کوئی بھی انقلاب آئے‘ جب بھی آئے اور جہاں بھی آئے‘ ہم گلا پھاڑ پھاڑ کر ''زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائیں گے۔ زراعت ہو یا صنعت‘ کوئی انقلاب جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ انقلاب سے انقلاب کی راہ نکلتی ہے۔ ہماری صورتحال البتہ مختلف ہے۔ صرف زراعت کی بات نہیں‘ ہر شعبے میں ہم گزشتہ چالیس‘ بلکہ پچاس برسوں سے جمود کا شکار ہیں۔ زرعی انقلاب کی بنیاد تو ایوب خان کے زمانۂ اقتدار میں پڑی تھی۔ گندم‘ کپاس‘ چاول‘ گنا‘ آم اور دیگر پھلوں کی پیداوار کے لیے نئے بیج تیار ہوئے۔ میکسی پاک گندم کا بیج بنا تو اس ملک کی تب محدود آبادی جو فاقہ کشی کا شکار تھی‘ وہ بھی پیٹ بھر کر کھانے لگی۔درآمدی گندم پر انحصار ختم ہوااور ہم دنیا کو برآمدکرنے والا ملک بن گئے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور ایوب ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے زبردست کام کیا۔ فصلیں اور بھی ہیں‘ جیسا کہ مکئی اور آلو جن کی پیداوار کئی گنا بڑھی۔ ہمارے بچپن میں سنگترے ہوا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی جگہ کنو نے لے لی جو خالصتاً ہماری ملکی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ زراعت میں سرکاری اور نجی اداروں میں کام آج بھی ہورہا ہے‘ مگر دنیا کے ساتھ ہم کسی بھی شعبے میں قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکے۔ ذمے دار سیاستدان ہیں کہ وہ سرکاری اور نجی اداروں کا بیڑا غرق کرنے میں ماہر ہیں۔ ہر جگہ اپنے بندے لگواتے‘ میرٹ پامال کرتے اورنکموں کوعہدے دیتے ہیں۔ قومی ائیرلائن میں جو نکموں سے بھری ہوئی ہے‘ کا وہی نتیجہ نکلنا تھا جو نکلا ہے۔ کوئی سرکاری محکمہ ہو‘اگر ضرورت دو افراد کی ہے تو سیاست بازوں نے دس لگوائے ہوئے ہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ سرکاری جامعات اور کالجوں تک میں اُنہوں نے اپنی مداخلت کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں۔ کسی بھی ادارے میں جب ہمارے سیاسی اکابرین اپنے بندوں کو کسی جواز اور بغیر قابلیت کے بھرتی کرواتے ہیں تو وہاں کام کرنے والوں اور سیاسی نکموں کے درمیان سرد جنگ شروع ہو جاتی ہے۔گروہ بندی سیاسی نکموں کی بقا کے لیے لازم ہے۔ اس طرح ادارے ہم نے تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ چاہے زراعت کے شعبے میں ہوں یا کوئی اور‘ سب کی کہانی ایک جیسی ہے۔ ایک زرعی تحقیقاتی کے ادارے میں اکثر جاتا رہتا ہوں‘ بلکہ گزشتہ 25 سال سے تو اتر سے جا رہا ہوں کہ پھل داردرختوں میں کچھ زیادہ دلچسپی ہے۔ بہت قابل لوگ دیکھے ہیں‘ کام بھی کر رہے ہیں‘ مگر انہیں وسائل جتنے مہیا ہونے چاہئیں‘ نہیں ہو رہے۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی ترجیحات میں زرعی اور سائنسی ترقی صرف زبانی جمع خرچ کی حد تک ہے۔ استاد ہونے کے ساتھ ساتھ باغبانی اور زراعت بھی ہمارا دیرینہ پیشہ ہے۔ جی تو یہی کرتا ہے کہ پڑھنا پڑھانا چھوڑ کر زرعی انقلاب ہم خود ہی لے آئیں‘ سچ پوچھیں تویہ شعبہ ہی ایسا ہے جہاں کسان اپنے دست و بازو کے سہارے کامیاب ہوتا ہے۔ اچھے سے اچھے بیجوں کی تلاش میں ہر کسی سے بات کرتا ہے‘ دوسروں کے تجربوں سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے‘ کھاد پانی کا بندوبست کرتا ہے۔ آج کل کے مہنگائی کے دور میں کسی بھی فصل کو دیکھیں‘ غریب ترین کسانوں کو اپنی معاشی بقا کے لیے سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ کاش کبھی ہم دیہاتوں میں ان لاکھوں مردوں اور عورتوں کو کڑکتی دھوپ اور سرد موسموں میں کھیتوں میں کام کرتا دیکھتے۔ ہماری سب سے بڑی برآمدات چاول اور ٹیکسٹائل ہیں۔ یہ سب کچھ ان کسانوں کے مرہون منت ہیں۔ لیکن انہیں ملتا کیا ہے؟ خسارہ اورقرضوں کا بوجھ۔جہاںزراعت میں انقلاب آئے ہیں وہاں دونمبر بیج نہیں بیچے جاتے‘ کرم کش دوائیوں میں ملاوٹ کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اور کھاد تمام اجزا کے ساتھ خالص دستیاب ہوتی ہے۔ یہ روایتی حکمران گھرانے پچاس سال سے ہمارے اوپر مسلط ہیں‘ یہ بگاڑ ان کے زمانوں میں پیدا ہوا ہے۔ مہنگی بجلی پیدا کرنے کے معاہدوں سے لے کر زراعت‘ تجارت اور صنعت کے ہر شعبے میں انہوں نے ایسے گماشتوں کو پالا ہے جن کے ذریعے وہ عام شہریوں سے لے کر بے بس کسانوں تک کا خون نچوڑتے ہیں۔ ہم لوگوں کے درمیان رہ کر ان کی حالتِ زار دیکھتے ہیں تو د ل خون کے آنسو روتا ہے۔کوئی تو ذمہ دار ہے کہ جعلی کھادیں‘ بیج‘ اور کرم کش دوائیاں کھلے عام بک رہی ہیں۔ یہ میں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔اور پھر شہروں میں یہ پودوں کی نر سریوں کی اکثر سرکاری زمینوں پر جو بھرمار ہے‘ پودے کے بارے میں کہتے کچھ ہیں اور نکلتا کچھ ہے۔ سات‘ آٹھ سال کسی پودے کو پالنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ یہ وہ تو نہیں جو انہوں نے کہا تھا۔ حکومت‘ قانون اور ریاست نہ جانے کہاں ہم تلاش کریں۔
گزشتہ ماہ اپنے آبائی علاقے راجن پور‘جو کپاس کی فصل کیلئے مشہور ہے‘ گیاتو اکثر جگہ کپاس کالی ہو رہی تھی۔ کچھ بارش ہوئی تو کیڑوں کے حملے اتنے شدید تھے کہ مسلسل کیا جانے والا سپرے بھی کام نہیں دے رہا تھا۔ ایک عام آدمی بھی ایک ایکڑ کپاس پر کم از کم اسی ہزار سے لے کرایک لاکھ تک سرمایہ کاری کرتا ہے۔گزشتہ سال بھی یہ علاقہ مکمل تباہ ہو گیا تھا کہ بیج ایسے ہیں جن پر موسمی تبدیلوں کا برا اثر پڑتا ہے۔ دوسرے سپرے مہنگے اور دو نمبرہیں۔ایک آدمی جس نے دو ایکڑ کپاس کاشت کر رکھی تھی‘ گزشتہ سال خسارے میں گیا تھا‘ اس سال بیچارہ سکتے میں ہے کہ خسارہ دوگنا ہو گا‘ تقریباًایک لاکھ کے قریب۔ یہ ایک کسان کی نہیں‘ اس جیسے لاکھوں کسانوں کا المیہ ہے۔ ہماری بے کار ضلعی نوکر شاہی‘ انتظامی مشینری اور زراعت کے محکمے ابھی تک تو کچھ بھی نہیں کر سکے۔ مجھے یقین ہے‘ اگلے سال کم از کم ہمارے علاقوں میں کپاس کی کاشت کاری آدھے سے بھی کم ہوجائے گی۔ انقلاب کبھی سرکاری زمینوں پر نہیں آتے۔ نجی فارموں پر آتے ہیں اور اس کے لیے کہیں د ور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہمسایہ ملک کی زراعت دیکھ لیں۔ وسائل ہمارے پاس ہیں موسم ہے‘ اچھی زمین ہے‘ ہم کسان محنت کرتے ہیں‘ سرمایہ کاری ہوتی ہے‘ تو پھر یہ سب کچھ ضائع اس لیے ہورہا ہے زرعی مداخل میں کھوٹ ہے‘ اور کوئی اسے روکنے کے لیے تیار نہیں۔ زراعت میں انقلاب اس وقت ممکن ہوگا جب کاشتکارخوشحال ہوگا۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب آپ مڈل مین کا خاتمہ کریں‘ منڈی پر جس نے قبضہ جما رکھا ہے۔ ایک طرف معمولی قیمت پر ہم اپنا پھل اور سبزیاں اس کے ہاتھ بیچنے پر مجبور ہیں‘ دوسرے عام شہری اس کی دکان اور اب سپرسٹوروں سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہے۔ دنیا کے ہر شہر میں فارمز مارکیٹ ہوتی ہے جہاں کسان اپنی کاشت کی ہوئی سبزی‘ پھل یا اس سے تیارشدہ مصنوعات لے آتا ہے اور لوگوں کو سستے داموں فروخت کرتا ہے۔ آپ لندن میں ہوں‘ نیویارک میں یا دنیا کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں اتوار کے دن کسان بازار لگتے ہیں۔ اسلام آباد میں جمعہ بازار اس خیال سے شروع ہوا تھا لیکن وہاں جا کر دیکھ لیں‘ سب منڈی سے اٹھا کر لاتے ہیں۔ ٹھیکیدار باغوں سے آم لے کر منڈی میں جا کر مار کھاتا ہے۔ اونے پونے بیچتا ہے۔ کماتا پرچون فروش دکان دار ہے۔ چالیس روپے کلو لے کر ڈھائی سو روپے تک بازار میں فروخت کرتا ہے۔ یہی کچھ سبزیوں اور دیگر پھلوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جن کے پاس اتنا وقت اور توانائی ہے کہ وہ آن لائن چیزیں فروخت کریں۔ زراعت میں چھوٹازمین دار ہو‘ بڑا یا عام کسان ہو‘ سب پریشان حال ہیں۔ کسی انقلاب یا انقلابی کی راہ تک رہے ہیں جو ہمیں کہیں نظر نہیں آرہا۔ عام سا مسئلہ ہے‘ ملاوٹ‘ دو نمبری‘ جعلی پن اورریسرچ کی کمی۔ اس جمود کے ساتھ زرعی انقلاب دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved