پاکستان اس وقت شدید معاشی اور اقتصادی و مالیاتی بحران سے دوچار ہے، اب عوام کا جینا تو درکنار‘ مرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ قومی ترقی اور عوامی خوشحالی رول بیک ہوچکی ہے۔ غربت، بھوک، افلاس اور بیروزگاری کی دلدل میں عوام مسلسل دھنستے جارہے ہیں۔ ان حالات میں قوم کسی نجات دہندہ کی منتظر ہیں۔ دوسری جانب ملکی معیشت کی حالتِ زار کا اندازہ گرتے ہوئے اکنامک گروتھ ریٹ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ معاشی عدم استحکام شدید صورت اختیار کر گیا ہے۔ اتحادی حکومت بڑے بڑے دعووں کے ساتھ آئی تھی اور قوم کو بلکتا‘ سسکتا چھوڑ کر گھر جا چکی ہے جبکہ نگران حکومت کی بھی فی الحال ایسی کوئی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی جس سے صورتحال میں بہتری کی گنجائش دکھائی دیتی ہو۔ ڈالر کا ریٹ آسمان کو چھورہا ہے۔ درآمد و برآمد پر کڑا وقت ہے۔ پٹرول و گیس کی بڑھتی قیمتوں نے بے بس ومظلوم عوام سے دو وقت کی روٹی کی سکت بھی چھین لی ہے جبکہ بجلی کے بھاری بھر کم بلوں اور اس میں شامل ناجائز ٹیکسز کی بھرمار کے خلاف احتجاج و مظاہروں نے بحرانوں میں گھرے وطن عزیز میں حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ آخر ہم کس جانب جا رہے ہیں؟کیا یہ آخری معرکہ نہیں؟ کیاگلے سڑے غلاظت زدہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آگیا ہے؟
موجودہ سسٹم ڈگمگا رہا ہے، قومی سالمیت کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ریاست کے تینوں ستون عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ منقسم ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ حکومتوں سے لگائی گئی تمام تر امیدوں نے دم توڑ دیا ہے‘ حالات نے نوجوانوں کو مایوسیوں کی کھائیوں میں دھکیل دیا ہے اور وہ اس گھسے پٹے نظا م سے منہ موڑ رہے ہیں، ان پر روزگار کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ اقربا پروری کی لعنت، رشوت و سفارش کے پروان چڑھتے کلچر سے میرٹ کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ یقینا ان میں ایک نئے نظام کی خواہش جنم لے رہی ہے۔ کل کو ملک کامستقبل جنہوں نے سنبھالنا ہے‘ جنہوں نے اس کی باگ ڈور سنبھالنی ہے‘ وہ یہاں سے فرار ہو رہے ہیں۔ گوشۂ عافیت کی تلاش میں ڈنکی لگا کر سمندر میں غرقاب ہو رہے ہیں اور ہمارے حکمران‘ ہماری سیاسی قیادت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم غفلت کی نیند سے کب بیدار ہوں گے؟ ایک عرصے سے عوام کے ایک بڑے حلقے کی جانب سے نظام کی تبدیلی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ صدارتی نظام کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قانونی، سیاسی و انتظامی ادارے بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئے ہیں۔ اگر عدلیہ مضبوط ہوتی تو نیب جیسے اداروں کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی سقم موجود ہے۔ موجودہ سیاسی ڈھانچہ سہاروں کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ نظام اور اس کے ساتھ کھڑے سب افراد منہ کے بل گر جائیں گے۔ ایسے میں اگر یہ سمجھا جائے کہ نئے الیکشن کروا لیے جائیں تو معاملات درست سمت میں آ جائیں گے‘ فقط ایک بھول ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت قومی سطح پر انتخابات کروانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگابلکہ ایک ایسی حکومت ابھرے گی جس سے انتظامی و ریاستی اداروں میں خلیج بڑھے گی۔ اس وقت کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی، نتیجتاً کچھ بھی نہیں بدلے گا، وہی دھڑے بندیوں اور ہارس ٹریڈنگ کا دور چلے گا۔ سیاسی نمائندوں کی منڈیاں لگے گی۔ ان کی قلابازیاں اور شعبدہ بازیاں دکھائی دیں گی۔ کچھ شک نہیں کہ موجودہ دقیانوسی سسٹم اپنی مدت پوری کر چکا ہے‘ اب اس میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ''جمہوریت کوئی نیلم پری نہیں‘‘ جس کو حالات کے تقاضوں کے مطابق نئے نظام میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ بدقسمتی سے ہماری موجودہ جمہوریت ''اشرافیہ کی حکومت‘ اشرافیہ کے ذریعے‘ اشرافیہ کے لیے ‘‘ کی عملی مثال بن چکی ہے۔ ایک چھوٹا سا گروپ پورے نظام پر قابض ہو چکا ہے اور ہر فیصلہ اسی کے مفاد کے تحت کیا جا رہا ہے۔ یہ حالات واضح عندیہ دے رہے ہیں کہ نظام مدت پوری کر چکا ہے۔ عدالت، کفالت، حفاظت کو بہتر بنایا جائے‘ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ قائداعظم نے جس فلاحی جمہوری نظام کا ذکر کیا تھا‘ وہ کہاں چلاگیا ہے؟ پاکستان اس لیے بنایا گیا تھا کہ یہاں قرآن و سنت کی بالادستی ہوگی‘ افسوس آج ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے انحراف کر رہے ہیں، ملک میں سودی لین دین پورے دھڑلے سے جاری ہے۔ جنرل (ر) حمیدگل کے الفاظ میں: '' دشمن ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے کاٹ رہا ہے‘‘۔ نہ صرف سرحدوں بلکہ اندرونی طور پر ہماری نظریاتی سرحدوں میں بھی شگاف ڈالا جا رہا ہے اور دشمن ہمیں اندرونی طور پر کمزور کرنے کی منظم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ یہی ففتھ جنریشن وار فیئر ہے جس کا ہدف پاکستان ہے۔ دوسری جانب ہمارا ازلی دشمن سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جھنڈے گاڑ رہا ہے، اس کی چاند تک رسائی نے ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز میں مزید اصافہ کیا ہے۔ اور ہم ہیں کہ اپنے ہی قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف مذموم مہم شروع کر رکھی ہے۔سیاسی عصبیت و منافرت اور شخصیت پرستی نے ہمیں کس مقام تک پہنچا دیا ہے؟
اس وقت پاکستان پر ہمہ جہت جنگ مسلط ہے۔ ایک طرف ہماری سرحدوں پر جنگ مسلط ہے تو دوسری جانب ملک میں سیاسی و آئینی عدم استحکام برپا ہے، نیزہر بحران اور انتشار میں عسکری اداروں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں ریاستی اداروں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کا بڑھتا ناسور بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں پاک فوج کے 450 سے زائد جوان و افسر شہید ہو چکے ہیں۔ پولیس اور دیگر اداروں کے شہدا کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ افغانستان سے مغربی اتحادی مار کھا کر نکلے تو انہوں نے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا۔ میں نے اس وقت ہی لکھا تھا کہ چاہے امریکہ ذلت و پسپائی کے ساتھ افغان سر زمین سے فرار ہوا ہے مگر وہ کسی صورت بھی خطے کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا‘ وہ واپس ضرور آئے گا لیکن اس بار اس کا طریقہ قدرے مختلف اور دوستانہ ہو گا۔ اسے افغانستان سے نکلتے وقت دوحہ امن مذاکرات کی تکمیل کیلئے پاکستان کی ضرورت تھی اور آج بھی اسے پاکستان کی ضرورت ہے۔ امریکی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کہیں بھی گیا تو وہاں سب سے پہلے جمہوری و سیاسی نظام کو لپیٹا گیا۔ ہماری ملکی تاریخ بھی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا گیا، ضیاء الحق کو شہید کیا گیا۔ ایٹمی دھماکوں کی پاداش میں نواز شریف کو گھر بھجوا دیا گیا۔ موجودہ حالات بھی غیر ملکی اور سامراجی سازشوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کے باوجودہم نے اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا، اپنے نیوکلیائی اثاثوں پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ دراصل ملک دشمن عناصر کا اصل مشن یہی ہے کہ پاکستان کو اس قدر بحرانوں میں الجھا دیا جائے کہ وہ عالمی استعمار کے آگے گھٹنے ٹیک دے۔
خداوند تعالیٰ نے وطن عزیز کو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے لیکن ہم ان کو بروئے کار لانے کے بجائے غیر ملکی امداد پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ بفضل تعالیٰ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اہم مقام کا حامل ہے لیکن بدقسمتی سے ملک دشمن عناصر اس کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے۔ پاکستان کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر ہم نے اپنے نوجوانوں کو ملک کا قیمتی اثاثہ بنانے کے بجائے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے خلاف استعماری قوتوں کا مذموم ایجنڈامسلسل سرگرم ہے یعنی پاکستان کو ڈی نیوکلیئرائز اور اس کی نظریاتی اساس کا خاتمہ کر نا۔ اس استعماری ایجنڈے سے بچنے کا حل یہی ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی کا قیام عمل میں لا یا جائے۔ قائد اعظم سے جب بھی پاکستان کے نظام کے بارے میں پو چھا جاتا توآپ فرماتے کہ ہمیں اللہ نے ساڑھے تیرہ سو برس قبل ہی قرآن مجید کی شکل میں آئین اور دستور عطا فرما دیا ہے لہٰذا یہی پاکستان کا آئین اور دستور ہو گا، ہمیں کسی اور دستور کی ضرورت نہیں۔ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیاآج وہاں حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ بہتری کی امید تک نظر نہیں آ رہی۔ آج پھر ہمیں تحریک آزادی جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو قائم و دائم رکھے، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved