تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     04-09-2023

خطرناک موڑ پر

ہماری سیاسی تاریخ میں کئی خطرناک موڑ آئے‘ اور بدقسمتی سے جس طرح ہمارے لوگ سڑکوں پر روزانہ حادثات کا شکار ہوتے ہیں‘ اسی طرح قوم بھی کئی المیوں کا تواتر سے شکار ہوتی رہی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہماری قومی گاڑی پُر خطر موڑسے گزر کر کھلے میدان کی سڑک پر نہیں آسکی۔ یہ موڑ بھی ہم نے ہی بنائے ہیں کہ ہمارے سیاسی خاندانوں اور دوسروں کا اِسی میں فائدہ تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے اندازے غلط تھے‘ تاریخ کی کج فہمی تھی یا تدبر اور علم وحکمت کی کمی کہ توشہ خانے سے کوڑیوں کے بھائو حاصل کردہ قیمتی گاڑیاں تو موٹر وے پر فراٹے بھرتی ہیں لیکن قومی گاڑی شکستہ راہوں پر ہچکولے کھا رہی ہے۔ اس صفحہ پر ہم منڈلاتے خطرات کا کئی برسوں سے تذکرہ کرتے آئے ہیں مگر اب اس وقت جو ہوتا نظر آرہا ہے اس کا تصور کرکے دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ جو تماشا سولہ ماہ کی حکومت نے رچایا اُس کے نتائج آج سامنے ہیں۔ ابھی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ہم تو بالکل کسی کونے میں بیٹھے اپنی چھوٹی سی دنیا میں گم ہیں مگر آپ اپنے ارد گرد سڑکوں پر‘ چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج دیکھ رہے ہیں۔ کہیں ہڑتال ہورہی ہے تو کہیں بجلی کے بل جلائے جارہے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے بھی کیا خوب کہی کہ بجلی کے بلوں کا مسئلہ کوئی ایسا مسئلۂ ہی نہیں۔مگر ہمارے لوگ اب ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ ان کے یقین کی دنیا خطرناک موڑوں اور پے در پے حادثات نے اجاڑ کر رکھ دی ہے۔ کسی بھی بڑی کرسی والے کی باتیں اُنہیں زہر لگتی ہیں۔ معاملہ بہت گہراور سنجیدہ ہے۔ اداروں کو تباہ کیا جارہا ہے۔ قانون کو بگاڑ کر اور سینکڑوں ارب کی کرپشن کے کیسز ختم کرکے تیرہ جماعتیں تو اب ٹھنڈے ملکوں میں چین کی بانسری بجا رہی ہوں گی مگر حکمران طبقات کے خلاف جو عوامی جذبات کا سیلاب بپھر ا ہوا ہے وہ کبھی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ صرف ایک ہی طریقہ ہے‘کسی کا دستِ شفقت میسر رہے اور جو جاتے جاتے میاں شہباز شریف کہہ گئے کہ وہ تیس سال سے آنکھ کا تارہ رہے ہیں۔مگر وہ زمانہ اب گزر گیا جب لوگ کسی کو نجات دہندہ سمجھ کر قبول کرلیا کرتے تھے اوران پہ اندھا اعتماد کرتے تھے۔ یہ اعتماد اگر ختم نہیں توبہت کمزور ضرور ہوچکا ہے۔ عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ مہنگائی ہو‘ کرپشن ہو اور مفادات کا جھکائو صرف طاقتور لوگوں کی طرف ہواور عام لوگ دووقت کی روٹی‘ بچوں کی تعلیم اور معمولی بیماریوں کا علاج تک نہ کراسکیں تو ان سے محبت اور تابعداری کی امید نہ رکھیں۔ دولت کے ارتکاز اور غربت کا معاملہ تقریباً ہر ملک میں ایک مسئلہ رہا ہے مگر جو صورتحال پاکستان میں گزشتہ چالیس برس میں دیکھنے میں آئی‘ وہ معمول کی بات نہیں۔ آپ موازنہ کریں پچپن سال پہلے اور آج کے دولت مند طبقے میں۔ ڈاکٹر محبوب الحق اچھے اور انسان دوست ماہر اقتصادیات تھے اور ایوب خان کی حکومت میں وہ پلاننگ کمیشن میں چیف اکانومسٹ رہ چکے تھے۔ فارغ ہوئے تو کراچی میں ایک فورم پر 1968 ء میں تقریر کی کہ پاکستان کی دو تہائی صنعتیں‘ اسی فیصد بینکنگ اور اناسی فیصد تجارت بائیس خاندانوں کے کنٹرول میں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی گیارہ سال اُس نظام کا حصہ رہ کر باہر ہوچکے تھے۔ ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ بے حد ترقی کے بعد اور ایک زرعی ملک میں بڑ ی مشکل سے صنعتی شعبہ کے جنم لینے کے بعد یہ بات کرنا محبوب الحق صاحب کیلئے مناسب تھا یا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کی نیت درست تھی اور عدم مساوات اور ترقی کے فوائد کے ایک طرف جھکائو کی طرف اشارہ تھا۔ لیکن بھٹو صاحب اور ان کے ساتھ لاہور اور کراچی کے پرانے اشتراکی دانشوروں نے‘ جن کی ہمارے دل میں اب تک قدر اور احترام ہے‘ مساوات کا نعرہ بلند کیا اور صنعتی گھرانوں پر چڑھائی کر دی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کہتی تھی کہ مغربی پاکستان کھا گیا ہے۔ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کہتی تھی کہ بائیس خاندان کھا گئے ہیں۔ جب اقتدار میں آئے تو ان خاندانوں کوتہس نہس کرکے رکھ دیا گیا۔ بینک اور صنعتیں برباد ہوگئیں۔ ہم ابھی تک اس کے اثرات سے نہیں نکل پائے۔
ماضی میں ذرا جھانکنے سے واضح کرنا مقصود تھا کہ آج عوامی ردعمل کا رُخ صنعتی گھرانوں‘ یعنی حکمرانوں کی طرف ہے جن میں سیاستدان‘ نوکر شاہی‘ جاگیردار‘ وڈیرے‘ قبائلی سردار اورسینکڑوں سوسائٹیوں کے مالک ہیں۔ دائرہ حکمرانوں کا بہت وسیع ہوچکا ہے‘ اور اب سب کا کیا نام لیناکہ قلم خود بخود رُک کر بدکے ہوئے گھوڑے کی طرف چلنے سے انکار کردیتا ہے۔ روایتی سیاسی گھرانوں کی عوامی سیاست کی سکت ختم ہوچکی ہے۔ وہ صرف مصنوعی سہاروں کا کندھا استعمال کرتے ہوئے آگے آنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن عوامی جذبات کی حدت ان کا راستہ روکے ہوئے ہے۔ اب وہ ازکارِرفتہ مال کی طرح متروک ہوچکے ہیں۔ لوگوں کا ان پر سے اعتماد اُٹھ چکا۔ اگر آپ اُن کی سیاست دیکھتے ہیں تو یہ حکمران طبقے کا گٹھ جوڑ ہے۔ سندھ میں تو سب وڈیروں‘ قبائلی سرداروں اور گدی نشینوں اور جاگیرداروں کی ایک پارٹی ہے۔ پنجاب‘ بلوچستان اور پختونخوا کئی دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اس طبقے کی سماجی طاقت کی بنیاد اب تک قائم ہے مگر غلبہ حکومتی طاقت کے سہارے ہے۔ عوامی سیاست کے کوئی بھی قابل نہیں اور نہ ہی اپنی حدود سے نکل کر کچھ کر سکتے ہیں۔ سب نے چالیس برسوں میں ہاتھ خوب رنگے ہیں۔حلقوں میں جا کر لوگوں سے پوچھیں تو معلوم ہوگا‘ مجبوریوں کے علاوہ کوئی رشتہ نہیں۔ ایک نیا رہنما میدان میں اترا‘ جدوجہد کی‘ تحریک چلائی‘ لیکن اس کی حکومت میں کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں اور وہ جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے وہ‘ اب میں نام بھول گیا ہوں۔ اس سب کے با وجود عوام کا اعتماد غیر متزلزل لگتا ہے۔ ویسے بھی ہر آدمی اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے فطری طور پر آزاد ہے۔ وہ اعتماد بزور ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ لیکن ہمدردیوں اور محبتوں کا بہاؤ اسی قیدی کی جانب ہے۔ ریاست کے اداروں پر اعتماد تو واپڈا کے سرکلر سے نظر آتا ہے کہ سرکاری گاڑی کو بند رکھیں یا نمبر پلیٹ اتار کر باہر جائیں۔
اعتماد کا رشتہ حکمرانوں سے ٹوٹ جائے تو یہ نظام اور معاشرے کے توازن کے لیے دشمن کی مسلط کردہ جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ بڑھتے ہوا احتجاج کسی تحریک کا حصہ نہیں‘ اس لئے فساد میں تبدیل ہونے کا خدشہ ہے۔ اندر کی بات یہ ہے کہ ہر طبقے کے عوام کی نظر میں حکمران گھرانے‘ روایتی سیاستدان اپنے ہزاروں غلام گردشوں کیساتھ گھر چکے ہیں۔ جمہوریت ہو یا معاشرتی استحکام‘ حکمرانوں اور سیاسی نظام پر اعتماد کے بغیر نظام خلا میں کشتیاں چلا نے کے مترادف ہے۔ اعتماد کے پانی کے بغیرسیاسی کشتی خشکی پر کیسے تیرے گی؟ ہمارے حکمران اتنی بدعنوانیوں‘ دھاندلیوں‘ باہمی چپقلش‘ دشمنیوں اور نفرتوں سے اعتماد کی دولت تو ضائع کر بیٹھے ہیں‘ باقی‘ لوٹ مار کی قومی دولت کے پہاڑ جہاں بھی لے جائیں‘ جہاں بھی رکھیں‘ تاریخ کے کٹہرے میں وہی قرار پائیں گے جن کے بارے میں انہیں بھی کوئی شک نہیں‘مگر غریبوں کا مال و دولت بہت پیارا ہے۔خود ہی سوچیں‘ اگر حکمرانوں پر اعتماد ختم ہو جائے تو باقی نگران ہی رہ جاتے ہیں۔ کب تک چلیں گے اور کب تک چلائے جائیں گے‘ہمیں معلوم نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved