جولائی اور اگست‘ صرف دو ماہ میں لاہور؍ اسلام آباد اور پشاور موٹر وے پر کہیں بسوں تو کہیں گاڑیوں کے حادثات میں 378 سے زائد افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔ ان حادثات اور سینکڑوں انسانی جانوں کے ضیاع کی وجوہات کیا تھیں‘ یہ حادثات کس کی غفلت سے ہوئے‘ آئے دن موٹروے پر گاڑیوں کے ٹائر برسٹ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ شاید ابھی تک متعلقہ ادارے اس حوالے سے سٹڈی ورک مکمل نہیں کر سکے ہیں۔ اگر ان حادثات کی ذمہ داری ڈرائیورز پر ڈال کر باقی لوگ اپنی ذمہ داریوں سے بری ہونا چاہتے ہیں تو یہ سراسر غلط ہو گا۔ اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ اب موٹر وے پر بھی قوانین کی دھڑلے سے خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ چند دن ہوئے لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے جب حد رفتار پر گاڑی چلا رہا تھا تو ہر تیسری‘ چوتھی گاڑی کو اوور ٹیک کرتے دیکھا جو یقینا مقررہ حد سے زیا دہ سپیڈ پر جا رہی تھیں مگر مجال ہے کہ کوئی گاڑی بھی گرفت میں آئی ہو۔ اس وقت موٹروے پر ٹائر پھٹنے کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ بعض افراد الزام لگاتے ہیں کہ ہر ریسٹ ایریا سے دو‘ چار کلومیٹر پیچھے جان بوجھ کر کیل پھینک دیے جاتے ہیں تاکہ ٹائر پنکچر ہوں تو ریسٹ ایریا کی ورکشاپس سے مرمتی کام کرایا جائے۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر درجنوں وڈیوز بھی موجود ہیں۔ اس کا کھوج لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ گھنائونا کام کرنے والے کون لوگ ہیں‘ ان کو ڈھونڈنا بھی زیادہ مشکل نہیں۔ اس قماش کے لوگوں کا شاید احساس ہی مر چکا ہے۔ یہاں ٹائر ورکشاپ والوں کے ساتھ ساتھ فرائض منصبی کا احساس بھی شامل ہے۔
کار، بس اور موٹر سائیکل سوار اکثر تیز رفتاری یا غلط اوور ٹیک کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ بہت سے بس‘ ٹرک اور ہیوی ٹریفک ڈرائیور لوگوں کو کچل کر موقع سے بھاگ نکلتے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ وہ مالکِ کائنات کے کیمروں کی زد میں آ چکے ہیں اور عنقریب ان سے پورا پورا حساب لیا جائے گا۔ پاکستان بھر کی سڑکوں پر روزانہ سینکڑوں مرد و خواتین اور بچے سکول، کالج، دفتر، مارکیٹ یا ایک جگہ سے کسی دوسری جگہ پر آتے جاتے جان لیوا حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاندان کا اکلوتا کفیل کسی کام کے لیے گھر سے نکلتا ہے اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آنے کیلئے داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹریفک حادثات میں مرنے اور زخمی ہونے والے ستر فیصد سے زیادہ افراد مرد ہوتے ہیں اور چونکہ ہمارے معاشرے میں اکثر ایک مرد ہی گھر کا واحد کفیل ہوتا ہے لہٰذا زیادہ تر گھروں کے یہ کفیل ہی حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 13 لاکھ ہے جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 5 کروڑ سے بھی زائد ہے۔ اس ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان میں رونما ہونے والے ٹریفک حادثات سے مالی نقصانات کا تخمینہ 100 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ بیشتر حادثات فقط ایک معمولی سی کوتاہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ چند سیکنڈ کی کوتاہی‘ جو زیادہ تر بغیر کسی ضرورت کے جلد بازی، غلط اوور ٹیک، ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی، سڑکوں پر جا بجا تیز رفتاری، ون وے کی خلاف ورزی، موٹر سائیکلوں کی ون ویلنگ، موبائل سے کسی کو میسج یا کال کرنے کی کوتاہی‘ جو اکثر جان لیوا یا عمر بھر کا روگ ثابت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سڑکوں کی نامناسب صورتحال، سفارش و رشوت سے ڈرائیونگ لائسنس کا حصول، تعلیم اور شعور کی کمی، ٹریفک کنٹرول کرنے والے اداروں اور اہلکاروں کی عدم دلچسپی، کرپشن اور ٹریفک سگنلز کی خرابی کی وجہ سے بھی ہر روز درجنوں‘ سینکڑوں حادثات رونما ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ ہوا ایک شاپنگ مال جاتے ہوئے لاہور کی ایک شاہراہ پر ٹریفک سگنل پر رکا ہوا تھا کہ گاڑی میں بیٹھا ایک نوجوان شوں سے میرے پاس سے گزرا۔ اس وقت اشارہ بند تھا اور مخالف سمت سے آنے والی گاڑی بڑی مشکل سے اس کی زد میں آنے سے بچ پائی۔ جب میں مطلوبہ شاپنگ مال پر پہنچا تو وہی نوجوان میرے سے کچھ فاصلے پر گاڑی پارک کر رہا تھا۔ میں نے اسے روک کہا کہ دیکھو! ہم ایک ساتھ یہاں پہنچے ہیں‘ اگر تمہاری اس حرکت سے تمہیں یا سامنے سے آنے والی گاڑی کو کوئی نقصان پہنچ جاتا تو جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا نکلتا؟ میری اس بات پر وہ ہوں ہاں کرتا رہا مگر اس کا رویہ بتا رہا تھا کہ اسے کسی قسم کی کوئی ندامت یا پشیمانی نہیں۔
سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی ٹریفک میں چند سیکنڈ یا چند منٹ پہلے پہنچنے کی جلدی‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق‘ پورے پاکستان میں روزانہ 600 سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا جاتی ہے جبکہ ہمیشہ کیلئے اپاہج اور معذور ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی زائد ہے۔ ایک آدھ منٹ کی اس جلد بازی سے ہونے والے حادثات میں جان گنوانے والے افراد کے لواحقین پر کیا بیتتی ہے اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں جن پر یہ قیامت گزرتی ہے۔ ہمارے قصبے کی سڑک پر ایک نوجوان سڑک سے ہٹ کر‘ ایک سائیڈ پر چل رہا تھا کہ پیچھے سے آنے والی ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس حادثے سے وہ عمر بھر کیلئے اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گیا۔ اب کس اذیت سے وہ اپنی زندگی گزار رہا ہے‘ اس کا اندازہ اسے دیکھنے والے بھی کر لیتے ہیں اور کبھی نہیں بھول پاتے۔ اور جو اس سب کا شکار ہوا ہو‘ اس پر خود کیا بیت رہی ہے یہ وہی جان سکتا ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برس سے دن رات بغیر کسی اشارے یا لائٹ کے اندھا دھند بھاگنے والی ٹریکٹر ٹرالیوں اور موٹر سائیکلوں کے تصادم سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ سردیوں بالخصوص دھند کے موسم میں لائٹ کے بغیر چلنے والی ٹریکٹر ٹرالیاں موت کی سوداگر بن جاتی ہیں اور بلاناغہ ملک کے ہر ضلع سے ٹریکٹر ٹرالیوں کے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں سے تصادم کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں سمیت ذیلی علاقوں میں بار بردار ٹرالیاں چلانے والوں کی اکثریت بغیر لائسنس کے ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر ایسے حادثات تیز رفتاری اور لاپروائی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔
ٹریفک حادثات پر میں نے خود بھی ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی‘ جس کے مطابق چالیس سال سے زائد عمر کے افراد جو اپنی گاڑی خود چلاتے ہیں‘ ان کی نسبت کم عمر اور گھریلو ڈرائیور حضرات کی وجہ سے ہونے والے حادثات کی شرح زیادہ ہے۔ لاہور سمیت تمام بڑے شہروں میں اس کا عام مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ موٹر سائیکل حادثات کی بڑی وجہ نو عمر لڑکوں کی تھرلنگ ہے‘ جس کے سبب وہ گلیوں‘ محلوں کے علاوہ بڑی شاہراہوں پر بھی تیز رفتاری اور مختلف کرتبوں کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ کیا والدین سمیت کوئی بھی انہیں روکنے والا نہیں ہے؟ ہیوی ٹریفک‘ جس میں سرکاری اور پرائیویٹ بسیں، ٹرک اور دوسرے بڑے بڑے وہیکلز شامل ہیں‘ تیزی رفتاری، بریک فیل ہونے، ناتجربہ کار ڈرائیورز اور ریس لگانے کے وجہ سے حادثات کا موجب بنتی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ سٹڈیز کی ٹریفک حادثات پر ایک رپورٹ کے مطابق سڑکوں پر اترنے والے 40 فیصد لوگوں کو ٹریفک قوانین اور اشاروں بارے علم ہی نہیں ہوتا۔ 32 فیصد لوگ تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ 28 فیصد محفوظ ڈرائیونگ کے طور طریقوں سے آگاہ نہیں ہوتے۔ انہیں کچھ پتا نہیں کہ شہروں کے اندر، ہائی ویز یا بڑی سڑکوں پر گاڑی کس طرح چلانی ہے۔ علاوہ ازیں ملک بھر کی سڑکوں کی نا گفتہ بہ حالت بھی سنگین حادثات کا سبب بنتی ہے۔ ڈینگی سے سال میں سو سے زائد ہلاکتیں نہیں ہوتیں لیکن اس کی روک تھام کیلئے سارا سال بے تحاشا وسائل اور اربوں کا اشتہاری بجٹ خرچ کیا جاتا ہے لیکن ٹریفک حادثات‘ جن کی وجہ سے ہر سال دو لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور دس لاکھ کے قریب شدید زخمی ہو جاتے ہیں‘ ان کیلئے کچھ بھی نہیں! اسے غفلت کہیں یا بے حسی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved