دنیا کا عجیب رنگ ڈھنگ اور چلن ہے۔ وہ زمانے ہوا ہوئے جب کسی خرابی کے بطن سے صرف مسائل پیدا ہوا کرتے تھے اور بحرانوں کے نتیجے میں سب کے لیے صرف الجھنیں جنم لیا کرتی تھیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ خرابی کسی کے لیے صرف خرابی ہوتی ہے اور کسی کے لیے نعمت کا سا درجہ رکھتی دکھائی دیتی ہے۔ عام آدمی حالات کی خرابی سے ڈرتا رہتا ہے‘ لوگ اندیشوں میں مبتلا رہتے ہیں کہ اگر کچھ ایسا ویسا ہوگیا تو کیا ہوگا، معاملات جانے کہاں جا اٹکیں گے۔ دوسری طرف چند طاقتور طبقے ہر معاملے کی خرابی سے اپنے لیے فوائد کشید کرلیتے ہیں۔ جنگ کہیں بھی ہو‘ ساری تباہی اور بربادی صرف غریبوں اور مجبوروں کے حصے میں آتی ہے۔ کسی بھی جنگ کے دامن میں محروموں کے لیے کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔ ہاں‘ کچھ طاقتور لوگ اپنے پنپنے کی گنجائش پیدا کرلیتے ہیں۔ آپ نے بھی یہ بات سنی ہوگی کہ جنگیں یونہی نہیں چِھڑ جایا کرتیں۔ تھوڑی سی توجہ سے اور معاملات کو آپس میں جوڑ کر دیکھنے سے کوئی بھی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں جو جنگ کی طرف لے جائیں اور یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ جنگیں منصوبہ سازی کے تحت اُسی وقت شروع ہوتی ہیں جب اُنہیں شروع کرنا مقصود ہو۔ فی زمانہ ہر معاملے کی پشت پر بہت سے معاملات کام کر رہے ہوتے ہیں۔ بڑی طاقتیں معاملات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال کر اپنے مفادات سے مطابقت رکھنے والے حالات پیدا کرتی ہیں۔ اس معاملے میں سارا زور صرف کمزوروں پر چلتا ہے۔ بڑی طاقتوں کی لڑائی میں ہمیشہ غریب ممالک اکھاڑا بنتے ہیں۔ ہر طاقتور ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ برابری کی بنیاد پر ہونے والی لڑائی کچھ نہیں دے گی بلکہ جو کچھ ہے اُسے بھی داؤ پر لگادے گی۔
یوکرین کی جنگ کا معاملہ بھی یہی رہا ہے۔ ڈیڑھ سال سے جاری اس جنگ کی آگ میں بہت کچھ بھسم ہوچکا ہے۔ البتہ جو کچھ بھی بھسم ہوا ہے وہ صرف غریبوں کا ہے۔ امیروں کے لیے یہ جنگ انتہائی مفید ثابت ہوئی ہے۔ کسی بھی جنگ کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی کے بطن سے فوائد بٹورنا صرف اُن کے بس کی بات ہے جو ریاست کے تمام سفارتی اور معاشی امور پر واضح اور مکمل تصرف رکھتے ہیں۔ روس میں بھی طاقتور ترین طبقہ اِس جنگ کے بطن سے ہویدا ہونے والی تباہی کی زمین پر اپنا تاج محل بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ جو پہلے ہی بہت مال دار تھے وہ مزید مال دار ہو گئے ہیں۔ انتہائی مال دار طبقے سے متعلق امور پر غیر معمولی وقعت کی حامل تحقیق کرنے اور ٹھوس رائے دینے والے ادارے 'فوربز‘ نے اپنے رشین ایڈیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ 2022ء میں روس کے ارب پتی مزید 152 ارب ڈالر کمانے میں کامیاب رہے۔ یہ سب کچھ یوکرین جنگ کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی اور یورپ و امریکہ کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ہوا ہے۔ ولادیمیر لاسِن اور دیگر روسی ارب پتی یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی موافق صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ قدرتی وسائل کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے نے دنیا بھر کے اُمرا کی طرح روس کے ارب پتی افراد کو بھی خاصی موافق پوزیشن میں پہنچایا اور اُنہوں نے اِس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ روسی معیشت جنگ کی تباہ کاریوں اور مغربی دنیا کی عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے باعث کم و بیش 2.1 فیصد کی حد تک سُکڑ گئی مگر روس کے ارب پتی اپنی دکان چمکانے میں کامیاب رہے۔ ایک طرف یہ شور برپا تھا کہ یوکرین جنگ کے باعث یورپ کے لیے توانائی کا بحران پیدا ہوگا اور کسی حد تک ہوا بھی مگر اقتصادی پابندیوں کے باوجود روس سے بھارت، چین، لاطینی امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کو تیل، گیس، دھاتوں اور کھاد کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان نے بھی روس سے تیل منگوایا۔ خام تیل کے نرخ بڑھنے سے روس کے تونگر مزید تونگر ہوگئے۔ یوکرین جنگ کے مضمرات و اثرات دیکھتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے روس کی معاشی نمو کے حوالے سے جو پیش گوئی کی تھی اُسے تبدیل کرکے قدرے مثبت کردیا ہے۔ پہلے کہا گیا تھا کہ روسی معاشی نمو 0.3 فیصد رہے گی مگر اب کہا جارہا ہے کہ یہ شرح 0.7 فیصد تک رہ سکتی ہے۔ دنیا بھر کے معاشی ماہرین نے جو کچھ کہا تھا وہ غلط ثابت ہوا ہے۔ یوکرین جنگ کے بطن سے اُن کے لیے صرف فوائد برآمد ہوئے ہیں جنہوں نے اِس حوالے سے پلاننگ بھی کی تھی اور فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوئے تھے۔ روس کو اس جنگ سے کیا ملا یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے مگر پورے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے محض جذباتی ہوکر یوکرین پر لشکر کشی کا حکم نہیں دیا ہوگا۔ اِس نوعیت کے فیصلے کبھی محض جذبات کی بنیاد پر نہیں کیے جاتے۔ جنگ پیغام دینے کے ساتھ ساتھ بہت سے معاشی اور سٹریٹجک فوائد بٹورنے کے لیے بھی ہوتی ہے۔ روسی قیادت کو جو کچھ حاصل کرنا تھا‘ وہ کر لیا ہے۔
معروف بزنس ویب سائٹ اور جریدے ''بزنس اِنسائیڈر‘‘ نے یوکرین جنگ کے مضمرات کے بارے میں جامع تحقیق کے بعد لکھا ہے کہ روس کے ارب پتی جنگ کی تباہ کاریوں کے باوجود 2022ء میں کم و بیش 152 ارب ڈالر بٹورنے میں کامیاب رہے۔ 2022ء تک روس میں 117 ارب پتی تھے۔ اب اُن میں 22 کا اضافہ ہوچکا ہے! چین اور امریکہ میں معاشی حالات پریشان کن ہیں۔ انتہائی مال دار طبقہ اِس اعتبار سے پریشان ہے کہ کساد بازاری کے باعث وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ محفوظ سرمایہ کاری کس طور ممکن بنائی جائے۔ دوسری طرف روسی ارب پتی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سرمایہ کہاں لگائے جانے پر محفوظ رہے گا۔ یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلے روسی ارب پتی مجموعی طور پر 580 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ یوکرین جنگ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی جنگ بلا جواز نہیں ہوتی۔ اُس کے چند ایک مقاصد ہوتے ہیں اور اُس کے بطن سے اکثریت کے لیے بھلے تباہی برآمد ہو‘ انتہائی طاقتور اقلیت بہر حال فائدے میں رہتی ہے اور فوائد بھی اپنی مرضی کے مطابق بٹورتی ہے۔ یوکرین کی جنگ کن مقاصد کے تحت شروع کی گئی اور اب تک روس کیا حاصل کرسکا ہے یہ بات کوئی بھی پورے تیقن سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایسے معاملات بالعموم پردۂ اِخفا میں رہتے ہیں۔ ہاں‘ اندازے ضرور لگائے جاسکتے ہیں۔ ولادیمیر پوتن اور اُن کی ٹیم نے یوکرین پر جنگ مسلّط کی ہے تو اِس کے حوالے سے پلاننگ بھی کی ہوگی اور مقاصد بھی طے کیے ہوں گے۔ ایسا کیے بغیر کبھی کوئی جنگ نہیں چھیڑی جاسکتی۔
دنیا بھر میں پسماندہ اور معمولی سی ترقی یا استحکام کے حامل ملکوں کی حکومتوں پر مختلف حوالوں سے غیر معمولی دباؤ ہے۔ ایک طرف معاشی الجھنیں ہیں اور دوسری طرف معاشرتی پیچیدگیاں۔ دونوں معاملات کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔ اس حوالے سے توازن بھی لازم ہے اور تحمل بھی۔ دنیا بھر میں پسماندہ ممالک کی حکومتیں غیر معمولی دباؤ کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ بڑی طاقتوں نے اُنہیں خانہ جنگی کے چنگل میں پھنسا رکھا ہے۔ جب خانہ جنگیوں سے مقاصد حاصل نہیں ہو پاتے تب معاملات کو جنگ کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ ایسا کرتے وقت اِس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جن مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی خاطر جنگ کروائی جارہی ہے وہ کسی صورت داؤ پر نہ لگیں۔ اِس معاملے میں بڑی طاقتیں اپنے تمام اختلافات بھلاکر ایک ہو جاتی ہیں تاکہ پسماندہ ممالک میں سے کوئی بھی ابھر کر اُن کے لیے خطرہ بننے کی کوشش نہ کرے۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے خانہ جنگیوں اور جنگوں سے اچھی حکمتِ عملی کوئی نہیں۔ اب تیسرے آپشن کے طور پر دہشت گردی کو بھی تسلسل و تواتر سے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ غریب ممالک کو مزید غربت سے دوچار کرنے کے لیے دہشت گردی سے اچھا کوئی نسخہ نہیں۔ اِس حربے کی مدد سے بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام کے دیگر ذرائع کی راہ مکمل طور پر مسدود کردی جاتی ہے۔ پسماندہ ممالک کو اِس منحوس دائرے سے نکلنے کے لیے انقلابی نوعیت کی جدوجہد کرنا پڑے گی۔ انقلابی سوچ اپنائے بغیر کوئی معاملہ بہتر نہ ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved