ایک نوجوان رات کے تین بجے سڑک پر گھوم رہا تھا۔ پولیس والوں نے روک کر پوچھا اِس وقت سڑک پر کیا کر رہے ہو، گھر کیوں نہیں جاتے۔ وہ بولا گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے، ابھی میری شادی نہیں ہوئی۔ ایک اور نوجوان کو روک کر پولیس والوں نے پوچھا شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں۔ پولیس والوں نے کہا، ابھی ایک نوجوان ملا تھا جو کہتا تھا شادی نہیں ہوئی، گھر کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ تم کیوں گھر نہیں جاتے؟ وہ بولا اب گھر اور بیوی دونوں مل کر کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ شادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مُوتی چُور کا لڈو ہے۔ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ یہ عجیب تیر ہے کہ چلے تو زخمی کرے اور نہ چلے تو چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ شادی سے پہلے اور بعد کی بدحواسی کا فرق اِتنا باریک ہے کہ اِسے سمجھنے کے لیے روشن ضمیری اور دیدۂ بینا دونوں ہی درکار ہیں۔ فی زمانہ جس میں یہ دونوں اوصاف جمع ہوں اُسے نابغہ سمجھیے۔ اگر کوئی یہ سوچ کر شرمندہ ہے کہ باہر اچھی خاصی پُھوں پھاں کرنے کے بعد گھر میں بیگم کے سامنے گردن جُھکانی پڑتی ہے تو پورے اعتماد سے سیدھا کھڑا ہو اور اپنی ساری شرمندگی کو لات مار کر ایک طرف ہٹادے۔ اِس معاملے میں وہ بڑے بڑوں کی صف میں کھڑا ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرکے حلقۂ احباب میں اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے کہ وہ اہلیہ سے نہیں ڈرتا تو جان لیجیے کہ وہ سفید جُھوٹ بول رہا ہے۔ بقول عدمؔ کون ہے جس نے مَے نہیں چَکّھی؟ کون جُھوٹی قسم اُٹھاتا ہے؟ مَے کدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے۔ یہی ہر گھر کا سچ ہے اور یہی گھر گھر کی کہانی ہے۔ امریکا سے زیادہ طاقتور اِس وقت کون ہے؟ کوئی نہیں۔ اور امریکی صدر سے زیادہ طاقتور سربراہِ مملکت کون ہوسکتا ہے؟ کوئی نہیں۔ یکے بعد دیگرے جُھوٹ بول بول کر قوم کو بہلانے پُھسلانے والے امریکی صدر نے حال ہی میں ایک آفاقی سچ بول کر بہتوں کو مستقل شرمندگی سے بچالیا ہے۔ صدر بارک اوباما نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے بعد اپنے معاونین سے نجی گفتگو کے دوران اعتراف کیا کہ وہ اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں۔ دُنیا کے کمزور ترین فورم سے خطاب کے بعد مضبوط ترین سربراہِ مملکت کا یہ اعتراف بیویوں سے ڈرنے والے (یعنی تقریباً تمام ہی) مَردوں کے لیے خاصا حوصلہ افزا ہے۔ اللہ دُکھی شوہروں کی تالیفِ قلب کا اہتمام اِس طرح بھی کردیا کرتا ہے۔ صدر اوباما کی فرماں برداری کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ نجی گفتگو میں یہ بتایا کہ وہ تمباکو نوشی ترک کرچکے ہیں اور یہ کہ اِس کا ’’کریڈٹ‘‘ اُن کی اہلیہ یعنی خاتون اوّل مشل اوباما کو جاتا ہے۔ جس ادارے کی کوئی وقعت نہیں اُس سے رسمی اور پُھسپُھسے خطاب کے بعد نجی گفتگو میں خاصی کام کی باتیں نکل آتی ہیں۔ ایسے مواقع پر چند حوصلہ افزا اعترافات بھی دُنیا کے سامنے آجاتے ہیں۔ تمباکو نوشی کیا چیز ہے، بیویاں تو دُنیا چُھڑوا دیا کرتی ہیں۔ جو لوگ تمباکو نوشی چھوڑنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو پائے وہ اِس بات سے سبق سیکھیں کہ امریکی صدر نے بھی بیوی کے دباؤ سے یہ عادت ترک کردی۔ اور جو بیوی کے دباؤ پر تمباکو نوشی ترک کرنے کے بعد اپنے آپ سے شرمندہ ہیں وہ ہرگز دِل چھوٹا نہ کریں۔ (کبھی کبھار) عزت اور (بیشتر اوقات) ذِلّت اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر وسیلہ اُس نے بیویوں کو بنا رکھا ہے۔ مرزا تنقید بیگ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو بیویوں سے صرف ڈرتے نہیں بلکہ اِس ’’وصف‘‘ کو ہر معاملے میں کامیابی کا بہترین نُسخہ گردانتے ہیں۔ گھریلو محاذ پر پلک جھپکتے میں شکست تسلیم کرنے کو وہ سب سے بڑا ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ کامیاب گھریلو زندگی کے بارے میں بحث کے دوران مرزا نے ہمیں بیوی سے نہ ڈرنے کا حامی پاکر بارہا مطعون کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرزا کا استدلال یہ ہے کہ جس چیز سے بچنا ممکن ہی نہیں اُس سے بچنے کا ناٹک کیا ہی کیوں جائے۔ اِس معاملے میں وہ باقیؔ صدیقی مرحوم کے اِس شعر کو حرفِ آخر قرار دیتے ہیں۔ ؎ اپنی قسمت سے ہے مَفَر کِس کو؟ تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے۔ بیوی کی ناراضی کے خوف سے تمباکو نوشی ترک کرنے سے متعلق بارک اوباما کے اعتراف کا سُن کر مرزا بہت خوش ہوئے۔ خوشی یہ سوچ کر نہیں تھی کہ واحد سُپر پاور کے سربراہ کو اللہ یونہی ذلیل کیا کرتا ہے بلکہ اِس خیال سے تھی کہ جس طرح دُنیا کا کوئی بھی کمزور ملک امریکی خارجہ پالیسی کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں بالکل اُسی طرح خود امریکی صدر بھی بیوی کی دسترس سے دُور نہیں۔ ؎ ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے اُن کی زُلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ مرزا کا کہنا ہے کہ بیوی سے ڈرنے سے متعلق امریکی صدر کا اعتراف بہت سے شوہروں کے درجات بلند کرتا ہے۔ ایک طرف تو اُنہیں یہ سوچ کر رُوحانی تسکین ملتی ہے کہ بیوی سے تو طاقتور ترین ملک کا صدر بھی محفوظ نہیں۔ اور دوسری طرف کروڑوں شوہر ایک ہے ہَلّے میں ’’پریزیڈنشل کلب‘‘ کا حصہ بن گئے ہیں۔ صدر اوباما نے نجی گفتگو میں ایک حسین اعتراف کرکے کروڑوں دِلوں کی تالیف کی ہے۔ اور مرزا کے خیال میں اِس ’’نیکی‘‘ کا اجر اللہ کے ہاں مقرر ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے لیے سُتون کا درجہ رکھنے والی شخصیات کی بیویاں چاہیں تو جنت کماسکتی ہیں۔ جس طرح مشل اوباما نے اپنی ناراضی کا پاؤں شوہرِ نامدار کی گردن پر رکھ کر تمباکو نوشی ترک کرائی ہے بالکل اُسی طرح دیگر اعلیٰ امریکی عہدیداروں کی بیگمات بھی کچھ کریں۔ وہ اگر شوہروں کی چند بُری عادات چُھڑوائیں تو دُنیا کا بھلا ہوجائے۔ امریکی پالیسی میکرز کی بیویاں تھوڑا سا دباؤ ڈالیں تو وہ دوبارہ انسان بن سکتے ہیں۔ اور اگر وہ دوبارہ انسان بن گئے تو کروڑوں بلکہ اربوں انسانوں کا بھلا ہوگا کیونکہ امریکی پالیسیاں خون پینے کی عادت ترک کریں گی۔ امریکی قائدین دنیا بھر کے غریبوں کو سگریٹ کی طرح پُھونکنے کے شوقین رہے ہیں۔ اگر اُن کی بیویاں تھوڑی کوشش کریں تو اُن کی یہ منحوس اور امن شِکن عادت چُھڑا سکتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved