تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     30-08-2023

میرا لیڈر‘ تیرا لیڈر!

بجلی کے بل زیادہ آنا الگ بات ہے لیکن کئی کیسز میں ایسا لگتاہے کہ ہر جگہ کوئی نیا ہی فارمولا لگا کر بل بھیجا جا رہا ہے۔ عام لوگ جو صرف یونٹس کو دیکھ کر بجلی کے بل کیلکولیٹ کرتے ہیں‘ انہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ بعض صورتوں میں تو کئی لوگوں کے یونٹ گزشتہ ماہ سے کم خرچ ہوئے ہیں لیکن بل زیادہ آیا ہے۔ اب اس قسم کے بلوں میں کون سے فارمولے لگائے گئے ہیں‘ یہ تو بجلی کے محکموں کے افسران ہی بتا سکتے ہیں‘ بات مگر اب اتنی سادہ نہیں رہی۔ ملک میں کئی جگہ 'بجلی کے بل نہ بھرو‘ تحریک شروع ہو چکی ہے اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ اسے کنٹرول یا لیڈ کرنے والا کوئی نہیں ہے بلکہ مہنگائی اور مہنگی بجلی سے بپھرے عوام خود ہی سڑکوں میں نکل رہے ہیں‘ جو ملکی حالات کے لیے بھی الارمنگ ہے۔ سابق حکومت کو یہ چیلنج درپیش تھا کہ کس طرح ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے معیشت کو سنبھالا دینا ہے۔ اس چکر میں کئی نئے ٹیکسز اور ریگولیشنز عائد کی گئیں جن کی وجہ سے معیشت ڈیفالٹ سے تو بچ گئی لیکن عوام کا کچومر نکل گیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بجلی کی قیمتیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک مثلاً کینیڈا‘ برطانیہ وغیرہ میں بھی بہت زیادہ بڑھی ہیں‘ مہنگائی نے وہاں بھی عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور کوئی بھی‘ کسی بھی ملک میں اس طرزِ عمل سے خوش نہیں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی زندگی اب ویسی نہیں رہی جیسا کہ کورونا سے قبل گزر رہی تھی۔ بنیادی طور پر دنیا اس وقت ایک زبردست عالمی معاشی بحران سے گزر رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے تاریخی ریکارڈ بن رہے ہیں۔ جو ممالک کسی قسم کے سیاسی بحران سے بچے ہوئے ہیں‘ وہ تو عوام کے لیے کچھ نہ کچھ دال دلیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن پاکستان پچھلے پانچ برسوں سے سیاسی طور پر بھی عدم استحکام کا شکار ہے جس کی وجہ سے یہاں اس عالمی معاشی بحران کے اثرات اور جھٹکے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہر ملک اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ برطانیہ میں بھی مہنگائی کا طوفان زوروں پر ہے۔ اس کا نیشنل ہیلتھ سروس سسٹم پہلے ہی زیرعتاب ہے۔ پاکستان کی طرح وہاں بھی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف آئے روز ہڑتال کر رہے ہیں۔ برطانوی ڈاکٹر کم تنخواہوں‘ کم مراعات اور زیادہ ورک لوڈ کی وجہ سے حکومت سے نالاں ہیں اور وہاں کے زیادہ تر ڈاکٹرز اور دیگر پروفیشنلز برطانیہ چھوڑ کر آسٹریلیا‘ کینیڈا اور دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ کینیڈا نے اس سال پانچ لاکھ نئے امیگرنٹس بلانے کا پروگرام انائونس کیا ہے جبکہ گزشتہ دو‘ تین برسوں میں بارہ لاکھ غیرملکی کینیڈا پہنچے ہیں جس کی وجہ سے وہاں رہائش کے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں اور گھروں کے کرائے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ کینیڈین وزیراعظم نے اگلے سال الیکشن لڑنا ہے اس لیے وہ عوام کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے رہے اور انہیں مختلف قسم کے الائونسز دے کر رام کر رہے ہیں جبکہ پہلے سے موجود الائونسز کی شرح میں اضافہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا وقتی فائدہ جسٹن ٹروڈو کو الیکشن میں ہو سکتا ہے لیکن بالآخر کینیڈا کی اکانومی پر بھی عالمی مالیاتی بحران کا بوجھ آنے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صورتِ حال کو بھانپ کر کئی کینیڈین امریکہ اور دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ کینیڈا میں مہنگائی کی بلند شرح کے باعث اب بچت کرنا ممکن نہیں رہا۔ ایک محدود اقلیت کو چھوڑ کر اس وقت ہر ملک میں عوام کی کثیر تعداد معاشی طور پر پریشان دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان میں حالات کیسے بہتر ہوں گے‘ یہ ایسا سوال ہے جس پر لاتعداد لیکن لاحاصل قسم کی بحثیں کی جا سکتی ہیں کیونکہ ہونا وہی ہے جو طاقتور حلقے چاہیں گے کہ عوام دال روٹی کے چکر میں اتنے پھنس چکے ہیں کہ ان کے پاس ٹھیک طرح سے احتجاج کرنے کا بھی وقت نہیں ہے؛ تاہم بجلی کے بھاری بلوں کی وجہ سے حالات کسی بھی طرف جا سکتے ہیں اور پھر انہیں سنبھالنا ممکن نہ ہو گا کیونکہ عوام کو اس وقت کسی ایک سیاسی جماعت پر غصہ نہیں ہے بلکہ ملک کو ان حالات تک پہنچانے میں ہر سیاسی جماعت اور ہر ادارے کا کردار ہے۔
ان حالات کے میڈیا‘ جوڈیشری‘ بیورو کریسی اور سب سے بڑھ کر عوام خود ذمہ دار ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو بار بار منتخب کرتے ہیں جو ہر بار جھوٹے وعدے کر کے ووٹ اوراقتدار حاصل کر لیتے ہیں لیکن بدلے میں سوائے دلاسوں کے کچھ نہیں دیتے۔ صوبہ سندھ ہی کو دیکھ لیں‘ جیسے وہاں کے حکمران ویسے ہی عوام۔ ایک چینل کے اینکر نے سندھ کے انتہائی پسماندہ علاقے کے ایک معمر شخص سے پوچھا کہ آج تک نہ تمہارے علاقے کی سڑک بنی‘ نہ یہاں صاف پانی ہے اور بجلی‘ گیس تو دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی‘ سکولوں میں خچر اور بھینسیں بندھی ہوئی ہیں اور بچے‘ جوان عورتیں سب کے سب غلاموں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ تو اس شخص نے ہاتھ کھڑے کر کے کہا کہ وہی ذمہ دار ہیں جو یہاں حکومت کرتے ہیں۔ اس پر اینکر نے پوچھا: اگر وہ تم لوگوں کو کچھ دیتے نہیں‘ تمہارے علاقے کے حالات نہیں بدلتے‘ تمہارے بچے سکول نہیں جا پاتے‘ یہاں کی سڑکیں پکی نہیں ہوتیں‘ تم لوگوں کو پینے کو صاف پانی نہیں ملتا تو پھر تم ہر بار انہی لوگوں کو ووٹ کیوں دیتے ہو؟ اس پر بابا جی پُرجوش ہو کر بولے: ہمیں کچھ ملتا ہے تو ٹھیک‘ نہیں ملتا تب بھی ووٹ بھٹو کا ہی ہے۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام اس بحران کے خود کتنے ذمہ دار ہیں اور اپنے حالات میں تبدیلی کے کس قدر خواہاں ہیں۔
حالات شعور کے ساتھ بدلتے ہیں اور اب کچھ کچھ عوام میں شعور بیدار ہونے لگا ہے کیونکہ وہ سوال کرنے لگے ہیں اور سوال وہی کرتا ہے جو واقعتاً کسی مسئلے کی تہہ میں جانے کی سکت‘ یا کم از کم خواہش رکھتا ہو۔ بجلی کے بلوں میں فلاں ٹیکس کیوں لگایا گیا ہے‘ سرکاری ٹی وی چینل اور ریڈیو کا ٹیکس عوام پر کیوں ڈالا جاتا ہے‘ ہر قسم کی نااہلی اور ناکامی کا بوجھ اور نزلہ آخر عوام پر ہی کیوں گرایا جاتا ہے‘ یہ سوالات لوگ اب کھل کر پوچھ رہے ہیں لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ان کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ سوال اس وقت پوچھے جانے چاہئے تھے جب یہاں نواز شریف‘ آصف زرداری یا عمران خان کی حکومت تھی۔ تب بھی یہی بل اور یہی ٹیکسز تھے۔ تب ٹیکسوں کا یہ زہر آہستہ آہستہ عوام کے جسموں میں انڈیلا جا رہا تھا لیکن تب عوام کو اپنے اپنے لیڈروں کی تاج پوشی اور مارکیٹنگ سے وقت نہیں ملتا تھا۔ تب وہ ایسی کسی تنقید کو خاطر میں نہیں لاتے تھے بلکہ اگر کوئی مخالف انہیں ایسے کسی فیصلے سے آگاہ کرتا جس میں عوام پر بوجھ بڑھتا نظر آتا تو وہ جواب میں دوسرے کے لیڈروں کو لعن طعن اور سوشل میڈیا پر رگیدنا شروع ہو جاتے تھے۔ یہی لوگ اگر اس وقت بنیادی حقوق اور بنیادی مسائل پر اکٹھے ہو جاتے اور اپنے اپنے حکمرانوں کو ان کے غلط فیصلوں پر ٹوکتے تو آج بجلی کے بلوں کے جھٹکے برداشت کرنا پڑتے نہ ہی مہنگائی ان حدوں کو چھو رہی ہوتی۔ اس وقت بھی رہتے تو یہ ایک ہی پاکستان میں تھے لیکن سب نے اپنی اپنی سلطنتیں اور اپنے اپنے بادشاہ بنا رکھے تھے جنہیں یہ آنکھیں بند کر کے پوجتے چلے آ رہے تھے اور ان کے غلط اقدامات کی بھی توضیحات اور توجیہات تلاش کر لیا کرتے تھے۔ ''میرا لیڈر‘ تیرا لیڈر‘‘ کی جنگ میں الجھنے کے بجائے اگر عوام اس وقت چند بنیادی حقوق پر اکٹھے ہو جاتے تو شاید آج انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved