نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ سے پاکستان کو سالانہ تین سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمد کی گئی بیشتر مصنوعات پاکستان میں ہی فروخت کی جا رہی ہیں۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ زمینی تجارت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ تاہم افغانستان کے ساتھ تجارت‘ سمگلنگ اور سکیورٹی خطرات میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ پاکستان نے فروری 2017ء میں افغان شہریوں کے پاکستان میں داخلے کے لیے ویزہ لازمی قرار دیا‘ جس پر افغانستان نے ردِعمل کا اظہار کیا کیونکہ افغان شہری برسوں سے آزادانہ آنے جانے کے عادی تھے‘ سو وہ اس روش کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ویزہ اجرا کے بعد بھی ایک عرصہ تک پاک افغان سرحد پر امیگریشن عملے کے ساتھ عدم تعاون کے مظاہر دیکھنے کو ملتے رہے۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کی بڑی تعداد یہاں پاکستان میں اپنے کاروبار جما چکی تھی حتیٰ کہ پاکستان میں رشتہ داریاں تک قائم ہو چکی تھیں جن کی اگلی نسل پاکستان میں پروان چڑھی‘ اس لیے وہ ذہنی طور پر ویزہ اور تجارتی پابندیوں کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ پانچ ملین سے زائد افغان شہریوں کا پاکستان سے افغانستان آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ لوگ بالعموم اپنے ساتھ تجارتی سامان بھی لے جاتے ہیں۔ انہی لوگوں کی بڑی تعداد دراصل تجارتی معاہدے کی پاسداری کا خیال نہیں رکھتی ہے اور غیر قانونی تجارت و سمگلنگ کا نہ بند ہونے والا راستہ کھل جاتا ہے۔ ٹیکس سے بچنے کے لیے تاجروں کی مخصوص تعداد بھی ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ تجارت کے اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے سکیورٹی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ پاک افغان سرحد پر سکیورٹی چیلنجز کی وجوہات کیا ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سمندر سے محروم افغانستان دنیا کے ساتھ تجارت کے لیے اپنے پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران کا مرہونِ منت ہے۔ یوں افغانستان کو دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں تک رسائل حاصل کر سکتا ہے۔ افغانستان کی خواہش پر 1965ء میں دونوں ممالک کے مابین 15شقوں پر مشتمل افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ہوا تھا۔ 1992ء میں اس معاہدے میں ترمیم سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات نے جنم لیا۔ 2010ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا نیا معاہدہ ہوا لیکن اختلافات کے نتیجے میں جو خلیج پیدا ہو چکی تھی وہ دور نہ ہو سکی اور پاک افغان تجارتی حجم بڑھنے کے بجائے کم ہونے لگا کیونکہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے افغان تجارت کا رُخ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی طرف مڑ گیا تھا۔ سمگلنگ اور غیرقانونی تجارت اب بھی پاک افغان سرحدی راستوں سے ہو رہی ہے۔ اس تجارت کا پیسہ چند مخصوص افراد کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جبکہ دونوں ممالک کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سمگلنگ میں ملوث عناصر ہی دراصل بدامنی پھیلاتے ہیں تاکہ سکیورٹی مسائل کی آڑ میں ان کا دھندہ چلتا رہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ پاک افغان سرحد کے تین پوائنٹس چمن میں بابِ دوستی‘ طورخم بارڈر اور وزیرستان میں غلام خان کراسنگ پوائنٹ پر ہی سکیورٹی مسائل کیوں ہوتے ہیں؟ مذکورہ تینوں مقامات پر امن کا قیام ایک چیلنج کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وزیرستان میں ایک ہفتہ کے دوران پاک فوج کو دو بڑی کارروائیوں میں جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ یکم ستمبر کو فوجی جوانوں اور شدت پسند عناصر کے درمیان فائرنگ کے تبادلہ میں میجر سمیت تین اہلکار شہید ہوئے۔ بنوں کے علاقے جانی خیل میں فوجی قافلے پر حملے میں 9جوان شہید ہوئے۔ وقوعہ کے بعد آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے علاقے کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے بزدلانہ ہتھکنڈوں سے فوج اور قوم دباؤ میں نہیں آئے گی۔ آرمی چیف نے کہا کہ دہشت گردوں کو غلط فہمی ہے کہ وہ جوانوں کے عزم اور ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے طویل جنگ لڑی ہے اور دہشت گردی کے اس ناسور کے خاتمے تک جنگ جاری رکھیں گے۔ پاک فوج اور پولیس پر دہشت گردوں کے پے در پے حملوں کے بعد آرمی چیف کا دو ٹوک پیغام ظاہر کرتا ہے کہ اب ریاستی ادارے شدت پسند عناصر کے خلاف کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہیں۔
پاکستان کی سول و عسکری قیادت شدت پسندی کی حالیہ لہر کی وجہ ناقص پالیسی کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو قرار دیتی ہے‘ جس کا اظہار نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ ''افغانستان میں حالات بہتر نہیں ہوئے بلکہ زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ نیٹو انخلا کے بعد رہ جانے والے جنگی آلات پاکستان کے لیے ہی نہیں‘ پورے خطے کے لیے مسئلہ ہیں۔ نیٹو کے چھوڑے گئے آلات سے ہم پر حملے شروع ہو چکے ہیں‘ خطے کے باقی ملکوں کو انتظار کرنا ہو گا کہ ان پر یہ وقت کب آتا ہے؟‘‘۔ نگران وزیراعظم نے دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے جس خدشے کا اظہار کیا ہے‘ اقوام متحدہ حتیٰ کہ امریکی ذمہ داران بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سات سے آٹھ ارب ڈالر کا نیٹو اسلحہ افغانستان میں رہ گیا تھا جس میں سے کچھ طالبان کے پاس ہے جبکہ کچھ دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ شدت پسند تنظیمیں اس اسلحہ کی بنیاد پر دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کرتی ہیں اور افغان ٹرانزٹ ٹرید کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی و معاشی اور سکیورٹی مسائل میں افغان پالیسی کا بڑا عمل دخل ہے جو ہر دور میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ ہم پچھلی تین دہائیوں سے مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں۔ کسی دوسرے ملک کو ایسے مشکل ترین حالات کا سامنا نہیں رہا۔ یوکرین روس کی جنگ محدود ہے لیکن پھر بھی پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ معاشی ماہرین یوکرین روس جنگ کو مہنگائی اور غذائی قلت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ یہ تو پاک فوج کی پیشہ ورانہ مہارت‘ صلاحیتیں اور حکمت عملی ہے کہ ہم نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کے باوجود استقامت سے کھڑے ہیں۔ملک کو اس نہج تک پہنچانے والوں میں چیئرمین پی ٹی آئی کا نام بھی آتا ہے۔ ان کی قانونی ٹیم کے رکن بیرسٹر گوہر علی نے اٹک جیل میں ملاقات کے بعد کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے گفتگو کے لیے تیار ہیں۔ اس موقع پر مرزا غالب یاد آ رہے ہیں کہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
کاش یہ خیال انہیں پہلے آیا ہوتا جب دوسری سیاسی جماعتیں مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کر رہی تھیں۔ ''دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق سیاسی جماعتوں کو اس پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ جو دانشور کہہ رہے ہیں کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘ اب کچھ نہیں ہونے والا‘ تو اس روش کو ترک کرنا ہو گا کیونکہ اب آثار واضح ہونے لگے ہیں کہ فروری 2024ء میں بہرصورت الیکشن ہو جائیں گے‘ اس سے زیادہ تاخیر ممکن نہیں ہے۔ اگر ان انتخابات میں پی ٹی آئی بطور جماعت حصہ نہ لے سکی تو اس سے سیاست میں اچھی روایت قائم نہیں ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved