تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-08-2023

باشعور ہونا ہی پڑے گا

زمانہ ایسی نہج پر پہنچ گیا ہے کہ اب ہر معاملے میں شعور بنیادی ضرورت ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو شعور کی اہمیت تسلیم کرنے سے انکار کرے؟ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شعور کو بروئے کار لاکر بسر کی جانے والی زندگی ہی زندگی کہلائے جانے کے لائق ہے مگر پھر بھی اِس طرف متوجہ ہونے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ ہم زندگی بھر شعور کو روتے رہتے ہیں مگر باشعور حالت میں زندگی بسر کرنے کا ذہن نہیں بناتے، تیاری نہیں کرتے۔ شعور کیا ہے؟ معاملات کو ڈھنگ سے نپٹانے کی ذہنیت۔ بالکل ابتدائی نوعیت کا شعور تو حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اِس ابتدائی سطح کے شعور سے تھوڑا بہت ہی کام چلتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کی خواہش توانا ہو تو شعور کو پروان چڑھانا اور اپنانا پڑتا ہے۔ باشعور ہونے کے تقاضوں کو سمجھنا بھی ہر اُس انسان پر لازم ہے جو کسی خاص مقصد کے تحت اور اہلِ جہاں کے لیے مفید ہوتے ہوئے جینے کا خواہش مند ہو۔
وہ زمانے ہوا ہوئے جب ذہن کو زیادہ بروئے کار لائے بغیر بھی کسی نہ کسی طور جیا جاسکتا تھا اور لوگ جی لیتے تھے۔ تب بیشتر معاملات سادہ تھے۔ اُن میں ایسی پیچیدگی تھی ہی نہیں جس کے حوالے سے زیادہ سوچنا پڑتا اور کچھ کر گزرنے کا عزم بھی کرنا پڑتا۔ آج معاملہ یہ ہے کہ جس نے بھی ذہن سے کام لینے کا معاملہ نظر انداز کیا وہ مارا گیا۔ ہم اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو سوچے اور سمجھے بغیر جیا کرتے ہیں اور زندگی بھر اِس کا خمیازہ بھی بھگتتے رہتے ہیں۔ پھر کیا سبب ہے کہ لوگ شعور پسند مزاج کے حامل نہیں ہو پاتے؟ شعور سے دور دور رہنے کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ عام آدمی زیادہ باشعور ہوتے ہوئے جینے کے بارے میں سنجیدہ اس لیے نہیں ہوتا کہ پھر بہت سے معاملات میں اپنے مفادات کو تھوڑا بہت قربان کرنا پڑتا ہے۔ شعور ہمیں بہت کچھ دیتا ہے مگر بہت کچھ لیتا بھی ہے۔ جس نے باشعور ہوکر زندگی بسر کرنے کا ذہن بنالیا ہو اُسے بے ذہنی کو تج دینا پڑتا ہے۔ بے ذہنی یعنی ذہن سے کام نہ لیتے ہوئے جینے کی روش کو ترک کرنا پڑتا ہے۔
شعور کا بنیادی تقاضا حقیقت پسندی ہے۔ لوگ حقیقت پسندی سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا بالعموم وہ لوگ کرتے ہیں جن کے اپنے معاملات میں بہت سے جھول پائے جاتے ہیں۔ ہم اگر کسی سے کچھ چاہتے ہیں تو کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کو صرف ملتا رہے اور کچھ دینا نہ پڑے۔ شعور کے ساتھ زندہ رہنے میں بہت سے فوائد ہیں مگر یہ فوائد مفت ہاتھ نہیں آتے۔ اس کے لیے زندگی کا پورا ڈھانچا بدلنا پڑتا ہے۔ لوگ ایسا کرنے سے کتراتے ہیں اس لیے شعور کو پروان چڑھانے اور اُسے زندگی کا جُز بنانے سے بھی گریزاں رہتے ہیں۔ فی زمانہ صرف وہ لوگ بھرپور کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں جو پوری ہوش مندی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہوش مندی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ماحول میں رونما ہونے والی تمام اہم تبدیلیوں کا علم ہونا چاہیے۔ بالخصوص ایسی تبدیلیوں پر متوجہ رہنا چاہیے جن سے غیر متعلق رہنے کی صورت میں کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو، کچھ ادھورا پن راہ کی دیوار بن کر کھڑا ہو جاتا ہو۔ ترقی یافتہ دنیا اس بات کا بین ثبوت بن کر ہمارے سامنے ہے کہ شعور کی سطح بلند کیے بغیر ڈھنگ سے جینا ہی ناممکن نہیں بلکہ بقا کا مسئلہ بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔ کم و بیش چار سو سال کے دوران امریکہ اور یورپ نے مل کر حیرت انگیز ترقی ممکن بنائی ہے۔ مادّی سطح پر اُن کی بھرپور کامیابی اس کا بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ اگر کچھ کرنے کی ٹھان لی جائے تو فقیدالمثال کامیابی مل کر رہتی ہے۔ مغربی دنیا نے شعور کی سطح بلند کرکے یہ سب کچھ پایا ہے۔
شعور میں بہت کچھ شامل ہے۔ ایک طرف تو یومیہ معمولات کو فضول باتوں سے پاک کرنا شعور کا حصہ ہے اور دوسری طرف زندگی کے بارے میں حقیقی سنجیدگی سے ہم کنار ہونا بھی شعور ہے۔ شعور کا مطلب ہے ذہن کو اس طور بروئے کار لانا کہ کوئی بھی معاملہ بے جا طور پر خرابی سے دوچار نہ ہو۔ ہم اگر اپنے معمولات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بہت سے معاملات میں ہمیں ذہن بروئے کار لانا ہوتا ہے مگر ہم ایسا نہیں کرتے۔ اس کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں مگر شاید سب سے بڑی وجہ ہے تساہل اور لاپروائی۔ لوگ تساہل اور لاپروائی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لاپروائی کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لوگ زندگی بھر کی منصوبہ سازی سے گریز کرتے ہیں۔ یہ ہے لاپروائی! لوگ شادی جیسے انتہائی اہم فیصلے کے لیے خاطر خواہ حد تک سنجیدہ نہیں ہوتے۔ یہ ہے لاپروائی! بچوں کے مستقبل کے حوالے سے سوچنے کی زحمت بھی خاطر خواہ حد تک گوارا نہیں کی جاتی۔ یہ ہے لاپروائی! دوستی اور محبت کے معاملے میں بھی لوگ سنجیدہ نہیں ہوتے‘ معاملات کو درست طریقے سے چلانے کے بارے میں نہیں سوچتے۔ یہ ہے لاپروائی! یومیہ بنیاد پر یعنی معمولات میں بھی لاپروائی اچھی خاصی خرابیاں پیدا کرتی ہے مگر ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی سنجیدہ نہیں ہوتے اور تدارک کا ذہن نہیں بنا پاتے۔
پہلے مرحلے میں شعور پیدا کرنا پڑتا ہے۔ شعور کی پیدائش ماحول سے ہم آہنگی کے نتیجے میں یقینی ہو پاتی ہے۔ جب کوئی بھی انسان اپنے ماحول کو اپنانے کا ذہن بناتا ہے تب اُس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ پڑھنے اور دیکھنے کا ہے۔ شعور اُنہی لوگوں میں پیدا ہوتا ہے جو اپنے شعبے سمیت تمام بنیادی معاملات کے بارے میں زیادہ جاننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جاننے اور سیکھنے کا عمل محض مطالعے تک محدود نہیں۔ مشاہدہ اور تفاعل بھی بہت اہم ہے۔ ہم زندگی بھر جن لوگوں سے ملتے ہیں اُن سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتے ہیں اور سیکھنا ہی چاہیے۔ مشاہدہ ہمیں بہت کچھ دیتا ہے، ہمارے شعور کی سطح بلند کرتا ہے۔ اسی طور مختلف شعبوں کی ارفع شخصیات کے انٹرویوز، خود نوشت، سوانح اور دیگر فن پاروں سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ اپنے ذہن میں اتارنے اور ہضم کرنے کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں یا نہیں۔ عمومی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ لوگ شعور کی گردان تو کرتے رہتے ہیں مگر جب اس حوالے سے عمل پسند ہونے کی گھڑی آتی ہے تب اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ شعور کو پروان چڑھانے کے لیے بہت کچھ پڑھنا اور سیکھنا ہوتا ہے۔ بس اس مرحلے میں بیشتر کی ہمت جواب دی جاتی ہے۔ شعور سے بہرہ مند افراد کو دیکھ کر ہم تحریک پاسکتے ہیں اور پاتے بھی ہیں۔ اس کے بعد کا مرحلہ ہمارے لیے پریشان کن ہوتا ہے۔ جب عملی سطح پر کچھ کرنے کی بات آتی ہے تب ہم اپنے تساہل، لاپروائی اور بے ذہنی کو ترک کرنے پر آسانی سے آمادہ نہیں ہو پاتے۔ شعور خود بخود پیدا ہوتا ہے نہ پنپتا ہے۔ یہ خالص انہماک کا معاملہ ہے۔ گزارے لائق شعور تو ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ اسے ہم حقیقی مفہوم میں شعور قرار نہیں دے سکتے۔ روزمرہ معاملات میں ہم جو کچھ سوچتے اور کرتے ہیں وہ شعور کی بالکل ابتدائی اور خام شکل ہوتی ہے۔ اس سطح سے بہت بلند ہونے کی صورت میں ہم اپنے اور دوسروں کے لیے کچھ کر پاتے ہیں۔
شعور ہر دور کا تقاضا رہا ہے۔ کب ایسا تھا کہ انسان بے شعور ہوتے ہوئے ڈھنگ کی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پایا ہو؟ ہزار سال پہلے بھی وہی لوگ نمایاں طور پر کامیاب ہو پاتے تھے جو باشعور ہوتے تھے۔ ہاں‘ تب باشعور ہونا کچھ اور مفہوم رکھتا تھا اور شعور سے بہرہ مند ہونے کے تقاضے اور لوازم مختلف ہوا کرتے تھے۔ دنیا پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی گئی ہے۔ آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں صرف پیچیدگی رہ گئی ہے۔ یہ پیچیدگی آسانیوں کی پیدا کردہ ہے۔ زندگی کو آسان بنانے والی ٹیکنالوجیز کی بھرمار نے ذہنوں کو اُلجھادیا ہے۔ ایسے میں باشعور رہتے ہوئے جینا واقعی بہت بڑا چیلنج ہے۔ شعور کے ساتھ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس راہ پر نکل جائیے تو پھر رُکنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مگر بھرپور محنت سے پروان چڑھایا جانے والا شعور انسان کو دوام بخشتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved