جہانگیر ترین کے گھر بیٹھے میری عارف علوی صاحب سے بات ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ آپ جانے انجانے میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایجنڈے میں استعمال ہوئے ہیں۔ عارف علوی پی ٹی آئی کی طرف سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ممبر تھے اور وہ ان چند ممبران میں سے تھے جو پوری تیاری کیساتھ کمیٹی اجلاس میں آتے اور اچھے سوالات کرتے تھے‘ تاہم وہ بہادر یا ڈٹ جانے والے نہیں تھے۔ وہ نواز لیگ کے ایم این ایز سے ڈر اور دب جاتے تھے۔ نواز لیگ کے پرانے کھلاڑی اچھی طرح جانتے تھے کہ انہوں نے پہلی دفعہ کے ایم این اے عارف علوی کو کیسے دبا اور ڈرا کر رکھنا ہے جو وہاں اپوزیشن کے اکیلے ممبر تھے‘ باقی زیادہ تر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے لوگ تھے۔ عارف علوی کے دبنے کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ پاناما کا ایشو چل رہا تھا‘ انہوں نے پی اے سی میں حسن نواز اور حسین نواز کے بارے میں کمنٹ کیا تو اس پر نواز لیگ کے اراکین بھڑک گئے اور عارف علوی کو کہا کہ فوراً معافی مانگیں‘ ورنہ وہ عمران خان اور اُن کا کچا چٹھا کھول دیں گے۔ میں اس اجلاس میں دیگر صحافیوں کیساتھ موجود تھا۔ میرا خیال تھا کہ عارف علوی ڈٹ جائیں گے لیکن انہوں نے فوراً معافی مانگ لی۔ اس دن کے بعد میں نے انہیں سیریس لینا چھوڑ دیا۔ وہ ایک نوکری پیشہ بندے کی سی ذہنیت کے مالک نکلے‘ جو تنخواہ بچانے کے چکر میں غلطی نہ ہونے کے باوجود روزانہ مالک کی ڈانٹ ڈپٹ کھا کر معافی مانگتا رہتا ہے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے سیانوں نے عارف علوی کے لیے کام ڈھونڈ لیا تھا۔ وہ کام علوی صاحب جیسا بندہ ہی کر سکتا تھا جنہوں نے سوچے سمجھے بغیر اسحاق ڈار اور خورشید شاہ کا کام آسان کر دیا تھا۔
ہوا کچھ یوں کہ جب اختر بلند رانا نے تمام پراسیس بلڈوز کرکے بجلی گھروں کو ایک ہی دن میں 480ارب روپے کی ادائیگی پر اعتراض کے علاوہ‘ خورشید شاہ پر بھی یہ اعتراض عائد کر دیا کہ وہ پیپلز پارٹی دور کی آڈٹ رپورٹس پر اجلاسوں کی صدارت کیوں کرتے ہیں تو اس پر پوری کمیٹی‘ جو نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین پر مشتمل تھی‘ اکٹھی ہو گئی۔ انہیں یہ خبر ملی تھی کہ اختر بلند رانا نے اپنی تنخواہ ازخود بڑھا لی تھی۔ اس پر فوراً ایک سب کمیٹی بنا دی گئی جس کا سربراہ انہوں نے عارف علوی صاحب کو بنا دیا۔ علوی صاحب کیلئے بڑی عزت کی بات تھی کہ انہیں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین نے کمیٹی کا سربراہ بنا دیا تھا۔ اختر بلند رانا پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی تنخواہ میں تیس ہزار روپے از خود اضافہ کر لیا تھا جس کے وہ مجاز نہ تھے۔ اختر بلند رانا کا کہنا تھا کہ ان کے عہدے کی تنخواہ گریڈ بائیس کے افسر کے برابر ہونی چاہیے تھی لیکن یہ اس سے تیس چالیس ہزار کم تھی لہٰذا اکاؤنٹنٹ جنرل نے اسے برابر کر دیا۔ ان کا کہنا تھا ایک آڈیٹر جنرل کیونکر تیس چالیس ہزار کی تنخواہ خود بڑھائے گا۔ خیر علوی صاحب کو تیار کیا گیا کہ وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے ایک ریفرنس بھیجیں جس میں اختر بلند رانا کو اپنے عہدے سے ہٹانے کی درخواست کی جائے کیونکہ وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر پائے۔ اس ریفرنس میں آڈیٹر جنرل پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی حیثیت کو چیلنج کرنے اور چیئرمین خورشید شاہ پر اٹھائے گئے سوالات کو بھی آئینی خلاف ورزی کے مترادف قرار دیا گیا تھا۔
قانون کے تحت آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہٹانے کا فیصلہ کر سکتی تھی‘ وہ بھی تبھی جب اس کے خلاف ریفرنس بھیجا جائے گا۔ آڈیٹر جنرل کو ہٹانے کا پراسیس بھی قانون اور آئین میں وہی ہے جو ایک سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا ہے۔ اختر بلند رانا کو تسلی تھی کہ یہ ریفرنس اٹھا کر پھینک دیا جائے گا لیکن درجنوں ریفرنسز میں سے صرف ان کا ریفرنس سماعت کے لیے فوراً منظور کر لیا گیا۔ چونکہ سب کچھ پہلے سے طے تھا اس لیے چند دن بعد اُنہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ان کا قصور اپنی تنخواہ میں چند ہزار روپے اضافہ نہیں بلکہ اسحاق ڈار کی طرف سے بجلی گھروں کو ایک ہی دن میں 480ارب روپے کی ادائیگی کرنے پر سوال اٹھانا اور خورشید شاہ کو اپنے دور کی کرپشن کی آڈٹ رپورٹس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں کی صدارت کرنے سے روکنا تھا۔ اختر بلند رانا ابھی اپنے عہدے سے ہٹائے جانے پر حیرانی کا شکار تھے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو جوش آگیا اور انہوں نے ایف آئی اے کے ذریعے اختر بلند رانا پر ایک مقدمہ درج کرا دیا جس پر وہ مزید مشکلات اور تکالیف کا شکار ہوگئے۔ یوں اختر بلند رانا کو ملک و قوم کے 480ارب روپے کے ضیاع پر سوال اٹھانے کی بھاری قیمت چکانا کرنا پڑی۔
دوسری طرف اسحاق ڈار نے بھی اب کی دفعہ پکا کام کرنے کی ٹھان لی تھی‘ انہوں نے چپکے سے قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کے وقت اس میں ایک شق یہ ڈلوا لی کہ اب جب بھی بجلی گھروں کو Capacity charges یا دیگر ادائیگیاں کرنا ہوں گی تو اس کیلئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے ان بلز کا آڈٹ کرانا ضروری نہیں ہوگا۔ اب وزارتِ خزانہ سٹیٹ بینک سے براہِ راست ادائیگی کرانے کے بعد صدرِ مملکت کو محض انفارم کر دے گی کہ اتنی ادائیگی کر دی گئی ہے۔ یوں اسحاق ڈار نے کھلی چھٹی لے لی کہ اب ان ادائیگیوں کا آڈٹ کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ قومی اسمبلی کے 342ایم این ایز میں سے شاید ہی کسی کو پتا چلا ہو کہ ڈار صاحب نے ایک باریک واردات ڈال کر ان سے ایک بڑا قانون تبدیل کرا لیا تھا۔ اگر پتا چل بھی جاتا تو ان کی کیا مجال تھی کہ وہ اس پر احتجاج کرتے یا اس نئے قانون کے خلاف بغاوت کرتے۔ ویسے بھی اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایم این ایز حضرات ان بلوں پر بس حکومت کی طرف سے Yesیا Noکا انتظار کرتے ہیں‘ بل نہیں پڑھتے۔
جب علوی صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں یہی بات کہی تو انہوں نے اپنے تئیں لاعلمی کا اظہار کیا بلکہ شاید افسوس کیا کہ انہوں نے وہ ریفرنس بھیجا تھا۔تاہم وہ اب بھی یہی سمجھے بیٹھے تھے کہ آڈیٹر جنرل نے اپنی تنخواہ تیس‘ چالیس ہزار روپے بڑھا کر بڑی خلاف ورزی کی تھی۔ میں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق اس کی تنخواہ گریڈ بائیس کے افسر کے برابر ہو گی۔ اگر انہیں کم تنخواہ مل رہی تھی اور اکائونٹنٹ جنرل نے وہ کمی پوری کر دی تو یہ کون سا بڑا سکینڈل تھا؟ پھر وہ کہنے لگے کہ وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اختیارات چیلنج کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ بتائیں جس پیپلز پارٹی دور کی آڈٹ رپورٹس کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی تھیں‘ اس پارٹی کا سابق وزیر اب اس کمیٹی کا چیئرمین تھا۔ اگر آڈیٹر جنرل نے اعتراض کیا تھا تو اس میں کیا غلط تھا؟
میں نے کہا رانا صاحب کا اصل جرم ڈار صاحب کے حکم پر ان پاور پلانٹس کو ایک ہی دن میں‘ بغیر جانچ پڑتال کی جانے والی 480ارب روپے کی ادائیگی پر اعتراض اوراس پر انکوائری اور آڈٹ رپورٹ تیار کرکے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے پیش کرنا تھا۔ اس بندے نے اسحاق ڈار کی بے ضابطگیاں پکڑ کر آپ کو بھیجیں‘ آپ نے ان بے ضابطگیوں پر کارروائی کے بجائے ریفرنس بنا کر اسے ہی فارغ کرا دیا۔ آپ پی ٹی آئی کے ایم این اے تھے۔ آپ کو تو اُسے پی پی پی اور نواز لیگ گٹھ جوڑ سے بچانا چاہیے تھا۔ آپ اُلٹا ان کے ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے لگے۔ انہوں نے آپ کو استعمال کرکے اپنی جان چھڑا لی۔
عارف علوی مجھے کہنے لگے کہ یہ بات مجھے آپ کو پہلے بتانی چاہیے تھی۔ میں نے مسکرا کر کہا سر جی جانے دیں۔ اتنا بھولا کوئی نہیں ہوتا۔ آپ کو بھی سب علم تھا۔ آپ سب لوگ ملے ہوئے تھے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved