بڑا حلقۂ احباب بھی بڑا جھنجٹ ہے۔ آغاز میں یہ بڑا حلقۂ تعارف اچھا لگتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ کھلنے لگتا ہے کہ یہ مسائل کا حل نہیں بلکہ بذاتِ خود ایک مسئلہ ہے۔ ان دنوں مجھے بار بار احساس ہورہا ہے کہ بہت سے ملنے والوں کے دکھ سہنا کوئی آسان کام بھی نہیں۔ دکھ بیان کرنے والے سے زیادہ سننے والا ہلکان ہوتا ہے۔
جب سے نگران حکومت اور اس کی کابینہ طے ہوئی ہے‘ مجھے کتنے ہی احباب اپنے دکھوں کی روداد سنا سنا کر ہلکان کر چکے ہیں۔ ایک بات اور۔ مشہور اور نامور آدمی کے دکھ ایک عام آدمی کے دکھوں سے بہت الگ ہیں۔ عام آدمی مہنگائی‘ بچوں کی فیس‘ بجلی کے بلوں پر پچھاڑیں کھاتا ہے۔ لیکن ایک مشہور اور نامور انسان کے غم ایسے ہیں جن کا ایک عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ نامور اور مشہور ہونے کے باوجود انہیں حکومتی عہدوں‘ وزارتوں اور سفارتوں میں مسلسل نظرانداز کرنا ان میں سے ایک ہے۔ جب سے نگران حکومت اور اس کی کابینہ تشکیل پائی ہے‘ مجھے کتنے ہی احباب اپنے ساتھ ہونے والی تازہ نا انصافیوں کی روداد سنا سنا کر ادھ موا کرچکے ہیں۔ جس دن نئے وزیروں اور مشیروں کا اعلان ہوا‘ صائم علی شاہ نے گلو گیر آواز میں مجھے فون کیا۔ میں صائم علی شاہ کا بڑا مداح ہوں۔ میں ہی کیا ان کے لاکھوں پرستار دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک موٹیویشنل سپیکر ہیں۔ دل گرفتہ اور مایوس لوگوں کو جوش و جذبے کی طاقت فراہم کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن اس دن مجھے ان کی آواز بدلی ہوئی محسوس ہوئی۔ شدتِ غم سے ان کے لیے بات کرنا بھی مشکل تھا۔ اس سے پہلے ایسی آواز میں نے صرف قولنج کے درد میں مبتلا مریض کی سنی تھی۔ میری تشویش ظاہر کرنے پر حال بتانے کے بجائے بولے: ''آپ نے نگران وزیروں‘ مشیروں کی فہرست دیکھی؟‘‘ فہرست تو بے شک میں نے پڑھ لی تھی لیکن اس سے شاہ صاحب کا کیا تعلق ہے‘ یہ سمجھنے میں دقت تھی۔ کہنے لگے: اس بار مجھے پھر نظر انداز کیا گیا۔ مجھے کہیں‘ کسی وزارت میں شامل نہیں کیا گیا۔ پی ڈی ایم آئی تھی تو اگرچہ ہر جماعت میں میرے مداح موجود تھے لیکن میر ے ساتھ اس پورے عرصے میں زیادتی ہوتی رہی۔ ہر وزارت میرے بغیر چلائی جاتی رہی۔ اب نگران حکومت نے اپنی ٹیم چنی ہے۔ آپ خود بتائیں کسی وزارت میں‘ کسی مشیر کے عہدے پرکیا میرا حق نہیں بنتا تھا؟ میں اس سوال کا جواب گول مول دیتا تو اس سے شاہ جی کے غم میں بہت اضافہ ہو جاتا؛ چنانچہ میں نے کہا: شاہ جی! کیا شک ہے کہ آپ ہر لحاظ سے وزارت کے اہل تھے۔ الیکٹرانکس میں ڈپلومہ کسی عام آدمی کے بس کا تو نہیں ہوتا۔ بہت محنت اور استقامت چاہیے اس کے لیے۔ پھر یہ تعلیمی قابلیت تو ایک طرف‘ اصل بات یہ کہ آپ کے لاکھوں مداح پائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑی اہلیت بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ یہ کہہ کر مجھے احساس ہوا کہ صائم علی شاہ میری اس حمایت سے مطمئن نہیں۔ بلکہ مجھے یقین سا ہونے لگا کہ الیکٹرانکس میں ڈپلومے کا میرا ذکر کرنا انہیں اچھا نہیں لگا۔ انہوں نے قدرے خفگی میں فون بند کیا حالانکہ میں ان کی اہلیت کے مزید دلائل پیش کرنا چاہتا تھا۔ یقینا شاہ جی کو خود بہت موٹیویشن کی ضرورت تھی۔
میں چند گھنٹوں تک بہت پریشان رہا۔ ایسے نامور آدمی کو میں کھونا نہیں چاہتا تھا لیکن چند گھنٹوں کے بعد میری پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا۔ مشہور ترین ٹک ٹاکر مس عریشہ سے میری کئی ملاقاتیں ہیں اور ان کے کئی ملین فالورز میں ایک میں بھی ہوں۔ چونکہ بطور لکھاری وہ مجھ سے کبھی کبھی رابطہ کرتی رہتی ہیں اس لیے میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ان کا فون بھی آجایا کرتا ہے۔ ان کا فون آتے ہی میں خوش ہوگیا لیکن وہ سخت غصے میں تھیں۔ ''یہ کیا ہوا ہے میرے ساتھ؟ اتنی بڑی نا انصافی؟ میں کئی ہفتے اسلام آباد میں مقیم رہی اور کتنے ہی لوگوں نے مجھے یقین دلایا کہ اس بار آپ کو وزیر بنایا جائے گا‘ لیکن فہرست میں میرا نام ہی نہیں؟ آپ باخبر ہیں۔ یہ بتائیں کس نے میرا نام کٹوایا؟ اور اس کا نام شامل کروا دیا جو ٹک ٹاکر تو ہے لیکن میرے اور اس کے پرستاروں میں ایک ملین کا فرق ہے۔ بتائیے وزارت کے لیے کون سی خوبی ہے جو مجھ میں نہیں؟‘‘ اس بات کا انکار یقینا مشکل تھا۔ وہ حسین تھیں‘ نوجوان تھیں‘ مشہور تھیں‘ کئی اشتہارات میں کام کر چکی تھیں‘ اس پر یہ بھی کہ دو سال پہلے ایک پرائیویٹ کالج سے ایف اے کر لیا تھا۔ یہ بات ناقابلِ تردید تھی کہ مس عرشیہ میں وزیر ہونے کی ہر اہلیت پائی جاتی تھی۔ ان کا غم جس میں غصہ زیادہ تھا‘ بجا تھا۔ لیکن ان ناقدر شناسوں کا کوئی کیا کرے جو اہلیت دیکھتے ہی نہیں۔
یہ دن مجھ پر کافی بھاری تھا۔ شام ہوتے ہوتے کئی ٹی وی اینکرز‘ کئی وی لاگزر اور کئی کھلاڑیوں کے ایسے ہی غم میرا غم بڑھاتے گئے۔ ان میں ہر ایک مشہور تھا‘ نامور تھا‘ کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھا۔کیا ہوا اگر کسی نے کبھی کوئی وزارت نہیں چلائی تھی‘ کبھی مشیر نہیں بنا تھا۔ کیا ہوا اگر ان کی تعلیم برائے نام تھی۔ اگر یہ وزارتوں کا حلف اٹھانے اس قطار میں کھڑے ہوتے تو سوچیں نگران حکومت کی عزت اور وقار میں کتنا اضافہ ہو جاتا۔ ان میں ہر ایک حقدار تھا لیکن حقدار کو کبھی حق ملا ہے جو اس نگران حکومت میں مل جاتا؟ ان سب کا مسئلہ یکساں تھا‘ غم بھی مشترک‘ لیکن میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ حامد آفریدی کو ان سب پر فوقیت تھی۔ حامد آفریدی سابقہ کھلاڑی بھی تھے‘ اب مشہور یوٹیوبر بھی اور ٹی وی تبصروں میں بھی ان کا نام معروف تھا۔ کچھ عرصے سے سیاسی وی لاگ بھی شروع کردیے تھے۔ کافی مدت پی ٹی آئی کے حق میں بولتے رہے۔ مئی کے بعد سے نون لیگ کے حامی ہو گئے۔ خیال تھا کہ ان خدمات کا اعتراف کیا جائے گا۔ یہ سب سے زیادہ انہی کا خیال تھا۔ لیکن نا انصافی نے ملک بھر کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے تو ایسا ہرفن مولا بھی کیا کرے؟ پہلے انہیں پی سی بی کے سربراہ کے لیے نظر انداز کیا گیا۔ اب یہ ظلم۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتنے ڈھیروں فون آئے ہیں اور سب سے دکھ کا اظہار کرنا پڑا ہے۔ حامد آفریدی کو میں خود فون کر لوں۔ میں نے رات گئے فون کیا۔ توقع کر رہا تھا کہ ایک رندھی ہوئی آواز سننی پڑے گی لیکن خلافِ توقع وہ صاحب اتنے غمگین نہیں تھے۔ پہلے تو میں نے بطور وزیر مشیر ان کا نام نہ ہونے پر اپنے دلی دکھ کا اظہار کیا۔ جسے انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ انہیں پہلے سے بہت فون آرہے تھے۔ بولے'' بالکل۔ ہونا تو چاہیے تھا۔ وہ کیا مصرع ہے آپ کے شاعر کا۔ ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا‘‘۔ یہاں کون سے کام میرٹ پر ہو رہے ہیں جو میں اس غلط بخشی پر ملول ہوں۔ یقینا مجھے غم ہے لیکن میں نا امید نہیں۔ ناامیدی کفر ہے۔ میں نے کہا: یقینا آپ کا حق مارا گیا ہے‘ پھر بھی آپ کا حوصلہ قابلِ داد ہے‘ لیکن ظاہر ہے کہ یہ نگران حکومت ہے۔ اب نئی حکومت تک تو انتظار کرنا ہی پڑے گا۔ دوسری طرف خاموشی سی چھا گئی۔ میں سمجھا فون بند ہوگیا۔ ایک لمبے وقفے کے بعد‘ جس میں وہ فیصلہ کر رہے تھے کہ یہ راز مجھے بتانا چاہیے یا نہیں‘ بولے: میں نے کہا ناں۔ میں نا امید نہیں۔ چیف جسٹس بندیال کی مدت بھی تو کچھ دنوں میں ختم ہو رہی ہے۔ یہ کرسی بھی آخر خالی ہونی ہے۔ اور ہاں! صدر عارف علوی نے بھی تو آخر ریٹائر ہونا ہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved