بروز پیر‘راولپنڈی کی ایک عدالت نے توہینِ رسالت اور اور توہینِ قرآن کے جرم میں چار افراد کو موت اور عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
مردم شماری کا ریکارڈ کہتا ہے کہ یہ چاروں مسلمان ہیں۔حیرت در حیرت یہ ہے کہ ان میں دو تو ایسے ہیں کہ 'محمد‘ جیسا پاکیزہ اور با برکت اسم‘ان کے ناموں کا حصہ ہے۔ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوگئے ہوں گے۔ والدین نے یہ نام رکھ دیا ہو گا۔مقدمہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک وٹس ایپ گروپ بنایا اور اس سے توہین آمیز مواد کی تشہیر کی۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم سرکل نے تحقیق کی اوران پر الزمات درست ثابت ہوئے۔دو حوالوں سے‘ یہ مقدمہ تشویش کا باعث ہے اورہماری توجہ چاہتا ہے۔
اس مقدمے میں جن کو سزا سنائی گئی‘اُن کا تعلق کسی غیر مسلم اقلیت سے نہیں ہے۔اس سے یہ موقف غلط ثابت ہوتا ہے کہ توہینِ مذہب کا قانون اصلاً غیر مسلموں کے خلاف ہے یا ان کو ہدف بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔اعدادو شمار یہ بتاتے ہیں کہ آج تک جن افراد پر یہ الزام لگا‘ان کی اکثریت مسلمان افراد پر مشتمل ہے۔ہمارے ہاں جب جڑانوالہ جیسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ غیر مسلم ان قوانین کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔غیر مسلموں پر جب بھی کوئی ظلم ہوا‘اس کے اسباب دوسرے تھے۔ ان اسباب پر میں نے بار ہا لکھاہے اور دوسرے بھی قلم اٹھاتے رہے ہیں۔ ان قوانین کو غیر مسلموں کے ساتھ خاص کرنا سوئے ظن ہے۔
دوسرا پہلو زیادہ اہم ہے جس کے بارے میں سب کو متنبہ ہونے کی ضرورت ہے۔یہ چند ماہ پہلے کی بات ہے‘ لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ پیش ہوا۔اس میں بتا یا گیا کہ سوشل میڈیا پربہت سا توہین آمیز مواد پڑاہے۔یہ مواد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ پھیلایا جاتا ہے اور اس کو براہ راست پورنو گرافی کے ساتھ منسلک کر دیا گیاہے۔ نوجوانوں کوعریاں فلموں کی لت لگائی جاتی ہے او پھر ان کے توسط سے انہیں توہینِ مذہب کی راہ پر ڈالا جا تا ہے۔اس کام میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق افراد ملوث ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کا تعلق دینی مدارس سے ہے۔
یہ سارا ریکارڈ جب عدالت کے سامنے رکھا گیا تومنصف بھی حیرت میں ڈوب گئے۔انہوں نے پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے ساتھ وزارتِ اطلاعات کو بھی شامل کیا کہ سب مل کر اس کے تدارک کا سامان کریں۔ وزارتِ تعلیم بھی اس مہم میں شریک ہو گئی کہ کیسے نوجوانوں کو خبردار کیا جائے تاکہ وہ اس گمراہی اور غلاظت سے محفوظ رہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس پستی کا شکار لوگوں کی اکثریت نوجوان پر مشتمل ہے۔ میں نے ابتدا میں جس مقدمے کا ذکر کیا ہے‘اس میں سزا یافتہ افراد کی عمریں ستائیس‘چو بیس اورتئیس سال ہیں۔
اس معاملے کی تحقیق کرنے والوں میں سے بعض کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک منظم سازش کے مظاہر ہیں۔اس کا مرکز پاکستان سے کہیں باہر ہو سکتا ہے۔یہ مہم اٹھانے والے چاہتے ہیں کہ مذہبی مقدسات کے بارے میں لوگوں کی حساسیت کو ختم کر دیا جائے۔یہ کام مغرب کی مسیحی آبادی میں کیاجا چکا۔ان کی مذہبی اور اخلاقی حساسیت کو فی الجملہ ختم کر دیا گیا ہے۔اب یہی کام مسلمانوں کے ساتھ بھی کیا جا رہا ہے۔ان کی جبلی ناآسودگیوں کو استعمال کرتے ہوئے‘انہیں مذہبی شخصیات‘کتب اور دوسرے شعائر کے بارے میں بے حس بنایا جا رہا ہے۔یہ دروازہ ایک بار کھل جا ئے تو انسان اپنے پروردگار کے بارے میں حساس رہتا ہے نہ رسول کے بارے میں اور نہ مذہب کے مقدسات کے بارے میں۔
ایک مذہبی معاشرے کی اخلاقیات مابعد الطبیعیاتی ہوتی ہیں۔دورِ جدید میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ اخلاقیات کے لیے غیر مذہبی یا طبیعیاتی اساسات تلاش کی جائیں۔یہ کوشش پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکی۔اخلاقیات کی اب تک ایک ہی طبیعی اساس دریافت کی جا سکی ہے۔اسے افادیت( Utility) کہتے ہیں۔ہر وہ اخلاقی قدر جس کے ساتھ کوئی مادی منفعت وابستہ نہیں ہے‘اس کی کوئی اخلاقی قدرو قیمت نہیں ہے۔سچ اس لیے ایک اخلاقی قدر ہے کہ اس کا بالعموم فائدہ ہوتا ہے۔روایتی معاشروں میں سچ اور جھوٹ کو سودو زیاں کے پیمانے سے نہیں ناپا جاتا۔وہ لازماً مذہبی ہیں یا انہوں نے یہ قدر مذہب سے لی ہے۔لبرل مغرب کے بارے میں اہلِ علم یہی کہتے ہیں کہ اس کی اخلاقی اساس لاطینی مسیحیت میں ہے۔
یہ بات طے ہے کہ جس دن اخلاقیات کو اس کی مابعد الطبیعیاتی اساسات سے الگ کر دیا گیا‘اس کا ایک ناگزیر نتیجہ یہ ہو گا کہ خاندان کا ادار ہ باقی نہیں رہے گا۔ خاندان کا ادارہ جبلی مطالبات کو ایک نظم کے تابع کرنے سے وجود میں آتا ہے۔ جس دن یہ بنیاد نہیں رہے گی‘ خاندان کا ادارہ باقی نہیں رہے گا۔اگر یہ ادارہ ختم ہو گیاتو انسان اور حیوان کا بنیادی فرق ختم ہو جا ئے گا۔
انسانی جمالیات بھی ما بعد الطبیعیاتی اساس رکھتی ہیں۔برہنگی کو‘مثال کے طور مصوری میں گوارا کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ بعض بڑے فنکارانہ مظاہر کی فنی قدر میں‘اس وجہ سے کوئی کمی نہیں آئی۔بعض کے نزدیک اضافہ ہوا ہے۔میرا کہنا یہ کہ پچھلے چھ سو سال میں برہنگی مصوری میں ایک خاص حد سے زیادہ قابلِ قبول نہیں ہو سکی۔جس دن ہوگئی‘اس دن یہ فن اپنی جمالیات کھو دے گا۔یہ معاملہ آرٹ اور ادب کے دوسرے مظاہر اور اصناف کا بھی ہے۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہماری سماجی بُنت مذہبی ہے۔ہماری اخلاقیات کی اساس‘مابعد الطبیعیاتی ہے۔جس دن ہم اس کے بارے میں بے حس ہوگئے‘ہمارا اخلاقی وجود تحلیل ہو جا ئے گا۔سوشل میڈیا کی یہ مہم اسی لیے بر پا کی گئی ہے کہ ہماری یہ حساسیت ختم ہو جائے۔علامہ اقبال کے الفاظ میں‘ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کوایک نصیحت کی۔ اس کے مطابق‘اہلِ اسلام کو مسخرکرنے کا طریقہ یہ ہے کہ روحِ محمدﷺ ان کے بدن سے نکال دی جائے۔سیدنا محمدﷺ دراصل اسی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کے لیے تشریف لائے تھے جوزندہ ہوتو انسان کو پاکیزہ بناتی‘اسے اپنے پروردگار کے ساتھ جوڑتی اور مرنے کے بعدایک خوش کن زندگی کی نوید سناتی ہے۔
سوشل میڈیا کی یہ مہم دراصل ابلیس کے فرزندوں کی اٹھائی ہوئی ہے۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو اس سے محفوظ بنانا ہے۔اس کے لیے ہمیں بہت سے سوالات پر غور کرنا ہے: ایک مدرسے کا فارغ التحصیل‘ کیوں اس مہم کا شکار بن گیا؟مذہبی مقدسات کے بارے میں حساس ہونے کا مطلب کیا ہے؟اس مہم کی کامیابی میں سماجی گھٹن کا کردار کتنا ہے؟ مذہب بیزاری پیدا ہونے کے محرکات کیا ہیں؟ابلیس کے فرزندوں کی مہم اپنی جگہ مگر ہم نے نئی نسل کے سامنے اسلام کی کیسی تصویر پیش کی ہے؟ہم نے اپنے بچوں کو مذہبی اقدار سے جوڑنے کے لیے کتنی کوشش کی ہے اور وہ کوشش کیا ہے؟
عدالت نے جن نوجوانوں کو سزا سنائی‘ان کی زندگی بر باد ہو گئی۔ میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں‘ان پر غور کیجیے۔سولات اور بھی ہیں: آپ کے گھر میں اگر کوئی بچہ یا نوجوان ہے تو وہ کیا سوچ رہا ہے؟آپ اس کے احوال اور مشاغل سے کتنا واقف ہیں؟آپ کو اس کے گریڈوں سے جتنی دلچسپی ہے‘کیا اس سے آدھی دلچسپی‘ آپ کو اس کی اخلاقی تعمیر سے بھی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved