تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-10-2013

بھوک لگے تو دیکھو چاند

ایک پریشان حال خاتون‘ ڈاکٹر کے پاس آئی اور کپکپاتی آواز میں بتایا ’’میری زندگی صرف 6مہینے رہ گئی ہے۔‘‘ ’’میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘ ’’آپ کوئی ایسا علاج کیجئے کہ میری زندگی میں کچھ اضافہ ہو جائے۔‘‘ ’’آپ پاکستان چلی جائیں۔‘‘ ’’کمال کرتے ہیں آپ؟ وہاں دن رات بم چلتے ہیں اور آپ مجھے وہاں جانے کا مشورہ دے رہے ہیں؟‘‘ ’’بالکل ٹھیک مشورہ دے رہا ہوں۔ اگر آپ بم کا نشانہ بن گئیں ‘ تو ایک لمحے کے اندر خدا کے پاس پہنچ جائیں گی اور اگر زندہ رہ گئیں‘ تو عمر اتنی لمبی ہو جائے گی کہ دن کاٹے نہیں کٹیں گے۔‘‘ ’’وہ کیسے؟‘‘ ’’وہاں مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ‘ ٹریفک جام‘ آلودگی‘ پیٹ میں درد پیدا کرنے والا پینے کا پانی‘ شور‘ ڈاکے‘ چوریاں‘ راہزنی‘ مہنگائی کے جھکڑ‘ یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ آپ کو زندگی کا ایک ایک پل‘ ایک ایک سال محسوس ہو گا۔ آپ زندگی کے باقی 6مہینے یوں لمحہ لمحہ گن کر گزاریں گی‘ جیسے پچاس سال گزارے ہوں۔‘‘ ہمارے وزیرخزانہ بہت خداترس انسان ہیں۔ وہ جب سے اپنے موجودہ منصب پر فائز ہوئے ہیں‘ انہوں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر‘ ہماری زندگی میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ ان کا پسندیدہ نسخہ پٹرول کی مصنوعات ہیں۔ وہ ہر مہینے پٹرول کے نرخ اور آپ کی عمر میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اب تک وہ ایک لٹر پٹرول کی قیمت میں 11 روپے سے زیادہ کا اضافہ کر چکے ہیں۔ ماہانہ اضافے کی یہی رفتار رہی‘ تو آنے والے 10مہینوں میں پٹرول کے نرخ ایک سو 163روپے فی لٹر ہو جائیں گے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جتنی زندگی دے رکھی ہے‘ آپ اسی زندگی کے اندر ایک صدی سے زیادہ طویل ہوتی زندگی سے اتنا اکتائیں گے کہ 10مہینے پورے ہونے تک خدا سے موت کی دعائیں مانگ رہے ہوں گے۔ اس مرتبہ تو ڈار صاحب نے زندگی کو مزید اذیت ناک بنانے کی غرض سے ٹائمنگ بھی غضب کی رکھی ہے۔ جس رات بھارت نے پٹرول کی قیمت میں 3 روپے 56 پیسے کمی کا فیصلہ کیا‘ اسی رات ڈار صاحب نے پاکستان میں پٹرول کی فی لٹر قیمت میں اسی تناسب سے اضافہ کر دیا۔ یعنی بھارت کے 3 روپے 56 پیسے ‘ پاکستان کے 5روپوں سے کچھ زیادہ ہو جاتے ہیں۔ گویابھارت کے شہریوں کے لئے پٹرول جتنا سستا کیا گیا‘ اسی رات ہمارے لئے اتنا ہی مہنگا کر دیا گیا۔ مہنگائی کی چوٹ کیا کم ہوتی ہے کہ ہمیں یہ چوٹ اس وقت ماری گئی‘ جب ہمارے دشمن ملک کے شہریوں کے لئے پٹرول سستا کیا گیا۔ اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار ڈار صاحب کو کیوں ٹھہراتا ہوں؟ بات یہ ہے کہ عوام کی جیب سے پیسہ نکالنے کا بنیادی فیصلہ وزارت خزانہ ہی کرتی ہے۔ باقی محکمے اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر وصولیاں کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا ‘ جب ڈار صاحب نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا تھا‘ تو میں نے بچوں کو انتباہ کر دیا تھا کہ وہ گلی‘ بازار یا کسی کھلی جگہ پر آئس کریم یا چاکلیٹ مت کھائیں۔ ڈار صاحب نے دیکھ لیا‘ تو قیمتیں بڑھا دیں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ چاکلیٹ اور آئس کریم کی قیمتیں بڑھی ہیں یا نہیں۔ اگر بڑھ گئی ہیں‘ تو بچوں سے ضرور بے احتیاطی ہو گئی ہو گی اور اگر نہیں بڑھیں‘ تو بچوں کو شاباش کہ وہ اپنی پسندیدہ چیزیں ڈار صاحب سے چھپ کر استعمال کرتے رہے۔میرا خیال ہے بھارتیوں نے اپنا تیل سستا کرتے وقت جان بوجھ کر‘ ہمارے اس تازہ تازہ زخم پر نمک چھڑکا ہے‘ جو مہنگائی کی دو دھاری تلوار سے ہمیں ایک ہی رات میں لگایا گیا۔ بھارت والوں نے کہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل سستا ہو گیا ہے‘ جس سے حکومت کو بچت ہو گی اور حکومت اس بچت کا فائدہ عوام کی طرف منتقل کر رہی ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے یقینا یہ بیان ہماری تکلیف میں اضافہ کرنے کی خاطر دیا ہے۔ اگر وہ خاموشی سے پٹرول کی قیمت کم کر دیتے‘ تو ہم اپنے ہاں قیمتوں کا اضافہ بے خبری کی حالت میں آرام سے برداشت کر لیتے۔ آرام نہیں تو بے چینی سے کر لیتے۔ لیکن بھارتی حکومت نے یہ کھلا اعلان کر کے کہ عالمی منڈی میں تیل سستا ہو گیا ہے اور ہم پٹرولیم کی قیمتیں کم کر رہے ہیں‘ ہمارے لئے تو ایک ایک پل ‘ ہفتوں‘ مہینوں‘ بلکہ برسوں کا ہو گیا ہے۔ دنیا میں تیل کے نرخ کم ہونے کی وجہ سے ‘پاکستان میںصرف پٹرول اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں ہی اضافہ نہیں ہوا ‘ ساتھ بجلی کی قیمتیںبھی بڑھا دی گئی ہیں‘ جس کا 80فیصد حصہ تیل سے پیدا کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں تیل سستا ہونے کی سزا‘ ہمیں یوں دی گئی کہ پٹرولیم کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ بجلی بھی مہنگی کر دی گئی۔ ایسے لگتا ہے کہ ڈار صاحب نے تو پاکستانی عوام کے لئے کچھ عجیب سے ارادے باندھ رکھے ہیں۔ وہ مہنگائی کاہر برقی جھٹکا لگاتے وقت ‘ ہمارا بلبلانا‘ فریاد کرنا اور تڑپنا دیکھ کر یقینا دل میں کہتے ہوں گے ’’ہور چوپو۔‘‘ دنیا کے کسی جمہوری ملک بلکہ آمریت میں بھی‘ عوام کو ووٹ دینے کا صلہ یوں نہیں ملتا ہوگا‘ جیسے ہمیں مل رہا ہے۔ بھاری مینڈیٹ ہم پر ہی بھاری پڑ گیا۔ میرا رونا یہ نہیں کہ بجلی اور تیل مہنگے ہو گئے ہیں۔ میرا رونا تو یہ ہے کہ جب یہ مہنگے ہوتے ہیں‘ تو ہر طرح کے کھیت میں مہنگائی کی بھرپور فصلیں اگنے لگتی ہیں۔جب تیل مہنگا ہوتا ہے‘ تو ٹرانسپورٹ مہنگی ہو جاتی ہے اور اس مہنگائی کا تعلق تیل اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ساتھ نہیں ہوتا۔ حکومت جب پٹرول کے ریٹ میں 5 روپے فی لٹر اضافہ کرتی ہے‘ تو صارفین کی جیب سے مختلف خدمات اور اشیاء فراہم کرنے والے مجموعی طور پر پچیس تیس روپے نکالتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ جب ٹرانسپورٹ کے نرخ مہنگے ہوتے ہیں‘ تو تمام اشیاء کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ دالیں‘ سبزیاں‘ آٹا‘ چائے‘ دودھ‘ مکھن‘ بچوں کا دودھ‘ بچوں کے کپڑے‘ جوتے ‘ غرض ضرورت کی ہر چیز کی قیمت میں جو اضافہ ہوتا ہے‘ وہ ہم الگ الگ ٹرانسپورٹ کی مد میں اضافی قیمت کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔ ایک لٹر پٹرول کے 5روپے‘ مختلف اشیاء کی ٹرانسپورٹیشن پر بار بار وصول کر کے‘ ہماری آمدنی کو دیمک لگا دی جاتی ہے اور گزشتہ 4مہینوں میں دیمک کا یہ انجکشن ہمیں 4مرتبہ لگایا جا چکا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی مہنگائی تو ’’مدرانجکشن‘‘ ہے۔ باقی بھی کوئی شعبہ اور کوئی شے ایسی نہیں رہ گئی‘ جو ہمیں اپنے اپنے حصے کا انجکشن نہ لگاتی ہو۔ روٹی ہماری بنیادی خوراک ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ تیل اور بجلی کا نرخ بڑھنے سے‘ آٹا ایک روپیہ فی کلو مہنگا ہو جائے گا اور جب ایک کلو آٹے کی پکی ہوئی روٹیاں آپ خریدیں گے‘ تو اس کی قیمت ایک یا دو روپے بڑھا دی گئی ہو گی۔ یعنی پٹرول کی تازہ مہنگائی سے پہلے اگر روٹی 5 روپے کی مل رہی تھی تو اب وہ کہیں پر 6 اور کہیں پر7 روپے کی ہو چکی ہو گی۔43 روپے فی کلو آٹا خرید کر‘ اس میں 10 روٹیاں نہ پکائی جائیں‘ توتندورچی کا گزار نہیں ہو سکتا۔ ڈار صاحب سے پہلے جو روٹی 4 روپے میں ملا کرتی تھی‘ اب وہ 6‘ 7 روپے کی ہو چکی ہے۔ ترقی کی رفتار یہی رہی‘ تو آنے والے 2مہینوں کے بعد روٹی 10‘ 12 روپے کی ہو جائے گی اور اگر ڈار صاحب نے اپنی مدت اقتدار پوری کر لی‘ تو غریب مائیں ‘ بھوکے بچوں کو پوری رات کا چاند دکھا کر بتایا کریں گی ’’بیٹے‘ وہ دیکھو اوپر! روٹی ایسی ہوتی تھی۔‘‘ وہ دن دور نہیں‘ جب ہم دہشت گردوں اور ڈار صاحب کا موازنہ کرتے ہوئے‘ اپنی اپنی رائے دیا کریں گے۔ کوئی کہے گا مجھے ڈار صاحب سے زیادہ ڈر لگتا ہے۔ کوئی کہے گا مجھے دہشت گردوں سے زیادہ خوف آتا ہے اور دہشت گردوں سے اکتائی ہوئی حکومت کی طرح ‘ڈار صاحب سے خوفزدہ لوگ بھی‘ ان سے مذاکرات کی درخواست کریں گے۔ کچھ پتہ نہیں دہشت گرد ‘ حکومت کو زیادہ مراعات دیتے ہیں یا ڈار صاحب‘ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو؟دسمبر کے لئے ڈار صاحب بڑے بڑے ٹیکے تیار کر رہے ہیں۔ جو شخص ‘ ڈار صاحب سے کسی بھلائی کی امید رکھتا ہے’ ’اسے کہنا دسمبر آ رہا ہے‘‘۔آپ نے نوٹ کیا ہو گا ‘ ڈار صاحب دھن کے اتنے پکے ہیں کہ وزیراعظم کوایک منٹ کے لئے لوگوں میں اکیلے نہیں جانے دیتے۔ نیویارک تک ان کے ساتھ گئے تاکہ وہ موقع پا کر کوئی چیز سستی کرنے کا اعلان نہ کر دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved