بدشگونی کے شرک ہونے کے بارے میں علامہ علی القاری لکھتے ہیں: ''اگر کسی نے یہ اعتقاد کیا کہ نفع پہنچانے یا ضرر کو دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز مستقل مؤثر ہے تو یہ شرکِ جلی ہے۔ آپ نے اس کو شرک اس لیے فرمایاکہ وہ یہ اعتقاد کرتے تھے: جس چیز سے انہوں نے بدفالی لی ہے، وہ مصیبت پہنچانے میں ذاتی طور پرمؤثر ہے اور مؤثر بالذات مانے بغیر ان اسباب کا لحاظ کرنا شرکِ خفی ہے، خصوصاً جبکہ اس کے ساتھ جہالت اورضُعفِ اعتقاد بھی ہو، تو اس کا شرکِ خفی ہونا اور بھی واضح ہے‘‘ (مرقاۃ، ج: 9، ص: 6)۔ مؤثر بالذات ہونے کا معنی یہ ہے: جب وہ چیز ظاہر ہو تو نفع یا نقصان لازم ہو، جبکہ عام طور پر عالَمِ اسباب میں اسباب مؤثر بالذات نہیں ہوتے، جیسے دعا اور دوا وغیرہ۔ جب اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ مؤثر ہو جاتے ہیں اور اگر اس کی مشیت نہ ہو تو مؤثر نہیں ہوتے۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''خلاصہ یہ ہے: تمام دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور کوئی دن (اپنی ذات میں) نامسعود اور نامبارک نہیں ہے، اسی طرح تمام انسان اور اشیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کوئی چیز اپنی ذات میں منحوس نہیں ہے۔ پس حادثات و آفات، بلائوں اور مصیبتوں کے نازل ہونے میں کسی چیز کا دخل نہیں ہے، ان تمام چیزوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہے، کسی دن یا کسی چیزکا کسی شر کے پیدا ہونے یا کسی آفت کے نازل ہونے میں کوئی دخل اور اثر نہیں ہے۔ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور بس! اسی لیے کسی بھی جائز اور صحیح کام کو کسی دن اور کسی چیز کی خصوصیت کی وجہ سے ترک کرنا جائز نہیں ہے اور کوئی دن اپنی ذات میں نحس نہیں ہے‘‘ (شرح مسلم، ج: 7، ص: 613)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''(کفار سے کہا جائے گا:) اور تم ان لوگوں کے گھروں میں رہتے تھے، جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور تم پر خوب واضح ہو چکا تھا کہ ہم نے ان (ظالموں) کے ساتھ کیسا معاملہ کیا تھا اور ہم نے تمہیں سمجھانے کے لیے کئی مثالیں بیان کردی تھیں‘‘ (ابراہیم: 45)، علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ اُن کے اس قول کو ردّ کرتے ہوئے فرماتا ہے: ''کیا تم نے اس سے پہلے یہ قسمیں نہیں کھائی تھیں کہ تم پر بالکل زوال نہیں آئے گا‘‘، یعنی کیا اس سے پہلے تم قیامت اور مر کر دوبارہ زندہ کیے جانے اور سزا کے دن کا انکار نہیں کرتے تھے، جبکہ تمہیں ہمارے رسولوں نے بتا دیا تھا کہ پچھلی امتوں میں سے جنہوں نے ہمارے پیغام کو جھٹلایا، ان پر کس قسم کا عذاب آیا تھا اور اس سے پہلے تم قومِ ثمود کے گھروں میں تباہی کے آثار دیکھ چکے ہو، تو تم نے ان کے آثار دیکھ کر عبرت کیوں نہ حاصل کی‘‘۔
علامہ ابن بطال لکھتے ہیں: ''پس (ماضی کی عذاب یافتہ قوموں کے آثار دیکھ کر عبرت نہ پکڑنے کے سبب) اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر غضب نازل فرمایا، کیونکہ عبرت پکڑنے کے بجائے انہوں نے ان کے گھروں کو ٹھکانا بنا لیا تھا۔ پس جس جگہ صحابۂ کرام طلوعِ آفتاب تک سوتے رہ گئے تھے (اور فجر کی نماز وقت پر نہ پڑھ سکے)، تو نبی کریمﷺ نے اس جگہ کو منحوس قرار دیا اور آپﷺ نے اس جگہ فجر کی قضا نماز نہیں پڑھائی، بلکہ آگے جاکر پڑھائی اور فرمایا: اس جگہ شیطان کا اثر ہے، سو جس جگہ کسی قوم پر عذاب نازل کر کے اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا ہو، وہاں نماز نہ پڑھنا بہتر ہے‘‘ (شرح ابن بطال، ج: 2، ص: 107)۔
علامہ ابن بطال نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے، وہ یہ ہے۔ ''حضرت ابو قتادہؓ روایت کرتے ہیں: ہم ایک رات نبیﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے، بعض لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کاش آپ ہمیں رات کے آخری حصے میں اس جگہ ٹھہرا لیں، آپﷺ نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ تم نماز کے وقت سوئے رہو گے۔ حضرت بلالؓ نے کہا: میں آپ سب کو بیدار کروں گا، پھر وہ سب لیٹ گئے۔ حضرت بلالؓ نے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگا لی، پھر ان پر نیند غالب آ گئی اور وہ سو گئے۔ پھر نبیﷺ بیدار ہوئے، اس وقت سورج کا ایک کنارہ طلوع ہو چکا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: بلال! تمہارا وہ قول کہاں گیا، انہوں نے عرض کی: مجھے ایسی گہری نیند اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ جب چاہتا ہے تمہاری روحوں کو قبض کر لیتا ہے اور جب چاہتا ہے تمہاری روحوں کو لوٹا دیتا ہے، بلال! کھڑے ہوکر لوگوں کے لیے اذان دو، پھر آپﷺ نے وضو کیا، پھر جب سورج بلند ہو گیا اور سفید ہو گیا تو آپﷺ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھائی‘‘ (بخاری: 595)۔ موطا امام مالک (حدیث: 36) میں اس قدر اضافہ ہے: ''آپﷺ نے صحابۂ کرام کو وہاں سے کُوچ کرنے کا مشورہ دیا، پھر آگے چل کر کسی مقام پر آپﷺ نے حکم دیا: سواریوں سے اتر کر وضو کرو، پھر آپﷺ نے ان سب کو نماز پڑھائی اور حضرت بلالؓ کے متعلق فرمایا: ''شیطان بلال کے پاس آیا، جبکہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، پھر اُنھوں نے ٹیک لگا لی اور شیطان انہیں مسلسل تھپکی دیتا رہا، جیسے بچے کو (سلانے کے لیے) تھپکی دی جاتی ہے حتیٰ کہ بلال کو نیند آ گئی‘‘۔
الغرض نبی کریمﷺ اس وادی میں نماز کے فوت ہونے کی وجہ سے اس سے آگے نکل گئے، اس کی وجہ آپﷺ نے خود بیان فرمائی کہ اس وادی میں شیطان ہے، نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپﷺ نے وہاں اسی طرح نماز نہیں پڑھی، جیساکہ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بابل کی سرزمین پر نماز پڑھنے سے منع کیا تھا۔ حدیث میں ہے: ''حضرت ابوصالح غِفاریؓ بیان کرتے ہیں: حضرت علیؓ سفر کرتے ہوئے بابل کے علاقے سے گزرے، ان کے پاس عصر کی اذان دینے کے لیے موذن آیا، حضرت علیؓ نے توقف کیا حتیٰ کہ اس جگہ سے نکل گئے، پھر انہوں نے مؤذن کو اقامت کہنے کا حکم دیا اور جب وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو فرمایا: مجھے میرے حبیبﷺ نے منع فرمایا ہے کہ میں قبرستان میں نماز پڑھوں اور مجھے آپ نے سرزمین بابل میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس جگہ پر لعنت کی گئی ہے‘‘ (ابودائود: 490)۔ ایک روایت میں ہے: ''(حضرت علیؓ نے فرمایا:) میں اس جگہ نماز نہیں پڑھ سکتا تھا جس کو تین بار زمین میں دھنسایا گیا ہو‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7556)۔
''رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان عذاب یافتہ لوگوں (قومِ ثمود) کے پاس سے صرف روتے ہوئے گزرنا، پس اگر تم روتے ہوئے نہ گزر سکو تو ان کے پاس داخل نہ ہونا، کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آ جائے جو ان پر آیا تھا‘‘ (بخاری: 433)، اس حدیث کی شرح میں علامہ عینی لکھتے ہیں: ''یہ قومِ ثمود کے گھر تھے، یہ لوگ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم تھے، اَلْحِجْر شام اور حجاز کے درمیان ایک شہر ہے‘‘۔
اس حدیث میں یہ دلیل ہے: ان لوگوں کے گھروں میں ان کے بعد کوئی نہیں رہتا تھا، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص وہاں ساری عمر روتا رہے اور رسول اللہﷺ نے بغیر روئے ان کے گھروں میں داخل ہونے سے منع فرما دیا، پس اس حدیث میں وہاں ٹھہرنے اور اس جگہ کو وطن بنانے سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث میں یہ دلیل ہے: ان عذاب یافتہ لوگوں کے شہر سے تیزی سے گزرنا چاہیے، جس طرح رسول اللہﷺ وادیٔ محسّر سے تیزی سے گزرے تھے، کیونکہ اس جگہ اصحابِ فیل کو ہلاک کیا گیا تھا۔ آپﷺ نے اس جگہ سے روتے ہوئے گزرنے کا حکم اس لیے دیا تھا تاکہ ان پر عذاب نازل ہونے کی وجہ پر غور و فکر کریں، اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے: ''جس جگہ زمین میں دھنسایا گیا ہو یا عذاب نازل کیا گیا ہو، وہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے‘‘ (عمدۃ القاری، ج: 4، ص: 282 تا 283)، ایک حدیث میں ہے: ''رسول اللہﷺ جب غزوۂ تبوک میں اَلْحِجْر وادی میں پہنچے تو آپﷺ نے صحابہ کو حکم دیا: نہ اس کے کنویں سے پانی پیو اور نہ اس سے (اپنے جانوروں کو) پانی پلائو، صحابہ نے عرض کی: ہم تو اس کے پانی سے آٹا گوند چکے ہیں اور (اپنی ضرورت کے لیے) پانی لے چکے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: اس آٹے کو پھینک دو اور پانی کو گرا دو‘‘ (بخاری: 3378)۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں: ''حافظ ابن عبدالبر نے کہا: ہمارے نزدیک اس باب میں مختار قول یہ ہے: اس وادی میں اور کسی بھی زمین کے حصے پر نماز پڑھنا جائز ہے، جب تک کہ وہاں پر کسی نجاست کا یقین نہ ہو اور جن احادیث میں یہ مذکور ہے کہ مقبرہ میں یا سرزمین بابل میں یا جس جگہ شیطان کا اثر ہو یا اونٹوں کے باڑے میں یا جو جگہ ملعون ہو، وہاں نماز نہ پڑھی جائے، وہ تمام احادیث اس حدیث سے منسوخ ہیں جس میں تصریح ہے کہ میرے لیے تمام روئے زمین کو مسجد بنا دیا گیا ہے۔ وہ حدیث ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں: ہر نبی کو ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے ہر سرخ اور سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے، میرے لیے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا ہے، مجھ سے پہلے وہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا، میرے لیے تمام روئے زمین کو پاک، پاک کرنے والی اورمسجد بنا دیا گیا ہے، لہٰذا جو شخص جہاں بھی نماز کا وقت پائے، وہیں نماز پڑھ لے، چھ ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کر دیا گیا ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے‘‘ (مسلم:521، نعمۃ الباری، ج: 2، ص: 430)۔
خلاصۂ کلام یہ کہ رسول اللہﷺ نے اَلْحِجْرکی بستی میں نہ ٹھہرنے، وہاں کے پانی سے فائدہ نہ اٹھانے اور وادیٔ مُحَسِّر سے تیزی سے گزرنے کاجو حکم فرمایا، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جو ان مقامات پر ٹھہرے گا، اس پر ان کی نحوست اثر انداز ہو گی اور اس کے آثار کسی ناخوشگوار صورت میں ظاہر ہوں گے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ایسے مقامات میں سیر وسیاحت کے لیے نہ جانا چاہیے، نہ وہاں ٹھہرنا چاہیے، بلکہ ان سے عبرت پکڑنی چاہیے اور ان قوموں کے انجام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کے اُن کرتوتوں سے باز رہنا چاہیے، جو اُن پر نزولِ عذاب کا سبب بنے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے: رسول اللہﷺ کو وحی کے ذریعے وہاں ٹھہرنے سے منع فرمایا گیا اور یہ انہی مقامات تک محدود رہے گاجن کی بابت آپﷺ نے بتایا، ان پر دوسرے مقامات کو قیاس نہیں کیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved