میرا وہ دوست حالانکہ ایک نہایت ہی معقول آدمی ہے تاہم وہ عثمان بزدار کے ایک بھائی کا بھی دوست ہے۔ ظاہر ہے دنیا میں پرفیکٹ بندہ تو کوئی بھی نہیں ہے۔ بلکہ میرا تو اپنا یہی حال ہے کہ میں خود سابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کو اکثر و بیشتر یاد کرتا رہتا ہوں۔ ظاہر ہے وہ میری دو‘ دو مادرِ علمی میں میرا جونیئر رہا۔ حالانکہ وہ مجھ سے کئی سال جونیئر تھا مگر مشترکہ مادرِ علمی کا رشتہ ماہ و سال کا محتاج نہیں ہوتا۔ وہ ایمرسن کالج ملتان‘ جو اَب یونیورسٹی بن چکا ہے‘ کا طالبعلم بھی رہا اور بعد ازاں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں بھی زیر تعلیم رہا۔ ایمرسن کالج میں اس کا داخلہ کیسے ہوا‘ اس بارے میں کوئی ثقہ راوی میسر نہیں؛ تاہم زکریا یونیورسٹی میں اس کے داخلے کی واردات کے کئی عینی شاہد بلکہ شاملِ واردات افراد‘ اس داخلے کی کہانی اشاروں کنایوں میں سناتے ہیں لیکن عجب بات یہ ہے کہ جونہی میں ان سے پوری کہانی سنانے کی فرمائش کرتا ہوں تو وہ آگے سے ہنسنے لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سارے شہر کو یہ کہانی سنائیں گے مگر مجھے نہیں سنا سکتے۔ اس کہانی کے سارے کرداروں‘ واقعات کی تفصیل اور واردات کی جزئیات سے جو لوگ آگاہ ہیں ان میں برادرِ خورد ظفر آہیر سرفہرست ہے مگر وہ ایسا گھُنا ہے کہ جب بھی میں تفصیل پوچھوں جواباً میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہے گا کہ بھائی جان! کوئی اور حکم کریں پھر دیکھیں آپ کا چھوٹا بھائی آپ کے حکم کی کیسے تعمیل کرتا ہے لیکن اس بات کو رہنے دیں۔ آپ کسی دن سارا کچا چٹھا کالم میں لکھ دیں گے۔ سچ پوچھیں تو میں اصرار بھی نہیں کرتا۔ اگر زور دوں تو شاید وہ سارا قصہ سنا بھی دے مگر میں سوچتا ہوں کہ جب ایک دوست آپ کا احترام کرتا ہو تو اس احترام کا پردہ قائم رکھنا چاہیے۔
میرا جو دوست عثمان بزدار کے بھائی کا دوست ہے‘ کچھ روز قبل ملا تو باتوں ہی باتوں میں عثمان بزدار کا ذکر چل نکلا۔ میں نے کافی عرصہ سے سیاسی منظرنامے سے غائب عثمان بزدار کے بارے میں دریافت کیا تو وہ دوست بتانے لگا کہ اپنے بزدار صاحب کہیں چھپے ہوئے یا مفرور نہیں ہیں بلکہ وہ تونسہ والے بزدار ہاؤس میں مزے کر رہے ہیں اور بغیر کسی پریس کانفرنس کے حالتِ امن و چین میں ہیں اور ظاہر ہے انہیں یہ امن‘ سکون اور آرام ایسے ہی مفت میں تو نہیں ملا ہوا۔ بھلا اس دورِ افراتفری میں کون ہے جسے بلاوجہ امان مل گئی ہو؟ بھلا عثمان بزدار کے پاس کون سی ایسی گیڈر سنگھی تھی کہ اس پر یہ بے جا شفقت کی جاتی۔ اور وہ اتنا تگڑا اور ہمت والا کب سے ہو گیا کہ اینٹی کرپشن کی طرف سے سترہ بار بلائے جانے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہو‘ اینٹی کرپشن کے نوٹسز کو ایک بے کار کاغذ کے پرزے سے زیادہ اہمیت نہ دے اور نیب کی جانب سے آنے والے پروانوں کو پھاڑ کر ہوا میں اچھال دے۔ بارڈر ملٹری پولیس کے جمعدار کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ''پسینو پسین‘‘ ہو جانے والا عثمان بزدار بھلا اتنا جرأت مند کیسے ہو گیا کہ سرکار کی طرف سے طلبی کے حکم ناموں کو پرِکاہ کی حیثیت نہ دیے اور گھر میں مزے سے ڈٹا رہے۔ میری ساری بات سن کر میرا وہ دوست کہنے لگا کہ آپ کا کیا خیال ہے یہ سب کچھ عثمان بزدار اپنے زور پر یا اپنی بہادری اور جرأت کے طفیل کر رہا ہے ؟ اس کی گرفتاری کے لیے پنجاب پولیس کے تین کانسٹیبل یا بارڈر ملٹری پولیس کے دو اہلکار کافی تھے۔ وہ دراصل جن کی شہ پر کُود رہا ہے اس کا آپ کو درست اندازہ نہیں ہے۔ میں نے کہا: لیکن ہم تو اس کے سارے دورِ اقتدار میں سنتے آئے تھے کہ مقتدر حلقے اس کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تقرری کے پہلے دن سے خلاف تھے تو اب کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے سابقہ مؤقف کے برعکس اس غلط تقرری والی شخصیت کے پشتیبان بن گئے ہیں؟میرا وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا کہ پاکستان کی پاور پالیٹکس میں نہ کوئی دیرپا دوست ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر دوست اور دشمن کی تقسیم عمل میں آتی ہے۔ کل تک پرویزالٰہی مقتدرہ کا سب سے اہم مہرہ تھا آج آٹے کی بوری کی طرح گھسیٹا جا رہا ہے۔ جو سکہ جب چل جائے اسے چلا لیا جاتا ہے‘ مسئلہ کھوٹے کھرے کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کون توبہ تائب ہو گیا ہے اور کون حکم عدولی کر رہا ہے۔ کل کا دوست آج کا دشمن ہے اور آج کا دوست کل کا دشمن ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں ویسے ویسے معافیوں تلافیوں کے دروازے کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے کل تک بزدار کی مذمت کرنے والے اور ان کی وزارتِ اعلیٰ کے مخالف اب اس کے محافظ ہیں اور مستقبل میں اپنے مفادات کے لیے اسے استعمال کرنے کی امید میں اس کو اپنے حلقۂ حفاظت میں رکھے ہوئے ہیں۔
بیگم و احسن جمیل گجر ہوا کا رخ دیکھ کر قبل از وقت ہی اڑن چھو ہو گئے تھے جبکہ اپنا عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس مصیبت کے دن شروع ہوتے ہی زیرِ زمین چلا گیا تھا اور بارتھی سے براستہ موسیٰ خیل وہ کوئٹہ میں نمودار ہوا‘ ایک عدد مختصر سا پریس کانفرنس نما بیان جاری کیا اور اس کے بعد سے وہ سیاسی منظرنامے سے غائب بھی ہے اور امان میں بھی۔ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی جہان میں اہلِ ایمان کی مانند صورتِ خورشید ادھر ڈوبے ادھر نکلے نہ سہی مگر بہرحال اسی قسم کی صورت حال کا شکار ہیں اور ''ادھر نکلے ادھر پکڑے‘‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں جبکہ صوبہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ سرکاری نوکریوں کی بولی کے ذریعے تعیناتیوں کی رسم کو ایجاد کرنے والا عثمان بزدار مزے سے تونسہ ہاؤس میں حفاظتی حصار کے اندر بیٹھا ہوا سرکاری محکموں کی طلبی کے احکامات کو ہوا میں اڑا رہا ہے۔
آج کل جب اس قسم کی صورتحال کا ذکر محفلوں میں ہوتا ہے تو لوگ ایسی ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ قلم لکھنے سے معذور ہے اور اخبار چھاپنے سے عاجز ہیں۔ لیکن ایسی گفتگو نہ صرف یہ کہ سینہ بہ سینہ چلتی ہے اور دور تک جاتی ہے بلکہ اب تو سوشل میڈیا نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ نظام کو ٹھیک کرنے کے دعویدار جب ہفتۂ صفائی مناتے ہوئے اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق جھاڑو پھیریں گے‘ گناہگار اور بے گناہ کا معیار حساب کے بجائے پریس کانفرنس کی بنیاد پر کریں گے تو بھلا احتساب کا کوئی منطقی نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟ جس نے تابعداری کا اظہار کر دیا وہ بے گناہ ہے۔ جس نے پارٹی بدل لی وہ پاک صاف ہے۔ جس نے پریس کانفرنس کر دی اسے کلین چٹ مل گئی اور جو وعدہ معاف گواہ بن گیا وہ گویا دھل دھلا کر آ گیا۔ آخر یہ لانڈری کس اصول اور ضابطے کے مطابق لگی ہوئی ہے؟ اس لانڈری کے آپریٹرز کا خیال ہے کہ کسی کو نہیں پتا کہ اسے کون چلا رہا ہے لیکن یہ محض خام خیالی ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
اس ملک میں عشروں سے یہ نظام چل رہا ہے کہ کل کے چور آج کے منصف ہیں اور کل کے بے ایمان آج کے ایماندار ہیں۔ لانڈری سروس والے صرف دھلائی کا کام ہی نہیں کرتے بلکہ جب چاہیں اس کے الٹ والی سروس بھی فراہم کرتے ہیں۔ جب جی چاہے کسی کے گندے کپڑوں کو دھو دھلا کر نیل اور کلف لگا کر ستاروں جیسا چمکتا ہوا بنا دیں اور جب طبیعت میں انقباض پیدا ہو تو کسی کے کپڑوں پر کیچڑ مل کر اس کا ستیاناس کر دیں۔ اور پھر جب دل چاہے اپنے خاص الخاص ڈٹرجنٹ سے اپنا ہی ملا ہوا کیچڑ صاف کر کے پھر سے ایسا تیار کریں کہ بندہ کئی میل دور سے معزز اور شریف دکھائی دینے لگ جائے۔
اللہ جانے ہر چوتھے سال ہونے والی اس ڈرائی کلیننگ سروس کا اختتام کب ہو گا۔ جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا احتساب اور بہتری کا امکان صرف خوش فہمی کہلایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے ختم ہونے کا فی الحال کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved