کوئی بھی بچہ جب دنیا میں آتا ہے تو اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، نہ اس کی کوئی زبان ہوتی ہے، وہ پیدائشی طور پر نہ تو انگریزی زبان جانتا ہے نہ اردو‘ نہ ہندی نہ فرانسیسی۔ اس کے والدین اسے جس طرح کی طرزِ زندگی میں ڈھالتے ہیں‘ وہ وہی ڈھب اختیار کر لیتا ہے‘ جو زبان اس کے اردگرد بولی جاتی ہے وہی بول چال وہ بھی سیکھ جاتا ہے۔ ہر ملک کا اپنا قانون‘ اپنا دستور‘ اپنے قاعدے اور اپنا کلچر ہوتا ہے۔ بچہ بڑا ہوتا ہے تو جو کچھ اسے سکھایا جاتا ہے‘ جو کچھ وہ اپنے اردگرد دیکھتا ہے اس کے مطابق وہ بھی ڈھلتا جاتا ہے اور بالآخرمعاشرے کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر اور جدید مغربی ممالک کے قاعدے‘ قانون اور کلچر میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ یہاں پر جو کچھ قانون کی کتابوں میں لکھا ہے‘ جو کچھ نصاب میں پڑھایا جاتا ہے اور جو کچھ اقتدار کے ایوانوں میں تقاریر‘ سیاسی بیانات اور خطابات کی صورت میں سامنے آتا ہے اس کا تعلق عملی زندگی یا حقائق سے کچھ زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان پر کوئی عمل کرتا ہے۔ اسی لیے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں بچہ جب ٹین ایج سے ذرا آگے نکلتا ہے اور جس وقت معاشرے کے مختلف شعبوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے تو اکثر وہ شش و پنج اور دہری شخصیت کے عارضے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر اسے کچھ حقائق پہلے سے نہیں بتائے جاتے تو اس کے لیے بہت سی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ وہ کتابوں میں پڑھائی گئی نصابی باتوں کو عملی زندگی سے جوڑنے کے چکر میں اور اس کے بالکل الٹ ہوتا دیکھ کر مسلسل کنفیوژن کا شکار ہوتا رہے گا۔ مثلاً اس نے کتابوں میں پڑھ رکھا ہو گا کہ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے‘ یہ اندھا ہوتا ہے‘ وغیرہ وغیرہ لیکن جب اس کے اپنے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آئے گا‘ اسے تھانے کچہری کا چکر لگانا پڑے گا تو اسے آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔ اگر اس کی موٹر سائیکل چوری ہو جاتی ہے یا موبائل چھن جاتا ہے تو اس کی رپورٹ درج کرانے کے لیے اسے تھانے جانا پڑے گا، اس لیے اسے پہلے سے بتا دیا جانا چاہیے کہ وہاں اس کے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ اول تو اس کا پرچہ درج نہیں ہو گا اور اگر ہو گیا تو اس پر جس طرح سے کارروائی ہو گی‘ جتنے اسے کے چکر لگوائے جائیں گے وہ توبہ توبہ کر کے کانوں کو ہاتھ لگا لے گا۔ چور کو پکڑنا اور مسروقہ مال برآمد کرنا تو بہت بعد کا مرحلہ ہو گا‘ پہلے تو اسے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ جو موٹر سائیکل چوری ہوئی تھی یا جو موبائل چھینا گیا تھا‘ وہ واقعی اس کی ملکیت تھے، نیز یہ کہ یہ چیزیں واقعی چوری ہوئی ہیں‘ اس نے انہیں بیچ کر ان کے پیسے نہیں کھائے۔
اسی طرح اس نے بچپن میں کہانیاں پڑھ رکھی ہو ں گی کہ ملاوٹ کرنا بری بات ہے‘ ایک جرم ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے گھر گوالا جو دودھ لے کر آئے گا وہ دراصل ایک محلول ہو گا جس میں طرح طرح کے کیمیکلز اور رنگ ڈال کر اسے دودھ کی شکل دی گئی ہو گی اور برسوں سے وہ وہی ''دودھ‘‘ پیتا آ رہا ہے‘ جب یہ سب کچھ اس کے علم میں آئے گا تو اس کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ بہتر ہے کہ اسے پہلے ہی بتا دیا جائے کہ تم نے اور تمہاری نسلوں نے دودھ کے نام پر یہی کیمیکل والا محلول پینا ہے اور اسی پر گزارہ کرنا ہے وگرنہ وہ تضادات کے بھنور میں اُلجھا رہے گا۔ ایسے تجربات اور مشاہدات اسے تقریباً ہر محکمے‘ ہر شعبے میں ملیں گے، قدم قدم پر اس کا ان تضادات سے پالا پڑے گا اور بالآخر وہ اپنے آپ کو معاشرے کی ''اصل‘‘ اور ''حقیقی‘‘ روایات کے مطابق ڈھال کر زندگی بسر کرنا شروع کر دے گا۔ چنانچہ اگر آپ کا بچہ پاکستان جیسے کسی ملک میں بڑا ہو رہا ہے تو آپ کو اسے بہت سی ایسی نصیحتیں کرنی چاہئیں تاکہ جب وہ باہر نکلے تو پریشانی کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ آپ نے اسے بتانا ہے کہ ہماری سوسائٹی میں گاڑی چلانے کا اصول یہ ہے کہ اگلی گاڑی سے فاصلہ دو‘ تین فٹ سے زیادہ نہ ہو کیونکہ اگر آپ ٹریفک قوانین کے مطابق گاڑیوں کے مابین مناسب فاصلہ رکھ کر چلانے کی کوشش کریں گے تو پھر آپ کو پیچھے آنے والی گاڑی زور زور سے ہارن بھی دے گی اور ڈِپر بھی مارے گی؛ عین ممکن ہے کہ آگے والی گاڑی سے فاصلہ ''زیادہ‘‘ ہونے کی صورت میں کوئی اور گاڑی یا موٹر سائیکل والا اپنی سواری درمیان میں گھسانے کی کوشش کرے؛ چنانچہ قانون کی پابندی کے چکروں میں نہیں پڑنا اور اگلی گاڑی کے بمپر کے ساتھ بمپر ملا کر گاڑی چلانی ہے وگرنہ آپ سر پر چڑھی ہوئی گاڑی کے ہارنوں سے تنگ آ کر اپنا بلڈ پریشر بڑھوا کر گاڑی ٹھوک بیٹھیں گے۔
اسی طرح اسے بتائیں کہ بیٹا! آپ جب کسی چوک سے گزرتے ہیں اور سگنل گرین ہے تب بھی آپ نے یہ نہیں سمجھنا کہ دوسری طرف چونکہ سب کا اشارہ سرخ ہے‘ اس لیے آپ بغیر دائیں بائیں دیکھے گاڑی یا بائیک لے کر بے فکری سے گزر سکتے ہیں بلکہ آپ نے سبز بتی پر اور زیادہ محتاط ہو جانا ہے کیونکہ ہمارے ملک میں سرخ سگنل اور گرین سگنل کراس کرنا یکساں ہے۔ اسی طرح آپ بچے کو یہ بھی بتائیں کہ وقت کی پابندی ہر جگہ نہیں کرنی جیسے کسی شادی بیاہ کے فنکشن میں‘ اگر وہاں جانا ہے تو کارڈ پر اگر مہمانوں کی آمد سات بجے لکھی ہے اور ہال کا وقت دس بجے تک ہے تو ساڑھے آٹھ‘ نو بجے تک پہنچنا ہو گا کیونکہ سات بجے تو میزبان بھی نہیں آئے ہوں گے اور کارڈ پر لکھے وقت پر مکھیاں مارنا پڑیں گی۔ اگر آپ کا بچہ نوکری شروع کرنے والا ہے تو اسے سمجھانا ہو گا کہ صرف کارکردگی دکھانا ہی کافی نہیں بلکہ نوکری کو برقرار رکھنے اور ترقی کے لیے بہت سے دیگر معاملات پر بھی یکساں توجہ دینا ضروری ہے جیسا کہ افسران بالا کو خوش رکھنا وغیرہ۔ اگر آپ کا بچہ باقاعدگی سے مسجد جا کر نماز پڑھتا ہے تو اسے یہ بتا دینا بہتر ہو گا کہ قیمتی جوتی پہن کر نہیں جانا چاہیے اور اگر کبھی چلے جائو تو اس کی حفاظت بھی خود کرنا، یہ بالکل بھی نہیں سمجھنا کہ یہاں پر کوئی رعایت ملے گی۔
اسے بتائیں کہ یہ جو سڑکوں پر‘ مکینک کی دکانوں پر‘ ورکشاپس پر چھوٹے چھوٹے چھ‘ سات سال کے بچے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ انہیں دیکھ کر بالکل نہیں گھبرانا اور یہ نہیں سوچنا کہ یہ یہاں کیا کر رہے ہیں کیونکہ قانون میں تو چائلڈ لیبر کی اجازت بالکل نہیں ہے بلکہ اس چیز کومثبت خیال کرنا ہے کہ یہ بچے کام نہ کریں تو ملک کا معاشی پہیہ کیسے چلے گا۔ آپ نے اپنے بچے کو سمجھانا ہے کہ پاکستان میں فٹ پاتھ راہ گیروں کے چلنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ یہ دکانوں‘ مارکیٹوں اور کاروبار کے لیے استعمال ہوتے ہیں‘ اس لیے وہ خواہ مخواہ کسی ریڑھی یا ٹھیلے والے سے لڑتا نہ پھرے بلکہ جب بھی گھر سے باہر جائے تو ناک کی سیدھ میں جائے اور فوراً واپس آ جائے‘ زیادہ سرکھپانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو بہت جلد نیوٹن یا آئن سٹائن بن کر آدھی رات کو کسی سنسان پارک کے بینچ پر بیٹھا گہری سوچ میں ڈوبا دکھائی گا۔ اسے بتائیں کہ یہاں پر ایسے ہی چلتا آیا ہے اور شاید ایسے ہی چلتا رہے گا۔
یہ نہ تو کوئی طنزیہ کالم ہے اور نہ ہی مذاق کی بات یا کوئی غیرسنجیدہ تجویز بلکہ یہ پاکستان جیسے معاشرے میں تربیت کا انتہائی لازمی جزو ہونا چاہیے کیونکہ نئی نسل موبائل فون کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے‘ ان کا باہر کی دنیا کے ساتھ ایکسپوژر بہت کم ہے اور اسی لیے زیادہ تر بچے حساس ہوتے ہیں۔ اگر نوعمری میں ان کے ساتھ کوئی انہونا واقعہ پیش آ جاتا ہے جس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے یا کوئی ایسی بات جسے وہ اپنے نصاب‘ اپنے حکمرانوں یا دین میں بتائی گئی باتوں سے مختلف پاتے ہیں تو انہیں نفسیاتی طور پر شدید دھچکا یا شاک پہنچ سکتا ہے جو ان کی اچھی بھلی روٹین کی زندگی کو خراب کر سکتا ہے اور وہ اپنی نارمل لائف سے ڈی ٹریک ہو سکتے ہیں۔ انہیں اچھی‘ روایتی‘ نصابی باتیں ضرور پڑھائیں لیکن اگر انہیں پاکستان جیسے ملک میں رہنا ہے تو یہاں رہنے کے ''ضروری آداب‘‘ اور طور طریقے لازمی بتلا دیں تاکہ وہ ابنارمل حالات میں بھی نارمل زندگی گزار سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved