیکن اب عوام مزید کسی جھانسے میں آنے والے نہیں۔ وہ اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ اس امر کا اندازہ لگا سکیں کہ کون اُن کا اصل خیر خواہ ہے اور کون انہیں مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ مغرب اور امریکہ میں جھوٹ پکڑنے والی مشینیں ایجاد ہو چکی ہیں لیکن ہمارے ملک میں جھوٹ اس طرح پکڑے جا رہے ہیں کہ جب عوام کے سامنے ایک ہی شخص کی برائیاں کی جاتی رہیں‘ اسے برا بھلا کہا جاتا رہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جو کچھ بھی کہا گیا‘ سب جھوٹ ہے‘ من گھڑت ہے۔کوئی شخص اتنا برا کیسے ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں نا کہ زبان اور چہرہ اگر ایک دوسرے کا ساتھ نہ دیں تو سمجھ لیجیے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے ۔سارا دن سکرینوں پر چھائے رہنے والے اور ایک ہی جیسی باتیں ہمہ وقت دہرانے والے پی ڈی ایم جماعتوں کی ترجمانی کرنے والے اکثر افراد کی زبان اور چہرے کے تاثرات نجانے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے کیوں نظر نہیں آتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved