عالمی جنگوں خصوصاً دوسری جنگِ عظیم (1939-45ء) کی ہولناک تباہ کاریوں سے سبق سیکھتے ہوئے اقوامِ عالم میں جنگ و جدل کے بجائے علاقائی سطح پر معیشت اور تجارت کے شعبوں میں ترقی کے لیے باہمی تعاون کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ اس کی نمایاں مثال یورپی یونین ہے جس کی بنیاد دوسری عالمی جنگ کے تقریباً فوراً بعد اہم صنعتی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کی شکل میں رکھی گئی تھی۔ باہمی تعاون کے اس فریم ورک کی بنیاد رکھنے میں جرمنی اور فرانس بھی شامل تھے‘ جو اَب تک لڑی جانے والی دو سب سے بڑی جنگوں یعنی پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں ایک دوسرے کے حریف تھے۔
1957ء میں معاہدۂ روم کے تحت جب ان دو ملکوں کے ہمراہ چار دیگر مغربی یورپی ممالک یعنی بلجیم‘ لکسمبرگ‘ نیدر لینڈز اور اٹلی نے یورپین کامن مارکیٹ کی بنیاد رکھی تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تنظیم تقریباً تمام یورپی ممالک پر مشتمل نہ صرف سرمایہ کاری‘ صنعتی پیداوار اور تجارت کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے بلاک کی شکل اختیار کرے گی بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک بہت اہم سٹیک ہولڈر کی حیثیت سے اُبھرے گی۔ جس زمانے میں یورپین مارکیٹ نے علاقائی تعاون کے شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی منازل طے کیں‘ دنیا پر امریکہ کا بحیثیت معاشی اور عسکری طاقت کے‘ پوری طرح غلبہ تھا۔ اگرچہ سوویت یونین کو اس کا مدِ مقابل سمجھا جاتا تھا مگر حقیقت میں دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی ان ممالک میں رہتی تھی جنہیں غربت‘ افلاس اور پسماندگی کی وجہ سے کبھی تیسری دنیا‘ ترقی پذیر‘ پسماندہ اور جنوبی ممالک کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
معاشی اور سماجی ترقی کے لحاظ سے آج بھی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے‘ مگر اب ان دو حصوں کو ماضی کے مقابلے میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے‘ یعنی ''گلوبل نارتھ‘‘ اور ''گلوبل ساؤتھ‘‘۔ گلوبل نارتھ ان ممالک پر مشتمل ہے جو اب بھی امیر‘ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ گلوبل ساؤتھ میں ایشیا‘ افریقہ‘ لاطینی امریکہ اور بحرالکاہل (اوشنیا) کے اسرائیل‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کو چھوڑ کر‘ ممالک شامل ہیں۔ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کی علاقائی تعاون برائے ترقی کی متعدد تنظیمیں موجود ہیں مثلاً جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک پر مشتمل علاقائی تنظیم آسیان‘ جنوبی ایشیا میں سارک‘ مغربی ایشیا میں ای سی او (ECO)‘ اور وسطی ایشیا‘ مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی خطوں پر محیط شنگھائی تعاون تنظیم یعنی SCO‘ خلیج فارس میں خلیج تعاون تنظیم (GCC)‘ افریقہ میں ایسٹ افریقن یونین اور اسی طرح لاطینی امریکہ میں بھی OAS کے علاوہ دیگر علاقائی تنظیمیں بھی موجود ہیں‘ مگر ان سب کی مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک علاقے یا ایک براعظم تک محدود ہیں۔
برکس(BRICS) کا حال ہی میں ایک سربراہی اجلاس جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہوا۔ یہ تنظیم ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کی باقی علاقائی تنظیموں سے اس لحاظ سے مختلف اور منفرد ہے کہ اس میں شامل ممالک کا تین براعظموں یعنی ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ سے تعلق ہے۔ اس لحاظ سے یہ تنظیم‘ جس کی معاشی ترقی کے شعبے میں افزائش کے نمایاں امکانات پائے جاتے ہیں‘ گلوبل سائوتھ کے تصور کی بہتر نمائندہ نظر آتی ہے۔ 2009ء میں وجود میں آنے والی اس تنظیم نے جو تب صرف چار ممالک یعنی برازیل‘ روس‘ انڈیا اور چین پر مشتمل تھی‘ ارتقا اور ترقی کی منزلیں اتنی تیزی سے طے کی ہیں کہ اس وقت 40سے زیادہ ممالک نے اس میں شمولیت میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے اور 20سے زیادہ ممالک نے باقاعدہ طور پر اس کی رکنیت کے لیے درخواست دی ہے‘ مگر جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والے حالیہ سربراہی اجلاس میں صرف چھ ممالک یعنی سعودی عرب‘ ایران‘ متحدہ عرب امارات‘ ارجنٹائن‘ ایتھوپیا اور مصر کو رکنیت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 2010ء میں جنوبی افریقہ کی شمولیت کے بعد برکس کی رکنیت میں یہ ایک بڑی توسیع ہے۔ اگلے سال جنوری سے یہ ممالک باقاعدہ رکن کی حیثیت سے برکس میں شامل ہو جائیں گے۔
رکنیت میں اس توسیع کے بعد برکس کا دنیا کی کل جی ڈی پی میں حصہ 26 فیصد سے بڑھ کر 29 فیصد ہو جائے گا اور ساز و سامان کی عالمی تجارت میں اس کا حصہ 18 فیصد سے بڑھ کر 21 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ پچھلے سال برکس کے پانچ رکن ممالک برازیل‘ روس‘ انڈیا‘ چین اور جنوبی افریقہ کی مجموعی جی ڈی پی 26ٹریلین ڈالر تھی جو امریکہ کی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ چھ مزید ملکوں کی شمولیت کے بعد برکس کے رکن ممالک کی مجموعی جی ڈی پی میں اور بھی اضافہ ہو گا۔ برکس میں شامل بعض ممالک مثلاً جنوبی افریقہ‘ روس اور برازیل وسیع قدرتی اور معدنی ذخائر کے مالک ہیں اور چین کی سرمایہ کاری اور تکنیکی امداد سے ان وسائل سے استفادہ کرنے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ اسی لیے اس میں شمولیت کے لیے دنیا بھر کے ممالک کی لائن لگی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ فرانس‘ جو کہ یورپی یونین کا ایک اہم رکن ہے‘ کے صدر ایمانوئل میکرون نے جون میں برکس کی حالیہ سربراہی کانفرنس میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے‘ برکس کی جس تصور پر بنیاد رکھی گئی تھی وہ بہت پرانا ہے‘ مگر امیر اور ترقی یافتہ ممالک کا عالمی معیشت‘ مارکیٹ اور قدرتی وسائل پر غلبہ ہونے کی وجہ سے انٹر کانٹی نینٹل علاقائی تعاون کی یہ کوشش کافی عرصہ تک نمایاں پیش رفت حاصل نہ کر سکی تھی‘ مگر 2008ء میں امریکہ میں شروع ہونے والے مالی بحران‘ جس نے بعد میں یورپ اور دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا‘ چین کے ایک طاقتور معیشت کی حیثیت سے ظہور اور مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کے لیے اس کا چیلنج اور کووڈ 19کے بین الاقوامی معیشت پر منفی اثر نے امیر ملکوں کی معیشت کو ایسے جھٹکے پہنچائے ہیں کہ وہ ابھی تک سنبھل نہیں سکیں‘ اور ان کی سالانہ جی ڈی پی میں افزائش کی شرح بہت نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں چین‘ بھارت‘ سنگاپور‘ انڈونیشیا اور دیگر ممالک نے ایشیا میں اور جنوبی افریقہ اور برازیل نے بالترتیب براعظم افریقہ اور لاطینی امریکہ میں جی ڈی پی کی افزائش میں حیران کن حد تک اضافہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے یہ ممالک‘ جنہیں ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی کہا جاتا ہے‘ اب عالمی سطح پر معیشت اور تجارت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور جیو اکنامکس میں اس تبدیلی کا جیو پالیٹکل سٹرکچر‘ جو کہ 1945ء میں کھڑا کیا گیا تھا‘ میں تبدیلی کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے‘ لیکن امریکہ اور اس کے مغربی یورپ سے تعلق رکھنے والے حلیف ممالک اور جاپان اور آسٹریلیا‘ جنہیں گلوبل نارتھ بھی کہا جاتا ہے‘ اس ناگزیر تبدیلی کا راستہ روک رہے ہیں‘ مگر وہ زیادہ دیر تک اس کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے کیونکہ گلوبل ساؤتھ جسے کبھی تیسری دنیا‘ ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کہا جاتا تھا‘ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا احساس پیدا ہو گیا ہے اور نوآبادیاتی غلامی سے آزاد ہونے والے ان ممالک کو خود امریکہ اور اس کے اتحادی امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے اپنی بین الاقوامی معاشی پالیسیوں کو زیادہ سے زیادہ پروٹیکشنزم (Protectionism) کے تابع لا دھکیلا ہے۔ چین کی معاشی ترقی اور بین الاقوامی تجارت میں افزائش کے لیے بین البراعظمی انفراسٹرکچر کی تعمیر نے ان ابھرتی ہوئی معیشتوں کو نہ صرف اپنی قومی معیشتوں کی ترقی کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھنے بلکہ مستقبل میں اسے مزید تیز کرنے کی امید فراہم کی ہے۔ برکس کے عالمی پروفائل میں اضافے اور زیادہ سے زیادہ ممالک کے اس کی طرف رجوع کرنے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved