بلند پہاڑوں اور سربفلک چٹانوں پر پیڑ اور پودے نہیں اُگتے۔پیڑ پودے کیا سبزہ تک نمو نہیں پاتا۔ایسا لگتا ہے پتھر دلوں سے کوئی چیز نہیں پھوٹ سکتی۔پہلی بار جب یہ دیکھا تھا تو خیال آیا تھا کہ نمو کا یہ بنجر پن تو پہاڑوں اور چوٹیوں سے زیادہ نامور لوگوں میں ہے۔جتنا بڑا نام اتنا ہی بے فیض۔جتنا نمودار اتنا ہی بے نمو۔جتنا بلند اتنا برہنہ۔برف کی طرح کوئی چیز ان کے اوپر سے تو نازل ہوسکتی ہے‘اندر سے نہیں پھوٹ سکتی۔ ایسی بلندی اور ایسی پستی؟ زمین میں پیوست ہوتے ہوئے زمیں زاد سبزے سے ایسی لاتعلقی؟ لیکن یہی حقیقت تھی۔اتنی ہی سنگین حقیقت جتنے ان چٹانوں کے دل تھے۔کل ایک نامور مگر بنجر اور بے فیض آدمی کو دیکھا تو یاد آیا کہ یہ منظر سب سے پہلے چترال میں دیکھا تھا۔برف پوش پہاڑوں اور اونچی چوٹیوں کے درمیان فوکر جہاز دونوں انجنوں کازور لگا کر اُڑ رہا تھا۔دونوں طرف پھیلے ہوئے پروں کے اس پار شفاف چمکیلی برف مخروطی اور چوکور چوٹیوں سے پھسل کر ان کی ڈھلانوں اور قدرے ہموار قطعات پر ٹھہر گئی تھی۔جہاں دھوپ تھی وہاں برف آئینہ بنی ہوئی تھی۔ جہاں سایہ تھا وہاں سفید رنگ کجلایا ہوا تھا۔چترال کا یہ ہمارا پہلا سفر تھا۔صحت ہو‘فراغت ہو اور کسی خوبصورت جگہ کا پہلی بار سفر ہو تو ہر موڑ حسین اور ہر منظرخوابناک نظر آنے لگتا ہے۔پہلی بار کسی خوبصورت جگہ کو دیکھنے کے لطف کی ہم سری بعد کے بار بار سفر سے نہیں ہو سکتی۔ آگے کیا موڑ یا کیا منظر آنے والا ہے ؟ یہی تجسس سفر کا رس ہے۔ یہ رس نکل جائے تو مسافر چھلکے سے کھیلتے اور اونگھتے نظر آتے ہیں۔
بات اچھے دنوں کی ہے یعنی آج سے کم و بیش پچیس سال پہلے کی۔پی آئی اے نے فوکر طیارے متروک قرار نہیں دیے تھے۔مسافروں کی تعداد محدود تھی۔عزیر‘ حسن اور علی کی خواہش پر پائلٹ نے تینوں بچوں کو کاک پٹ میں آنے کی اجازت بھی دے دی۔جہاز اترنے لگا تو پانی کی سطح کے اتنے قریب آگیا جیسے دریائے چترال پر ہی لینڈ کرجائے گا۔پھر یکدم جہاز کے پروں تلے سے کہیں خشکی نمودار ہوئی۔کٹے پھٹے سبز قطعات پیچھے کی طرف بھاگنے لگے اور ان کے بیچ سے ایک سرمئی راستہ نمودار ہوا۔پہیّوں نے زمین کو چھوتے ہی چیخیں بلند کیں۔یہ چیخیں کراہوں میں تبدیل ہوئیں اور کراہیں جلد ہی ایک مکمل خاموشی میں ڈھل گئیں۔جہاز چترال کے چھوٹے سے خوب صورت ائیر پورٹ پر اتر گیا۔
پامیر ہوٹل‘چترال‘ کم ہجوم اور کم کاروباری ذہنیت کا ایک خاموش اور پرسکون خوبصورت ہوٹل تھا۔وسیع کھلے لان‘ایک بڑے چبوترے پر قدیم اور گھنے پیڑ کی پھیلی ہوئی چھاؤں‘ڈائننگ ہال میں مار خور کے بڑے سینگوں والے سر اور شکار کی آویزاں تصویریں۔پرانے لیکن صاف ستھرے اور پرسکون کمرے ۔کمروں کے پہلو میں گدلا‘ گہرا سرمئی دریائے چترال شور مچاتا بہہ رہا تھا۔کمروں اور دریا کے ملتے ہوئے پہلوؤں کے درمیان پتلی سی پٹّی پر سیب کے درختوں تلے کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔درختوں پر سیبوں کے گال سرخ ہونے لگے تھے۔یہ سیب پکنے کا موسم تھا اور فضا میں ان کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔اس خوشبو کی تاب نہ لاکر تینوں بچوں نے سب سے پہلے اس قدرتی تحفے کے ساتھ چھ چھ ہاتھ کئے اور شادکام ہوئے ۔ ذرا ادھر اُدھر کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ہم سابق حاکم ریاست مہتر چترال کے شاہی محل کے محلے میں ہیں۔شاہی مسجد بھی بالکل قریب اور 25289فٹ بلند ترچ میر کی بلند چوٹی کا نظارہ بھی بالکل سامنے۔ شفق کے پھول کھلے اور رات اترنے لگی تو دریا کا زور و شور اور بڑھتا محسوس ہوا۔کمرہ دریا سے گنتی کے چند گز کے فاصلے پر تھا۔بڑا سوال یہ تھا کہ اتنے شور میں نیند آئے گی کیسے ؟ابھی ذہن اس کا جواب ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ حُسنی کا جواب یاد آگیا۔
ہماری دوست اور نامور افسانہ نگار فرحت پروین کے بیٹے احسن جنہیں پیار سے حُسنی کہا جاتا ہے بذلہ سنج نوجوان ہیں۔فرحت پروین کا لاہور والا گھر لاہور‘راولپنڈی ریلوے لائن کے بالکل قریب ہے۔پہلی بار جب میں ان کے گھر گیا تو تھوڑی دیر بعد دھڑدھڑاتی ‘شور مچاتی اور اتھل پتھل کرتی ٹرین گزری اور گزرتی ہی چلی گئی ۔پانچ سات منٹ تک ہر چیز تہ و بالا رہی۔بالکل ظفر اقبال کے شعر کے مصرع اولیٰ کی طرح
ریل کے زور شور سے سارا مکاں لرز گیا
اوس الگ نہ ہوسکی کھلتے ہوئے گلاب سے
میں نے گھبرا کر حسنی سے پوچھا''یہاں دن میں کتنی بار ریل گزرتی ہے؟‘‘ اس نے کمال متانت سے کہا '' پہلے روز تو کوئی چھ سات دفعہ۔ دوسرے دن دو تین بار اور تیسرے دن سے کوئی ٹرین نہیں گزرتی۔ ـــ ‘ ‘ چنانچہ اسی قاعدے کے تحت کچھ ہی دیر میں دریا کو سکون آنے لگا اور رات ہمارے سونے تک دریا کے صرف خر اٹے باقی رہ گئے تھے ۔
صبح اٹھے تو کوہ ہندو کش کی بلند چوٹیوں کو دھوپ طلائی لباس پہنا چکی تھی۔ سرخ اور زرد چٹانوں پر کہیں دھوپ اور کہیں سائے کی چُھوٹ پڑ رہی تھی۔ زرخیز وادی میں سبز کا ہر رنگ بکھرا ہوا تھا۔ قدرت کا کیا کمال ہے کہ درختوں‘جھاڑیوں اور پودوں کے سبز رنگ بھی جدا جدا اور منفرد ہیں۔سبز کے اندر بھی کتنے ہرے رنگ ہوتے ہیں۔ سبز‘ ہرا‘ کاہی‘ زمردی‘ انگوری ‘ پستئی‘ دھانی‘ کشمشی ‘طا ؤسی‘ اگرئی ‘ صندلیں ‘ مونگیا ‘ الا ئچی اور زنگاری۔ سرسبز گھرانے کا کون سا فرد تھا جو اس وادی میں موجود نہیں تھا۔لیکن میں نے حیرت سے دیکھا کہ بلند پہاڑوں اور چٹانوں پر ایک ہری لکیر اور ایک خطِ سبز کے اوپر ہریالی کا کوئی نشان نہیں پایا جاتا۔ظاہر ہے یہ منظر محض چترال اور کوہ ہندوکش کے ساتھ مخصوص نہیں۔ہر بلند چوٹی کا ننگا پن اسی طرح ہے لیکن میں نے یہ منظر پہلی بار وہیں دیکھا تھا۔
سخت سرد موسم‘ برفباری ‘نمی کی کمی اور آکسیجن کی کم دستیابی سمیت کئی عوامل ہیں جن کے تحت ایک خاص بلندی کے اوپر درخت‘ پودے اور سبزہ زندہ نہیں رہ پاتے۔اس ہری لکیر کو خطِ سیراب کہہ لیں تو پاکستان میں عموماً یہ خط ِ سیراب دس تا بارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔مختلف علاقوں میں یہ بلندی مختلف ہے۔درختوں کی سخت جان قسمیں اس بلندی پر مار کھا کر بھی زندہ رہ جاتی ہیں۔اس کے اوپر نمو کے سرچشمے خشک ہوتے ہیں۔اور جب کونپلیں پھوٹنی ختم ہوجائیں تو ایک ہولناک بنجر پن پھُوٹ پڑتا ہے۔اب بتائیے ؟کیا آپ کو کچھ بڑے قلم کار‘ کچھ بڑے رہنما یاد آئے ؟مجھے تو وہ نظم یاد آرہی ہے جو سیب کی چھاؤں اوردریا کے پہلو میں سبزے پر بیٹھے ایک مہیب سربفلک چٹان کو دیکھتے ہوئے میں نے اس قیام کے دوران لکھی تھی ''منظر دل کے اندر کے‘‘۔
ہریالی کے اتنے رنگ ہیں جتنے رنگ سمندر کے/روز گجر دم اس وادی میں باغیچوں کا اک غالیچہ کھِلتا ہے/کاہی سے انگوری تک کے تیز اور ہلکے رنگ لغت میں اس وادی سے پہنچے ہیں/لیکن پھر بھی/سرخ اور زرد پہاڑوں کی پُر ہیبت عظمت سبزے کی آرائش سے انکاری ہے/اس کہسار کی ہر اک چوٹی ہریالی سے عاری ہے/یوں لگتا ہے ایک خطِ سیراب سے اوپر/برگ و بار کی ہر اک خواہش پتھر ہوتی جاتی ہے/دیکھو !/اپنے دل میں دیکھو!/ ہریالی اک حد سے آگے بنجر ہوتی جاتی ہے
ان بے نمو اور بے فیض پہاڑوں کو دیکھ لیں یا نامور ترین ناموں کو۔منظر ایک جیسا ہے۔بنجر پن۔ہولناک بنجر پن۔زمین سے اتنا بلند ہوجانا کہ اپنا اور دوسروں کا سانس لینا حرام ہونے لگے کس کام کا ؟تو پھر ایسی بلندی سے خاک نشینی بہتر نہیں ہے ؟ برگ و بار سے تعلق تو جڑا رہتا ہے۔دل مٹا ہی رہے اور مٹّی ہی رہے تو نمو کی صورتیں تو میسر رہتی ہیں۔ ایک بار بلندی مل جائے لیکن اس کی قیمت دل کا پتھرا جانا ہو تو نتیجہ یہی ہے۔ جتنابڑا نام اتنا ہی بے فیض۔جتنا نمودار اتنا ہی بے نمو۔جتنا بلند اتنا برہنہ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved