فرعون کیا کرتا تھا؟
یہی کہ اس کے سامنے کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ یہی کہ اس سے کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکتا تھا۔ یہی کہ اس کے کہے کو چیلنج کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ یہی کہ وہ نوزائیدہ بچے مروا دیتا تھا۔
آپ کا کیا خیال ہے‘ آج کا فرعون کون ہے؟ کون ہے جس کے سامنے کوئی بات نہیں کر سکتا؟ کون ہے جس سے کچھ پوچھا نہیں جا سکتا؟ کون ہے جو بچے تو بچے‘ بڑوں کو بھی مروا رہا ہے؟ یہ فرعون‘ آج کا فرعون‘ کوئی انسان نہیں‘ یہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جو فرعون بنا ہوا ہے! اس کاغذ کے ٹکڑے کے کہے کو بدلا جا سکتا ہے نہ چیلنج کیا جا سکتا ہے! یہ بجلی کا بل ہے! کتنے ہی اس کی وجہ سے خود کُشی کر چکے! کتنے ہی خانماں برباد ہو گئے۔ اس فرعون سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ نام نہاد سرکاری ٹیلی ویژن کے نام پر بجلی کے بل میں ہر ماہ‘ ہر گھر سے‘ 35روپے کیوں وصول کیے جا رہے ہیں؟ اس فرعون سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ بجلی کا سرکاری ٹی وی سے کون سا جائز یا ناجائز تعلق ہے؟ سرکاری ٹی وی تو دیکھتا ہی کوئی نہیں۔ عمران خان واحد اپوزیشن رہنما تھا جس نے اس جگا ٹیکس کو چیلنج کیا تھا اور سرکاری ٹی وی کو للکارا تھا۔ جسے شک ہو اُس زمانے کی وڈیو دیکھ لے۔ مگر بجلی کا یہ بل‘ یہ فرعون‘ اتنا ظالم اور اس قدر دہشت ناک ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان جیسا بہادر شخص بھی کچھ نہ کر سکا‘ اپنے تین چار سالہ دورِ حکومت میں انہیں اس مسئلے کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ رہے باقی سیاستدان تو انہوں نے کبھی اس ظلم کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس فرعون سے کون پوچھے کہ نیلم جہلم منصوبے کے نام پر کیوں زبردستی چندہ لیا جا رہا ہے؟ اس کا کوئی حساب کتاب بھی ہے کہ کتنا جمع ہوا‘ کہاں خرچ ہوا؟ سرچارج کے نام پر‘ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر‘ ایکسٹرا چارجز کے نام پر‘ کاسٹ چارجنگ کے نام پر‘ ان کے علاوہ بھی کسی نہ کسی نام سے بیسیوں ٹیکس اور محصول لیے جا رہے ہیں! اس فرعون سے کسی چیز کا جواز پوچھا جا سکتا ہے نہ حساب! جس طرح فرعون کے سپاہی تلواریں لے کر لوگوں کے سر قلم کرتے تھے‘ اسی طرح اس موجودہ ظالم کے کارندے آکر بجلی کاٹ جاتے ہیں! دہشت کا یہ عالم ہے کہ لوگ ادھار لے کر‘ بھیک مانگ کر‘ گھر کا سامان بیچ کر بجلی کا بل ادا کر رہے ہیں تاکہ یہ کارندے نہ آن گھُسیں! بربریت کی انتہا یہ ہے کہ ان کارندوں کی ملی بھگت سے اربوں کی جو بجلی چوری ہو رہی ہے‘ اس کی سزا ان کارندوں کو نہیں مل رہی بلکہ اُن صارفین کو دی جا رہی ہے جو بل باقاعدگی سے ادا کررہے ہیں۔ ناجائز‘ غیر منظور شدہ کنکشن ان کارندوں کے ملوث ہوئے بغیر وجود میں آہی نہیں سکتے! فرعونیت کی حد یہ ہے کہ اس محکمے کے افسر اور کارندے بجلی خوب استعمال کرتے ہیں اور مفت استعمال کرتے ہیں۔ یعنی:
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا
وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کچے گھروں کو پلٹیں۔ کونوں کھُدروں میں رکھی لالٹینوں کو اٹھائیں‘ انہیں صاف کریں‘ ان کے شیشے چمکائیں‘ ان کی لوؤں کو اونچا کریں اور انہیں جلا کر اپنے کمروں‘ لاؤنجوں اور رسوئیوں میں لٹکا دیں! وقت آگیا ہے کہ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی دستی پنکھیوں کو پھر سے ڈھونڈیں۔ انہیں جھالروں کے حاشیوں سے آراستہ کریں اور ان سے اپنی گرمی کا علاج کریں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم بان سے بَنی ہوئی کھردری چارپائیاں پھر چھتوں پر چڑھائیں‘ ان پر مچھردانیاں تانیں‘ ان کے اندر سوئیں اور صبح جب بیدار ہوں تو اوس نے چارپائیوں پر بچھی ہوئی دریوں کو کچھ کچھ گیلا کر دیا ہو۔ ہمارے بزرگوں نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ ہماری عمر کے لوگوں نے بھی یہ سب کچھ کیا ہے اور دیکھا ہے۔ اُس وقت ہم آئی ایم ایف کے غلام نہیں تھے۔ کسی فرعون میں یہ جرأت نہ تھی کہ ہماری زندگیوں کو جہنم بنائے۔ لالٹینوں کی روشنی میں جیتے تھے۔ ہاتھوں سے پنکھیاں ہلا ہلا کر اپنے آپ کو ہوا پہنچاتے تھے۔ خوش تھے۔ آج ہم اے سی‘ پنکھوں اور برقی قمقموں کے غلام ہیں اور آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑ رہے ہیں۔
ماتم تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ہمارے طاقتور طبقات‘ ہمارے دکھ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے کہ وہ بجلی کے ضمن میں مفت خورے ہیں۔ جو بجلی وہ استعمال کرتے ہیں اس کی قیمت پِسے ہوئے طبقات ادا کرتے ہیں۔ مغرب نے جب دھمکی دی تھی تو شاہ فیصل بن عبد العزیز نے کہا تھا کہ ہم اونٹوں پر سوار ہو کر اپنے خیموں میں واپس چلے جائیں گے! آج بجلی مفت استعمال کرنے والے طاقتور طبقات آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ہمیں کچلنے کے درپے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ لالٹینیں جلا کر اپنے کچے گھروں اور اپنی ہوادار چھتوں کو واپس چلے جائیں۔ ٹی وی نہ دیکھا تو نہیں مریں گے مگر یہ بِل‘ ان بلوں کی فرعونیت اور بربریت ہمیں ضرور مار دے گی۔ ہمارے حکمران اور ہمارے طاقتور طبقات ہمارے ساتھ نہیں! ہمیں جو کچھ کرنا ہو گا‘ ان کے بغیر کرنا ہو گا!
ظلم در ظلم در ظلم یہ کہ سولر پینل بھی مافیا کے قبضے میں ہے۔ سورج پیدا کرنے والے نے سورج کی شعائیں سب کے لیے عام کی ہیں مگر اس مافیا نے ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دی ہیں! یہ ہزاروں کا نہیں لاکھوں کا معاملہ ہے۔ کیا عجب کل اقرا سرچارج اور سرکاری ٹی وی جگا ٹیکس کے ساتھ سولر سرچارج بھی ہمیں اپنے جبڑوں میں لے لے۔ خدا کی قسم ! ان ظالموں کا بس چلے تو آکسیجن پر بھی سرچارج لگا دیں! یہ تو ہوا بھی فروخت کرنے پر تیار ہوں گے۔ کل دھوپ پر بھی ٹیکس لگ سکتا ہے۔ چاندنی پر بھی مکروہ ''ایڈجسٹمنٹ‘‘ نافذ کر سکتے ہیں! یہ بقول حسن نثار اپنے ''بد شکلے اور بے عقلے‘‘ بچوں کی اندرون اور بیرون ملک عیاشیوں کی قیمت چکانے کے لیے غریب بچوں کی ذہانت پر بھی ٹیکس لگا سکتے ہیں۔ یہ کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمہارے بچے نے ٹاپ کیا ہے اس لیے اتنا ٹیکس مزید دو! اگر آج ہمارا صدر‘ ہمارا وزیراعظم‘ ہمارے گورنر‘ ہمارے وزرائے اعلیٰ‘ ہمارے وزیر بجلی کے بل اسی طرح بھر رہے ہوتے جس طرح عام لوگ بھر رہے ہیں تو عوام کو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ کاٹنے پر دُکھ نہ ہوتا۔ مگر یہ سب طاقتور اور زورمند افراد‘ یہ سارے صاحبانِ قوت و قدرت‘ ہماری کشتی میں سوار ہی نہیں!
We are not in the same boat!
ہمارے طبقے الگ الگ ہیں۔ ہماری قسمتیں مختلف ہیں۔ ہم باڑ کے اس طرف ہیں۔ یہ مفت بجلی کھانے والے باڑ کے اُس طرف ہیں۔ ہماری خوشیاں ان کی خوشیاں نہیں اور ہمارے غم بانٹنے کو یہ تیار نہیں! ہم وہ مجبور‘ مظلوم اور مقہور ہیں جو اپنی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں اور ان طاقتوروں کی بجلی کے دام بھی چکاتے ہیں! تو پھر ہم سب ایکا کیوں نہیں کرتے اور اپنی لالٹینیں‘ دیے اور موم بتیاں جلا کر ان کے پَیروں کے نیچے سے زمین کیوں نہیں سرکاتے! کیا ہم تا ابد اُن کا بوجھ اٹھاتے پھریں گے؟ کیا ہم ہمیشہ ان کی کفالت اور پرورش کرتے رہیں گے؟
آج ایران میں بجلی سستی ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں سستی ہے۔ ازبکستان اور دوسری وسط ایشیائی ریاستوں میں سستی ہے۔ آسودگی کے اس سمندر میں صرف پاکستان ایک ایسا جزیرہ ہے جس میں آدم خور بستے ہیں۔ جہاں عوام خون تھوک رہے ہیں! جہاں چند خاندان پھولوں کی سیج پر رقص کر رہے ہیں اور عوام کانٹوں پر چل رہے ہیں! کب تک؟ آخر کب تک؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved