تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     01-09-2023

زندہ بھاگ

ہم کسی نجومی کی پیش گوئی کی بات نہیں کررہے‘ بس حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں رائے کا اظہار کرنے کی جسارت کر رہے ہیں‘ اگر سنتے کانوں اور دیکھتی آنکھوں پر گراں نہ گزرے۔ خبریں پہلے بھی ایک عرصے سے اچھی نہیں آرہی تھیں مگر اب تو جی چاہتا ہے کہ جیسے ہی کوئی خبر آئے‘ اُسے نظر انداز کر دیا جائے۔ اب ابلاغ کے بے شمار ذرائع پیدا ہو چکے ہیں۔ بے شمار ٹی وی چینلز پر ہمہ وقت خبروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ اُنہیں بند رکھیں تو فون پر پیغامات کی گھنٹی کی خفیف سی آواز اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ اکثر اسے بھی خاموش کرکے رکھ دیتے ہیں لیکن کوئی بھی کہیں بھی ملے‘ملکی حالات‘ سیاسی بالکل نہیں‘ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ بجلی کے بلوں‘ پٹرول کی قیمت اور روپے کی گراوٹ کی باتیں چھیڑ دیتا ہے۔ ہم اکثر ایسی باتوں سے گریز کا پرانا اور آزمودہ نسخہ استعمال کرتے ہیں کہ ''اور سنائیں‘ بچے ٹھیک ٹھاک ہیں‘‘ مگر یک لفظی جواب کے بعد گرامو فون کے پرانے ریکارڈ کی طرح سوئی مہنگائی پر اٹک جاتی ہے۔ کل پرسوں گاڑی پارک کی تو سکیورٹی گارڈ دوڑتا ہوا آیا ''سر، آپ مہنگائی کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟ لوگ بھوکوں مررہے ہیں‘ سخت پریشان ہیں کہ بجلی کا بل کس طرح ادا کریں گے‘ میٹر کٹ جائے گا تو پھردوبارہ لگوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑیں گے‘‘۔ ہمارا جواب عموماً دو رُخی ہوتا ہے کہ ''سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں‘‘۔ بھلا ہماری طفل تسلیوں سے کون متاثر ہوگا؟ یقین مانیں‘ اس گارڈ نے ٹھنڈی آہ بھری تو میرے دل میں ٹیس‘ جو موجودہ حالات کے تناظر میں دل میں ہی اپنا ٹھکانہ رکھتی ہے‘ شدید کرب میں تبدیل ہو گئی۔ قدم وہیں ساکت ہو گئے‘ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا‘ ایسا محسوس ہوا کہ کہیں گر نہ جاؤں۔ عوام کی پریشانی پر چین سے رہنا کہاں ممکن ہے۔ کوئی زیادہ پریشان دکھائی دے تو ہم سوچتے ہیں کہ ظالموں کا انجام کبھی اچھا نہیں دیکھا۔ اندھیر نگری ظلم نہیں تو اورکیا ہے۔
جن حالات سے ہم آج گزر رہے ہیں‘ آخر کوئی تو ذمہ دار ہے۔ بجلی مہنگی ہے تو کس نے ایسے معاہدوں میں ملک کو جکڑا تھا؟ صنعتیں تباہ ہوئی ہیں تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ ہمارا ملک کرپشن کے عالمی انڈیکس میں اوپر کے نمبروں میں ہے‘ تو پھر آخر کوئی تو ہے جو ملکی دولت لوٹنے کے ساتھ عوام سے جائز کاموں کے لیے بھی رقم بٹورنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں گے تو جواب خود بخود مل جائے گا کہ لوگوں میں بے چینی کیوں ہے۔ کیا اشرافیہ کو ادراک ہے کہ معمولی تنخواہ دار غریب گھرانے کس کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں؟ حکمرانوں کی بات کرنا ہی وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے کہ یہ سب کچھ ان کی مفاد پرست سیاست اور وسیع پیمانوں پر بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ پرسوں صبح ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو تھا تو اینکر نے بات مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے شروع کی اور پوچھنے لگا کہ کیا عوام کو ریلیف ملے گا؟ یہ لفظ بھی ایسا قابو آیا ہے کہ ہر کوئی ہر جگہ فٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک شخص کو ایک کیس میں ریلیف تومل گیا‘ مگر وہ ابھی تک اندر ہے۔ ریلیف کہاں؟ گزارش کی کہ کبھی کسی ٹی وی چینل اور آپ نوجوان صحافیوں نے ان معاہدوں کی چھان بین کرنے کی کوشش کی ہے جو بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے تھے؟ کن شرائط پر وہ معاہدے ہوئے تھے؟ بار بار خرید کرنے کے معاہدوں میں تبدیلیاں کیوں ہوئیں؟ کس کی حکومت تھی جب یہ معاہدے کیے گئے تھے؟ پروڈیوسر کا جواب آیا کہ آئندہ وہ کوئی ایسا پروگرام ضرور کریں گے۔ ہم گڈ لک ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ اب اتنے طاقتور ہیں اور اقتدار میں اتنی باریاں لے چکے ہیں کہ سب کو اپنے ہی رنگ میں رنگ لیا ہے تو ان معاہدوں کی تحقیقات کون کرے گا۔ اور کوئی جرأت کر بھی لے اور کہیں ان خفیہ دستاویزات تک رسائی ہو بھی جائے تو چھاپے گا کون‘ اور کون نشر ہونے دے گا؟ ایک مثال تو آپ کے سامنے ہے کہ 190 ملین پاؤنڈ کی یہ رقم قومی خزانے میں آئی تھی یا نہیں‘ مجھے معلوم نہیں مگر اس بارے میں کبھی آپ نے کسی ٹاک شو میں بات سنی ہے یا کسی اینکر نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جو صاحب یہ رقم پاکستان سے منی لانڈرنگ کرکے برطانیہ لے گئے تھے‘ وہ کون ہیں اور کوئی کیس اُن کے خلاف بھی بنا ہے؟ وہ نام بھی ہم نہیں سننا چاہتے کہ کہیں ہم کسی قانون کی زد میں نہ آجائیں۔
یہ ایک مثال ہے۔ اس طرح ہزاروں ایسے لوگ ہیں جن کا تعلق سیاست‘ نوکر شاہی‘ نہ جانے کون کون سے محکموں اور طبقات سے ہے‘ جن کے بارے میں کچھ لکھنا‘ بات کرنا خطرے سے خالی نہیں رہا۔ اسی لیے تو وہ لوگ جو کبھی زندہ باد‘ زندہ باد کے نعرے لگایا کرتے تھے‘ اب دبی زبان سے زندہ بھاگ‘ زندہ بھاگ کہتے ہیں۔ ہم بھاگنے والوں میں تو نہیں مگر زندہ ضرور رہنا چاہتے ہیں۔ جب بات اتنی کھل جائے تو نام لینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ سب کردار آپ کے ذہن میں گھوم رہے ہوں گے۔ حالاتِ حاضرہ اور غیر حاضرہ کو دیکھ کر گھٹن کا احساس ہر پاکستانی شہری کو ہوتا ہے۔ کوئی راستہ ہمیں آگے دکھائی نہیں دیتا۔ ایسا لگتا ہے کہ کہیں گہری کھائی میں قافلہ گر چکا ہے۔ کوئی روشنی‘ ہمت اور باہر نکلنے کی تدبیر نظر نہیں آتی۔ مجھے یہ سوچ اور لکھ کر کوفت ہوتی ہے کہ کہیں مایوس تو نہیں ہو رہا۔ خدا نہ کرے مایوسی پھیلانے کا مرتکب ہوں‘ مگر ملکی حالات کی اصل صورت پیش کرنا بھی ضروری ہے۔ اب تو نصف بھرے ہوئے اور نصف خالی گلاس کی بات بھی نہیں رہی کہ ہم صرف خالی حصے کو دیکھ رہے ہیں۔ کچھ تو ہوتا دکھائی دے اور ہم واہ واہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ ہم کیسے 'سب اچھا ہے‘ کی نعرے بازی کریں۔ اگرچہ ایسے گماشتوں کی کوئی کمی بھی نہیں۔ جب عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کو پس پشت ڈال دیا جائے‘ جب الیکشن کمیشن آپ کو یہ کہے کہ آئین کی بات چھوڑیں‘ یہ تازہ قانون کچھ اور کہتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوائی ایک اقلیت کے گھروں پر دھاوا بول دیں‘ سب کچھ جلا کر راکھ کردیں‘ گرفتاری فقط ایک سو چالیس کے قریب ملزموں کی ہو اور ان فسادیوں کو بجائے فوری طور پر عدالتوں میں لا کر سزادلوانے کے‘ حکومت ''بین المذاہب ہم آہنگی‘‘ پر سرکاری مذاکرے کا بندوبست کررہی ہے۔ تاریخ میں نجانے کتنے ایسے مذاکرے ہو چکے ہیں۔ جو وسائل اس مذاکرے میں صرف ہوں گے‘ بہتر ہوگا وہ اس پسماندہ اقلیت کے بچوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دیے جائیں۔ کیسے یقین کریں جو اب آئے ہیں‘ یا لائے گئے ہیں‘ وہ کچھ کرپائیں گے۔ روپے کی شرحِ مبادلہ اور باہنر اور باصلاحیت افراد کے ترکِ وطن کی رفتار سے تو نگرانوں پر اعتماد دکھائی نہیں دیتا۔
ایک بات اور‘ تیرہ جماعتی اتحاد اور دو بڑے سیاسی گھرانوں کو مسلط کیے جانے کی وجہ سے زندہ بھاگ کی کھسر پھسر ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اس سال کے پہلے چھ ماہ میں لگ بھگ چھ لاکھ افراد ملک چھوڑ کر جا چکے۔ خو ف ہو‘ بے یقینی ہو‘ ان مشہور گھرانوں کا راج ہو تو پھر زندہ بھاگنا ہی بہتر ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved