ہمارے ملک کے معاشی مسائل روز بروز بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور ہر آنے والے دن مہنگائی پہلے سے زیادہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ لوگوں کی تنخواہیں اور کاروباری آمدن اخراجات کے مقابلے میں انتہائی محدود ہو چکی ہے۔ لوگ پوری جفاکشی کے ساتھ محنت کرنے کے باوجود اپنے اخراجات کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ حالیہ ایام میں بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے کئی لوگ اپنی جان تک دینے پر آمادہ وتیار ہو چکے ہیں۔ بڑے گھروں کے سربراہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیم، روزگار اور مستقبل کے بارے میں شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ اخراجات کا بوجھ نہ اُٹھا پانے کی وجہ سے کئی لوگ مسلسل آنسو بہاتے نظر آتے ہیں اور کئی لوگ نفسیاتی عوارض کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے ریاستی اور ادارہ جاتی سطح پر مختلف طرح کی تجاویز دی جاتی ہیں لیکن بدنصیبی سے کوئی بھی تجویز مہنگائی کے تدارک کے حوالے سے مؤثر ثابت نہیں ہو پائی۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہم اس بات کا مشاہد ہ کر چکے ہیں کہ روپے کی قدرمیں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور اس قدر کو بحال کرنے کے لیے حکومتی سطح پر مثبت اقدامات کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن کوئی دعویٰ بھی مؤثر اور کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔ ہماری معیشت کا بنیادی انحصار بیرونی قرضوں پر ہے‘ تاحال ہم اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن کے تدارک کے لیے ہمارے پالیسی ساز وں اور حکمرانوں نے کسی بھی طور پر مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔
پاکستان کے بہت سے لوگ اس صورتحال کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں اور کئی لوگ بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں، یا اس کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بیرونِ ملک جانے والے افراد کا یہ گمان ہے کہ پاکستان میں اُن کا اور ان کی اولاد کا مستقبل محفوظ نہیں ہے، لہٰذا وطن سے باہر جانے ہی میں وہ عافیت محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بیرونِ ملک میں روزگار کے ذرائع اور مواقع بظاہر زیادہ نظر آتے ہیں اور وہاں پر ذہین اور پیشہ ور افراد کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ درپیش مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے کتاب وسنت میں بھی بہت سی اہم تدابیر بتلائی گئی ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری انفرادی اور ملکی معیشت بہتر ہو سکتی ہے۔ بعض اہم تدابیر‘ جو ذکر کتاب وسنت میں مذکور ہیں‘ درج ذیل ہیں:
1۔ تقویٰ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف کو دل میں جگہ دے کر گناہوں سے باز آ جاتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے معاملات میں آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ طلاق کی آیات 2 تا 3 میں ارشاد ہوا: ''...اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے (وہاں سے) جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا...‘‘۔
2۔ توکل: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتا ہے تووہ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ اور جب اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں تو اُس کے جملہ معاملات کو سنوار دیتے ہیں۔ سورۂ طلاق کی آیت نمبر 3 میں ارشادہوا: ''...اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ کافی ہے اُسے...‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو رزق ویسے دیتے ہیں جیسے پرندوں کو دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: جامع ترمذی میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیساکہ اس (پر بھروسہ کرنے) کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جس طرح پرندوں کو ملتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں‘‘۔
3۔ توبہ و استغفار: جب انسان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات آتی ہیں ان مشکلات کا سبب درحقیقت انسان کی اپنی کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں کچھ یوں فرمایا: ''اور جو (بھی) تمہیں مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے‘‘۔ جب انسان اجتماعی طور پر گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے نتائج بڑے ہولناک نکلتے ہیں اور خشکیوں اور تریوں میں انسان کے نامۂ اعمال کی وجہ سے فساد ظاہر ہو جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورۃ الروم کی آیت نمبر 41میں یوں بیان کیا گیا: '' فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے اُنہیں بعض (ان چیزوں کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آ جائیں)‘‘۔ چونکہ انسانوں کے نامہ اعمال کی سیاہی کی وجہ سے انتشار اور فساد ظاہرہوتا ہے اس انتشار اور فساد پر قابو پانے کے لیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے اپنے گناہوں پر معافی مانگنا ازحد ضروری ہے۔ سورۃ الزمر کی آیت نمبر 53میں ارشادہوا: ' 'آپ کہہ دیجئے: اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر‘ نا اُمید نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے‘ بے شک اللہ بخش دیتا ہے سب گناہوں کو‘ بے شک وہ بہت بخشنے والا‘ بڑا رحم کرنے والا ہے‘‘۔
سورۃ الفرقان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بہت بڑے بڑے کبیرہ گناہوں کو بھی معاف کر دیتے ہیں۔ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر رجوع کرتا ہے۔ سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 68 میں ارشاد ہوا: ''اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جویہ (کام) کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا) کو‘‘۔ جب توبہ استغفار سے انسانوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ اسی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کے حوالے سے کیا کہ انہوں نے کہا: ''بخشش مانگو اپنے رب سے بے شک وہ بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار۔ اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کردے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔
4۔ شکر:جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر شکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کوبڑھا دیتے ہیں۔ شکرکے تین درجے ہیں، دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف، زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر اور اعمال سے اس کی نعمتوں کا اعتراف۔ جب انسان اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کی زندگی میں دیگر نعمتوں کی طرح رزق کا بھی اضافہ کر دیتے ہیں۔
5۔ ہجرت:جب انسان اپنے ایمان کو بچانے کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے زمین کو کشادہ کر دیتے اور اس کے لیے رزق کا بندوبست فرما دیتے ہیں۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر 100میں ارشاد ہوا: ''اور جو ہجرت کرے گا اللہ کی راہ میں‘ وہ پائے گا زمین میں ٹھکانے بہت زیادہ اور کشادگی (بھی)، اور جو نکلے گا اپنے گھر سے ہجرت کرتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف‘ پھر آلیا اُسے موت نے تو یقینا واقع (ثابت) ہو گیا اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور اللہ معاف کرنے والا ہے، بہت مہربان‘‘۔
6۔ حج اور عمرہ: پے درپے حج اور عمرہ کرنے کی وجہ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے گناہوں کو معاف کر دیتے اور اُس کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں۔
7۔ نکاح: جب انسان پاکدامنی کے تحفظ کے لیے نکاح کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں۔ سورۂ نور کی آیت نمبر 32میں ارشاد ہوا: ''اور نکاح کر و بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا ) تمہارے غلاموں میں اور تمہاری لونڈیو ں (میں سے)‘ اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا اللہ انہیں اپنے فضل سے‘‘۔
8۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کا قیام: جب حکمران زمین پر اللہ کی حدود کو نافذ کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانوں سے زرق کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 66 میں ارشاد ہوا: ''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا اُن کی طرف رب کی طرف سے (تو) ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور پاؤں کے نیچے سے، (اور) اُن میں سے ایک گروہ میانہ رو ہے اور بہت سے اُن میں سے (ایسے ہیں کہ ) برا ہے وہ جوعمل کرتے ہیں‘‘۔
اگر مذکورہ بالا تدابیر پر عمل کر لیا جائے تو انفرادی اور اجتماعی معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ان امور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو معاشی فراخی کا سبب بنتے ہیں اور پاکستان میں رزق کی کشادگی پیدا فرمائے، آمین !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved