بجلی کے اضافی بل ہر خاص و عام کیلئے پریشانی کا باعث ہیں‘ سوائے اس طبقے کے جس کی بجلی مفت ہے یا جو لوگ سرے سے بل ادا ہی نہیں کرتے۔ عوام کی اکثریت اور تاجر برادری بجلی کے اضافی بلوں پر سراپا احتجاج ہے۔ بجلی کی مد میں حکومت سے ریلیف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ہنگامی طور پر اجلاس طلب کرکے 48 گھنٹوں میں بجلی کے زائد بلوں میں کمی کیلئے ٹھوس اقدامات کی ہدایت کی ہے‘ تاہم چاہتے ہوئے بھی حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ عوام کو کوئی ریلیف فراہم کر سکے۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے قومی خزانے اور حکومتی وسائل کی فراوانی ضروری ہے۔ حکومت سے جس ریلیف کا مطالبہ کیا جا رہا ہے‘ دستیاب وسائل میں اس کا بندوبست کیسے ممکن ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ توسیعی معاہدے میں سابق حکومت نے تسلیم کیا کہ گردشی قرضوں کے حجم کو کم کیا جائے گا مگر حکومت کے پاس بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے سوا گردشی قرضوں میں کمی کا کوئی فارمولا نہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کی رُو سے ابھی بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے جو آئندہ مہینوں میں کیا جانا ہے۔ آئی ایم ایف شرائط پر بجلی صارفین سے 721 ارب روپے اضافی وصول کیے جانے ہیں‘ اس لیے بجلی قیمتوں میں مزید اضافے سے انکار ممکن نہیں کیونکہ اگر معاہدے سے انکار کیا جاتا ہے تو یہ ویسی ہی صورتحال ہو گی جس سے پی ٹی آئی حکومت دوچار ہوئی۔ پی ٹی آئی حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کیلئے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی لیکن آئی ایم ایف کی طرف سے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اتحادی جماعتوں نے اس پر خوب سیاست کی کہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کر کے ملک کو معاشی دلدل میں پھنسا دیا‘ اب جبکہ اتحادی حکومت جا چکی ہے اور نگران حکومت کو ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے تو کیا قوم کے سامنے پورا سچ رکھا جائے گا یا اس بار بھی پرانی روش پر چلتے ہوئے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی جائے گی؟
بجلی کے اضافی بلوں کے معاملے پر طلب کردہ اجلاس میں پاور ڈویژن کے حکام نے نگران وزیراعظم کو بتایا کہ کپیسٹی چارجز کی مد میں اگلے سال دو ہزار ارب روپے کی ادائیگیاں کی جانی ہیں۔ مطلب یہ کہ صارفین سے اس بجلی کیلئے بھی پیسے بٹورے جاتے رہیں گے جو انہوں نے کبھی استعمال ہی نہیں کی۔ معاملہ یہ ہے کہ ملک میں توانائی بحران کے پیش نظر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سرمایہ اور وسائل استعمال کرکے پاور پلانٹس لگائیں۔ اس سے ملک میں متعدد پاور پلانٹس لگ گئے اور بجلی کی وافر پیداوار شروع ہو گئی مگر ترسیل کا نظام بہتر نہ ہونے کی بنا پر یہ بجلی صارفین تک منتقل نہیں ہو رہی؛ تاہم ان آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس کی رُو سے پاور پلانٹس کو پیداواری صلاحیت کی ادائیگی لازم ہے۔ آسان الفاظ میں اسے یوں سمجھیں کہ آئی پی پیز کے پاس ایک سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے مگر ترسیل کے ناقص نظام کی وجہ سے وہ پچاس میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے تو اس صورت میں بھی اسے ادائیگی سو میگا واٹ کے حساب سے ہو گی۔ ان معاہدوں کا دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ شرحِ سود اور زرِمبادلہ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے پاور پلانٹس کے بند ہونے کی صورت میں بھی چارجز بڑھتے رہتے ہیں۔ ادائیگیوں میں توازن کیلئے حکومت صارفین پر بوجھ ڈال کر خود کو بری الزمہ سمجھتی ہے۔ برسوں سے یہی پریکٹس ہو رہی تھی اور صارفین ہر ماہ پابندی سے ادائیگی کر دیتے تھے۔ پاور پلانٹس کو ادائیگیوں کا معاملہ چونکہ اندرونی تھا‘ اس لیے حکمرانوں کیلئے اسے ہینڈل کرنا قدرے آسان ہوتا تھا مگر اب کی بار آئی ایم ایف نے گردشی قرضوں کے حجم کو کم کرنے کی شرط عائد کر رکھی ہے‘ اس لیے حکومت کے پاس آپشنز محدود ہیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا آسان نہیں رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں عوام خطے کی مہنگی ترین بجلی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے کئی عوامل ہیں جنہیں دور کرنے کی آج تک سنجیدہ سعی نہیں کی گئی اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں کی آمدن سے بھی زیادہ بجلی کے بل آرہے ہیں۔ مہنگی بجلی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے تاہم بل میں 50فیصد تک مختلف طرح کے ٹیکس لاگو کیے گئے ہیں۔ ایک عام شہری صرف اتنا جانتا ہے کہ اسے فی یونٹ کے حساب سے بل آنا چاہیے مگر جب بل آتا ہے تو اس میں دس قسم کے ٹیکس بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایک شخص کو 32ہزار روپے بل آیا جس میں 12ہزار روپے ٹیکس عائد کیا گیا ہے‘ یہ کیا ماجرا ہے؟ ایک عام شہری یہ منطق سمجھنے سے قاصر ہے۔ جب اسے معلوم پڑتا ہے کہ اداروں کا خسارہ بجلی بلوں کے ذریعے پورا کیا جا رہا ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں بجلی ڈیوٹی‘ جی ایس ٹی‘ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ اور ایکسائز ڈیوٹی جیسے ٹیکس شامل ہیں۔ وفاقی حکومت صوبوں سے0.5فیصد بجلی ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔ ملک بھر میں ٹیرف کو یکساں رکھنے کیلئے پانچ سے سات روپے فی یونٹ سرچارج رکھا گیا ہے۔ حکومت بجلی کے بلوں میں صارفین سے0.43روپے فی یونٹ مالیاتی سرچارج بھی وصول کرتی ہے۔ کمرشل اور صنعتی صارفین سے انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ صارفین پر18فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی لاگو ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر مزید جی ایس ٹی وصول کیا جاتا ہے۔ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بھی شامل ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے موجودہ بلوں میں صارفین سے بجلی کے بڑھے ہوئے نرخوں کی وصولی کیلئے بل ایڈجسٹمنٹ بھی وصول کی۔ بجلی کے نرخ52روپے فی یونٹ ہونے پر صارفین کا احتجاج برحق ہے۔ ماہانہ200یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو سبسڈی دی جاتی تھی اور ان کیلئے نرخ10روپے فی یونٹ تھا‘ تاہم ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے200یونٹ استعمال کرنے والے صارفین سے 22.9روپے فی یونٹ کے حساب سے بل وصول کیا۔ تقسیم کار کمپنیوں کے حکام کا کہنا ہے کہ200یونٹ پر سبسڈی کی سہولت ان صارفین کیلئے ہے جو متواتر چھ ماہ تک مسلسل200یونٹ استعمال کریں۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسروں کو دی جانے والی مفت بجلی بھی مہنگی بجلی کی ایک وجہ ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ جب پوری قوم مشکلات سے دوچار ہے تو پھر ایک مخصوص طبقے کو بجلی کی مد میں رعایت کیوں دی جا رہی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ افسران کو دی جانے والی مفت بجلی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نگران وزیراعظم نے ریکارڈ طلب کیا ہے کہ کس کس افسر کو کتنی بجلی مفت دی جاتی ہے اور اس کی مجموعی رقم کتنی بنتی ہے؟ اس نوٹس کے بعد قوی امید ہے کہ گریڈ سترہ سے اوپر کے افسران کی مفت بجلی ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 35ملین بجلی کے کنکشن ہیں جن میں چارملین اے سی والے صارفین ہیں‘ جو 200سے زیادہ والا ٹیرف استعمال کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق فاٹا میں تقریباً 50ارب روپے‘ آزاد کشمیر میں دس ارب روپے جبکہ بلوچستان میں بھی سالانہ دس ارب روپے کے بل ادا نہیں ہوتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ریکوری کے مسائل ہو سکتے ہیں لیکن مردان جیسے شہر میں بھی 50فیصد تک بجلی چوری ہو رہی ہے جبکہ کراچی جیسے اہم شہر میں بھی بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہونے کی اطلاعات ہیں۔ مجموعی طور پر 320ارب روپے کی سالانہ بجلی چوری ہو رہی ہے۔ یہ سارے انتظامی معاملات ہیں جس کا بوجھ ان صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔ ستمبر میں ہائی بیس ٹیرف سے بجلی کے بلوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے‘ اس لیے ہمیں مسئلے کا دیرپا حل نکالنا ہو گا جو بجلی و گیس کمپنیوں کی نجکاری کے بغیر ممکن نہیں۔جب مسئلہ گھر میں ہو تو باہر کے لوگوں کو موردالزام ٹھہرانا درست نہیں ہوتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved