تماشا جاری ہے بلکہ تماشا نہیں تماشے۔ ایک ساتھ کئی ٹولیاں کرتب دکھا رہی ہیں اور ہر کرتب ایسا ہے جو پہلے کبھی دکھایا نہیں گیا۔ اس لیے تماشائیوں کی توجہ کبھی ایک کی طرف ہوتی ہے لیکن اسی بیچ کوئی اور کھیل اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اور ابھی وہ مکمل نہیں ہوتا کہ نظر کسی اور طرف اُٹھ جاتی ہے۔ سب کرتب عجیب ہیں‘ سب نئے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ سب کے سب عبرت انگیز اور دل چیر دینے والے۔ عدالت گرفتار کی رہائی کا حکم دیتی ہے۔ کہتی ہے کہ کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ پولیس اور انتظامیہ کے عزائم بھانپتے ہوئے یہ حکم بھی دیتی ہے کہ پولیس اپنی نگرانی میں ملزم کو اس کے گھر تک پہنچائے۔ ملزم کے وکیل احتیاطاً گاڑی میں ساتھ بیٹھتے ہیں لیکن راستے ہی میں‘ گھر سے کچھ دور پولیس اُچک لیتی ہے۔ کس الزام میں؟ اسلام آباد میں نقضِ امن کے پیش نظر۔ کیسا نقضِ امن؟ کئی ماہ سے زیر حراست ملزم سے کون سا ایسا اقدام صادر ہوا؟ کوئی نہیں پوچھ سکتا اور ملزم اٹک جیل میں پہنچادیا جاتا ہے۔تماشا جاری ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کی فوری رہائی کا حکم دیا اور یہ کہا کہ انہیں فوری طور پر عدالت میں پیش کیا جائے۔6ستمبر کو انہیں اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں جوڈیشل کمیشن توڑ پھوڑ کیس میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے انہیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ابھی کہیں نہ جائیے اسلام آباد ہی رہیے۔ شیریں مزاری کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے مقدمے میں عدالت جواب نہ دینے پر آئی جی کو حکم دیتی ہے کہ وہ بطور جرمانہ 25 ہزار روپے شیریں مزاری کو ادا کریں جو آئی جی اسلام آباد ادا کر دیتے ہیں۔ یہی تماشا کراچی سے خیبر تک ہر روز بلاناغہ جاری ہے۔ عدالت ملزم کو رہا کرتی ہے‘ صوبائی یا وفاقی پولیس اگلے کیس میں دھر لیتی ہے۔ یہ سب ملزمان وہ ہیں جن کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت یعنی پی ٹی آئی سے ہے۔تماشا جاری ہے۔
آئین میں اسمبلیاں توڑے جانے کے بعد کب انتخابات ہونے ہیں؟ کیا حد لکھی گئی ہے؟ کون یہ تاریخ طے کرنے کا مجازہے؟ اور وہ تاریخ اب تک کیوں نہیں طے کی گئی؟ وزرا کس حیثیت میں اپنی مرضی کی تاریخ کا عندیہ دے رہے ہیں؟ ایک وزیر صاحب نظامِ انصاف پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہاں سے کیوں ملزم کو پولیس کی نگرانی میں گھر پہنچانے کا حکم دیا گیا‘ ان پر توہینِ عدالت کیوں لاگو نہیں ہوتی؟ کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ لاہور ہائی کورٹ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ‘ پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پیروی انتظامیہ نہیں تو کون کروائے گا؟ کوئی نہیں پوچھ سکتا‘ سب کے سب تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ وہ ہیں جنہوں نے قانون اور آئین کی پاسداری کا اور اس پر عمل درآمد کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ آپ اور میں قانون کی کوئی معمولی خلاف ورزی تو کرکے دیکھیں۔ یہ سب اپنے حلف کی پاسداری کے لیے آنکھوں میں خون لیے آپہنچیں گے۔تماشا جاری ہے۔
دن رات جمہوریت کے راگ الاپنے والے سیاستدانوں نے ہر سمت سے منہ پھیر کر آنکھیں بند کرلی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یک نکاتی ایجنڈا جو چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی جماعت کو اقتدار سے باہر کرنے کا تھا‘ پورا ہو چکا ہے اور اب انہیں نہ مہنگائی نظر آتی ہے‘ نہ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی‘ نہ ڈالر کی اونچی اڑان اور نہ وزارتوں پر نااہلوں کا قبضہ۔ ہر چیز ان کے حق میں جا رہی ہے اس لیے وہ ان معاملات پر نہیں بول سکتے۔ اب ان کا تعلق کسی چیز سے نہیں۔ سب کچھ کر لینے کے بعد اب وہ محض تماشائیوں میں سے ایک ہیں۔تماشا جاری ہے۔
پٹرول 306روپے‘ ڈالر انٹر بینک ریٹ 313روپے‘ بجلی 55 روپے فی یونٹ۔ آئی ایم ایف نے عوام کو ریلیف دینے کی حکومتی درخواست مسترد کردی ہے۔ بظاہر مقصد بھی یہی تھا کہ نگران حکومت یہ بتا سکے کہ ہم تو ریلیف فراہم کرنا چاہتے تھے لیکن آخری فیصلے والے نہیں مانے۔ حتمی نتیجہ یہ کہ خسارہ عوام کا اور صرف عوام کا۔ اچھے بھلے کھاتے پیتے صاحبِ حیثیت لوگ بجلی کے بل دیکھ کر تھرا گئے ہیں۔ اندازہ کریں کہ ایک کم آمدنی میں گزر کرنے والے پر کیا گزر رہی ہے۔ بے شک انسان خسارے میں ہے۔یہ جاری تماشے کا صرف ایک رُخ ہے۔ وہی بجلی جس کا صر ف پنکھے اور چند بلبوں کا بل دینا مشکل ہو رہا ہے‘ اسی بجلی کی نت نئی‘ اعلیٰ ترین مصنوعات کی تشہیر انہی ترستے ہوئے لوگوں کے سامنے کی جا رہی ہے۔ جہاں ایک عام‘ سادہ‘ سوتی‘ کم قیمت لباس خریدنا مشکل ہے‘ وہاں نت نئے برانڈز اپنی چمک دمک اور چکاچوند سے چھلکتے لباسوں کے بینر ہر جگہ آویزاں کیے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا‘ ہر طرف سے لوگوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے کی یہ کوشش نہایت کامیابی سے جاری ہے۔ ستر‘ اسی فیصد لوگ ان لباسوں کو‘ جن میں سے ہر ایک کی قیمت ان کی مہینہ بھر کی آمدنی سے زیادہ ہے‘ صرف دیکھ سکتے ہیں۔ وہ بھی ان دکانوں پر نہیں‘ صرف بینرز اور اشتہارات میں۔ وہ مرعوب ہو سکتے ہیں اور مرعوب ہوئے جارہے ہیں۔ یہ خیال کہ سامنے والے مرد یا عورت نے وہ لباس پہن رکھا ہے‘ جو وہ سال بھر پیسے جوڑ کر بھی نہیں خرید سکتے‘ ان کے سر جھکائے دے رہا ہے۔ وہ اس سامنے والے سے بات کرنے‘ آنکھیں ملانے کے قابل نہیں ہے۔ سو تشہیر کرنے اور وہ لباس پہننے والے کا مقصد پورا ہوا‘ چوبیس کروڑ کی آبادی میں چند لاکھ لوگ یہ لباس پہن سکتے ہیں اور وہ ان میں سے ایک ہے۔تماشا جاری ہے۔
گلی سے گزرتی عورت سے اس کا ہینڈ بیگ چھیننے کی وڈیو‘ گاڑی کے سامنے موٹر سائیکل لگا کر‘ پستول نکال کر سب کچھ چھین لینے کی وڈیوز‘ گلی میں گھر کے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے موبائل چھیننے کی وڈیوز‘ جیولرز کی دکان میں لٹیروں کے گھسنے اور کامیابی سے مال سمیت فرار ہو جانے کی وڈیوز۔ ہر ایک یہ وڈیوز دیکھ رہا ہے۔ کوئی نہیں دیکھ رہا تو وہ لوگ جن کی ذمہ داری ہے کہ یہ سب نہ ہونے دیں۔ تماشا جاری ہے اور متعلقہ ادارے سب سے بڑے تماشائی ہیں۔تماشا جاری ہے۔
بجلی‘ پانی‘ گیس‘ فون کے ہوشربا بل الگ اور ان سرکاری اداروں کی' ڈکیتیاں‘ الگ۔ روز کا معمول ہے کہ میٹر ریڈر لکھ دیتا ہے کہ ان کا میٹر خراب ہے۔ بل اس قاعدے کے مطابق بھیجا جائے جو سراسر اس ادارے کے فائدے کا قاعدہ ہے۔ آپ لاکھ دہائیاں دیتے رہیں کہ جناب میٹر چل رہا ہے۔ میٹر ریڈر کی نااہلی اور کام چوری کی سزا ہمیں نہ دیں۔ کوئی سننے والا نہیں۔ آپ کو بل ادا کرنا ہی پڑے گا ورنہ بغیر بجلی‘ بغیر پانی‘ بغیر گیس بغیر فون رہنے کی سزا بھگت سکتے ہوں تو بھگت لیں۔یہ سزا کسی کے بس میں نہیں اس لیے کسی بھی طرح بل ادا کردیا جاتا ہے اور اگلے بل کے لیے دعائیں شروع کردی جاتی ہیں۔تماشا جاری ہے۔
ان سب تماشوں سے الگ ایک تماشا کرکٹ کے میدان میں لگا ہے‘ جس میں دل لگا کر باقی تماشوں کو کچھ دیر کے لیے بھولا جا سکتا ہے۔ ایشیا کپ کے میچز پاکستان میں بھی ہو رہے ہیں۔ کیا خیال ہے اُدھر نہ چلیں؟ تماشا جاری ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved