ایک منحوس دائرہ ہے جس سے باہر نکلنا بظاہر ہمارے بس کی بات نہیں۔ اس منحوس دائرے میں گھومتے گھومتے سوچ اِتنی دب چکی ہے کہ کچھ بڑا سوچنے کی طرف اب دھیان ہی نہیں جاتا۔ یہ منحوس دائرہ ہے عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی کا۔ یہ غلامی اب ہمارے معاشی ڈھانچے میں اس قدر پیوست ہوچکی ہے کہ مستقبل قریب میں اس حوالے سے کسی حوصلہ افزا اور خوش کُن پیش رفت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ چار‘ پانچ عشروں کے دوران عالمی مالیاتی اداروں نے خاصے منظم انداز سے دنیا بھر کے پسماندہ ممالک اور خطوں کو ایسا جکڑ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے حالات بدلنے کی کسی بھی معقول کوشش میں کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ چند ایک ممالک نے اگر اپنے آپ کو استحکام کی منزل تک پہنچایا بھی تو عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی سے ہٹ کر زندہ رہنے کے کسی اور میکانزم کے ذریعے ہی ایسا کر پائے۔ بعض ممالک کی خوش نصیبی رہی کہ اُنہیں کوئی بڑی طاقت مل گئی اور ڈھنگ کی پارٹنر شپ نے معاملات کو خوش کُن شکل دے دی۔ ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ہوسکا۔ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ اب گلو خلاصی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ملنے والی امداد کو بندر بانٹ کا ذریعہ بنالیا۔ بھاری بھرکم قرضوں کے ذریعے معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر کچھ ہو نہیں پاتا کیونکہ قرضوں کا بڑا حصہ بڑوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ عالمی اداروں سے ملنے والی امداد اور قرضوں کے ثمرات نچلی سطح تک منتقل نہیں ہو پاتے۔ بیورو کریسی ان قرضوں اور امداد سے بہبودِ عامہ یقینی بنانے والے اقدامات کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے علاوہ ہم ایشیائی ترقیاتی بینک اور متعدد ممالک کے بینکوں سے براہِ راست بھی قرضے لیتے رہے ہیں۔ چین، سعودی عرب، ترکیہ اور یو اے ای کی حکومتیں بھی پاکستان کے لیے بیل آؤٹ پیکیجز قسم کے اقدامات کرتی آئی ہیں۔ سعودی عرب نے متعدد بار اُدھار یا بہت ہی معمولی نرخ پر خام تیل فراہم کرکے ہماری معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ چین چاہتا ہے کہ سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کو کسی حد تک مضبوط کرے تاکہ وہ مغربی دباؤ کے سامنے ٹِک سکے۔ ایسا کرنا چین کے لیے یوں بھی ضروری ہے کہ مغربی طاقتیں بھارت اور بنگلہ دیش کو تیزی سے مستحکم کر رہی ہیں تاکہ اِس خطے میں چین کے اثرات کا دائرہ محدود کیا جاسکے۔ ہم چینی بینکوں سے بھی قرضے لیتے رہے ہیں۔ اِن قرضوں کا حجم اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ نئے قرضوں کا معقول حصہ تو پُرانے قرضوں کے سود کی مد میں کھپ جاتا ہے۔ باقی رہ جانے والی رقوم کو بھی معقول طریقے سے بروئے کار لانا ممکن نہیں ہو پاتا کیونکہ اِس حوالے سے جامع منصوبہ سازی کا فقدان ہے اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایسا کرنے کے لیے درکار قابلِ رشک نوع کا عزم بھی نہیں پایا جاتا۔ بیرونی قرضوں کے ذریعے جو منصوبے شروع کیے جاتے ہیں اُن میں بھی کرپشن اِتنی زیادہ ہے کہ عوام تک کچھ زیادہ پہنچ ہی نہیں پاتا۔
عالمی مالیاتی اداروں میں ورلڈ بینک کسی حد تک معقول دکھائی دیتا ہے مگر اُس کی طرف سے آنے والی امداد خاصی محدود ہوتی ہے۔ یہ امداد مکمل مفت تو نہیں ہوتی۔ عام آدمی کے ذہن میں لفظ ''امداد‘‘ کو سُن کر یہ تصور ابھرتا ہے کہ شاید بہت کچھ بالکل مفت مل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے! انگریزی میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ اس دنیا میں فری لنچ جیسا کچھ بھی نہیں۔ ایک اور کہاوت یہ ہے کہ اگر کوئی چیز مفت مل رہی ہو تو سمجھ لیجیے پروڈکٹ آپ ہیں! ہم یہ کیسے فرض کرلیں کہ عالمی مالیاتی اداروں سے جو کچھ بھی ہمیں ملتا ہے وہ کسی جواز کے بغیر ہو، اُس کے کچھ نہ کچھ مضمرات نہ ہوں؟ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مضمرات محض معاشی نہیں، سیاسی و سفارتی اور سٹریٹیجک بھی ہیں۔ بہت سے معاملات میں تو ہمیں معاشرتی سطح پر بھی بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ملنے والے پیکیجز بہت سی شرائط کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان شرائط کا تعلق ہماری پالیسیوں سے ہوتا ہے یعنی ہم اپنی پالیسیوں میں بھی آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کی مرضی کے مطابق تبدیلیوں کے پابند ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بنیادی ضرورتوں کے معاملے میں بھی آئی ایم ایف کا عمل دخل خطرناک حد تک ہے‘ عوام بجلی جیسی بنیادی ضرورت کی چیز بھی آسانی سے حاصل نہیں کر پارہے کیونکہ آئی ایم ایف کی مرضی سے بجلی کے نرخ طے ہوتے ہیں اور بجلی کی بلنگ کے ذریعے حکومت چلانے اور قرضے چکانے کے لیے درکار مالیاتی وسائل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے‘ ظاہر ہے‘ عوام کی جیبیں خالی کرائی جاتی ہیں۔ ہم اب تک بجلی گھروں اور بجلی کے تقسیم کار اداروں کو رو رہے ہیں۔ بجلی کے تقسیم کار ادارے بھی ریاستی علمداری کے تحت آتے ہیں۔ ہم ٹیکسوں کی بھرمار کے حوالے سے الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کے خلاف کچھ بول کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ حکومت بجلی کے تقسیم کار اداروں کو محض آلۂ کار کے طور پر بروئے کار لاکر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ حکومت کو اپنی کارکردگی کا گراف بلند رکھنے کے لیے جن مالیاتی وسائل کی ضرورت پڑتی ہے وہ ٹیکسوں کی شکل میں بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام کی جیب سے بٹورے جارہے ہیں۔ آئی ایم ایف کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے کا نظام کارگر نہیں۔ جن کے پاس بہت مال ہے اُن سے وصولی ممکن نہیں بنائی جاسکتی کیونکہ وہ اشرافیہ کے ساتھ مل کر اپنے لیے کچھ نہ کچھ گنجائش پیدا کر لیتے ہیں۔ ایسے میں لے دے کر بس عوام رہ جاتے ہیں جنہیں خوب نچوڑا جاسکتا ہے اور نچوڑا جارہا ہے۔
عالمی مالیاتی اداروں سے بالعموم اور آئی ایم ایف سے بالخصوص کوئی بھی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ یہ ادارے ہمارے مفادات کو کبھی پہلے نمبر پر نہیں رکھ سکتے۔ ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ ان اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد ہی سود در سود کے کھیل سے اپنا پیسہ و منافع محفوظ رکھنا ہے۔ آئی ایم ایف کا عمل دخل پالیسی کے معاملات میں بھی ہے۔ حکومت کو انتہائی نامعقول اور تباہ کن شرائط کی زنجیروں میں جکڑ کر قرضے دیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جب بھی قرضہ لیا‘ انتہائی نوعیت کی شرائط کا سامنا کرنا پڑا۔ کوئی اگر یہ دعویٰ کرے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی مدد سے پاکستان کی معیشت کو سنبھالا جاسکتا ہے‘ پروان چڑھایا جاسکتا ہے تو مان لیجیے کہ وہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے یا انتہائی سادہ لوح ہے۔ آئی ایم ایف سے تعلقات کا ہمارا ٹریک ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ ادارہ محض اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوں کا بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں اُس کے پاس واپس چلا جاتا ہے اور ہمارے حصے میں صرف بوجھ اٹھانا رہ جاتا ہے۔ عام پاکستانی اس خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ بیرونی قرضوں کی مدد سے ملکی معیشت کو نہ صرف سنبھالا جاسکتا ہے بلکہ پروان بھی چڑھایا جاسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرضے محض اشرافیہ کو خوش رکھنے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ ریاستی مشینری، سیاستدان اور کاروباری طبقہ‘ تینوں مل کر بیرونی قرضے اور امداد ہڑپ کر جاتے ہیں۔ عوام کے سامنے چند دانے ڈال دیے جاتے ہیں کہ چُگ لیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے ہمارے لیے کبھی خوشحالی کا اہتمام نہیں کرسکتے کیونکہ اِن کا مینڈیٹ یہ ہے ہی نہیں ؎
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ؍ ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
ہم جس معاشی موڑ پر کھڑے ہیں وہاں سے بہتری کی طرف اُسی وقت بڑھ سکتے ہیں جب ہم یہ طے کریں کہ جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے بل پر کرنا ہے۔ اہلِ سیاست ریاستی مشینری کی تنخواہیں، مراعات اور پنشن بڑھا بڑھاکر اُسے خوش رکھتے ہیں تاکہ اُن کی اپنی گاڑی اچھی طرح چلتی رہے۔ اشرافیہ، ریاستی مشینری اور اہلِ سیاست کو عوام کی محنت کی کمائی کے بل پر پالنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved