بھارت، برطانیہ، یورپی یونین، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، ترکیہ سمیت دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں قومی انتخابات پہلے سے قائم حکومت ہی کے تحت ہوتے ہیں، اسے ''سِٹنگ گورنمنٹ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ حکومت اپنی آئینی مدت کے اختتام کے بعد نئی حکومت کے آنے تک نگراں حکومت ہی ہوتی ہے، اس لیے انتخابی مہم کے دوران انتخابی حلقوں میں نئے ترقیاتی کاموں کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ قومی انتخابات کی شفافیت، ثقاہت، اعتبار، نیز منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے کا مدار مضبوط اعصاب، مضبوط قوتِ ارادی، قوتِ فیصلہ اور صلاحیت و قوتِ نافذہ کے حامل چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن پر ہے، نیز لازم ہے کہ اُس میں ہر طرح کا دبائو برداشت کرنے کی اہلیت، صلاحیت، ہمت اور حوصلہ ہو تاکہ وہ کسی فریق کے دبائو میں نہ آئے۔ آج کل پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کی جو مختلف صورتیں ہیں، ان کو بھی ثبوت و شواہد کے بغیر دبائو ڈالنے، بے پرکی اڑانے اور نظام کو بے اعتبار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں وَٹس ایپ، فیس بک، یوٹیوب، ٹویٹر، انسٹاگرام، ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔ ان پر قابو پانا اب بظاہر کسی حکومت کے بس میں نہیں ہے، واللہ اعلم بالصواب۔ لیکن یہ دودھاری تلوار ہے، اگر ان کو استعمال کرنے والے بے خوف وخطر ہوں، دیانت دار ہوں، کسی فریق کے طرف دار نہ ہوں، غیر جانبدار ہوں، ملک میں شفافیت اور انصاف کا فروغ ان کا مشن ہو، تو یہ اصلاح کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔
1973ء کے اصل دستور میں نگراں حکومت کا کوئی تصور نہیں تھا؛ چنانچہ 1977ء میں جب اُس وقت کے وزیراعظم جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی اسمبلی کو تحلیل کر کے قبل از وقت انتخابات کرائے تو وہ انہی کی حکومت کی نگرانی میں منعقد ہوئے، لیکن انتہائی متنازع قرار پائے۔ وہ اسمبلیاں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے آگے ٹھہر نہ سکیں اور بالآخر یہ تحریک جمہوریت کے تسلسل، منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ قومی انتخابات کے انعقاد کے بجائے 5 جولائی1977ء کے مارشل لا پر مُنتج ہوئی۔ الغرض جمہوریت کی گاڑی ایک مرتبہ پھر پٹڑی سے اتر گئی، اسی کو انگریزی میں ''Derail‘‘ ہونا کہتے ہیں۔
اس کے بعد 1985ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے تحت غیر جماعتی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے، 1988ء، 1990ء، 1993ء اور پھر1997ء کے قومی انتخابات میں نگراں حکومت تھی، مگر یہ کوئی آئینی تقاضا نہیں تھا، بلکہ چونکہ اُس وقت کی اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کرکے حکومتیں معزول کر دی گئی تھیں، اس لیے ایک نگراں سیٹ اپ بنایا گیا اور پھر اُسی کے تحت انتخابات منعقد ہوئے۔ 2002ء کے انتخابات پرویز مشرف سیٹ اپ کے تحت ہوئے، ان اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی اور اُن کی قائم (نگراں) حکومتوں میں ہی 2008ء کے انتخابات منعقد ہوئے۔
بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا اور حسینہ واجد کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں نگراں حکومت کا تصور پہلی بارآیا، لیکن بعد ازاں حسینہ واجد نے اس روایت کو ختم کر دیا اور اپنی حکومت کے تحت ہی انتخابات منعقد کراتی چلی آئی ہیں، اگرچہ وہاں بھی قومی انتخابات میں دھاندلی اور حکومتی جبر و جور کے الزامات لگتے رہتے ہیں، مگر اُن کا اندازِ حکومت جابرانہ ہے اور ہر مخالف تحریک کو کچل دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پارلیمنٹ نے 8 اپریل2010ء کو اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی اور اُس میں قرار دیا گیا: منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرنے پر از خود تحلیل ہو جائے گی، پہلے سے قائم حکومت اقتدار سے فارغ ہو جائے گی اور نئے شفاف، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ قومی انتخابات کے لیے قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کے مشورے سے نگراں وزیرِاعظم کا تقرر ہو گا، اگر اُن میں کسی ایک وزیراعظم پر اتفاق نہ ہو سکا تو پارلیمانی کمیٹی اس کا فیصلہ کرے گی اور اگر وہ بھی متفقہ وزیراعظم کے انتخاب میں ناکام رہی تو پھر دونوں طرف کے دیے گئے ناموں میں سے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے طور پر کسی ایک کا انتخاب الیکشن کمیشن کرے گا، جیساکہ 2023ء میں پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کی دستبرداری کے بعد نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کا تقرر کیا گیا۔
المیہ یہ ہے کہ نگراں سیٹ اپ میں بھی جو انتخابات ہوئے، ان کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھتے رہے، شکست خوردہ فریق نے دھاندلی کے الزامات لگائے، کبھی قبل از انتخابات دھاندلی کا الزام لگا، کبھی پولنگ کے دوران دھاندلی کے الزامات لگے اور کبھی مابعد انتخاب دھاندلی کے الزامات لگے، کبھی الیکشن 'ریٹرننگ افسروں کا انتخاب‘ قرار دیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات انتہائی متنازع تھے، کھلے عام انتخابات میں دخل اندازی کی گئی، سب سے پہلے قابلِ انتخاب امیدواروں کو ایک خاص پارٹی میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا، پھر نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ پر اُس وقت کی معتوب جماعت کے امیدواروں کو ایسے مرحلے پر جماعتی وابستگی سے دستبردارہونے پر مجبور کیا گیا کہ اُسے متبادل امیدوار میدان میں اتارنے کی مہلت بھی نہ ملی، اُن کی قیادت کو پسِ دیوارِ زنداں کر دیا گیا۔ پھر آخری مرحلے میں پولنگ سٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا، پریزائیڈنگ افسروں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ وٹس ایپ کے ذریعے انتخابی نتائج فوری طور پر ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمیشن کو ارسال کریں تاکہ نتائج کے اعلان میں تاخیر نہ ہو، اسے آر ٹی ایس کا نام دیا گیا، لیکن عین وقت پر یہ سسٹم بیٹھ گیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار نتائج کئی دنوں تک آتے رہے۔ الغرض انتخابات میں یہ دخل اندازی عیاں بھی تھی اور مستور بھی، عَیاں اس لیے کہ سب کو کھلی آنکھوں سے نظر آرہی تھی اور مستور اس لیے کہ کوئی کسی کا نام نہیں لے سکتا تھا، کبھی بات بھی ہوتی تو اشاروں کنایوں میں۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی لیے پسِ پردہ کارفرما قوتوں کو ''نکّے دا ابا‘‘کانام دیا تھا۔ سلیم کوثرکایہ شعراس کی درست تعبیر ہے:
میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے
اس قومی المیے میں ہماری اعلیٰ عدلیہ نے بھی جانبدارانہ کردار ادا کیا۔ وہ مقتدرہ کی آلۂ کار بنی اور ایسے فیصلے صادر کیے جو عدل اور عدالت کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکا اور انمٹ داغ ہیں۔سپریم کورٹ اپیلٹ کورٹ کے بجائے ٹرائل کورٹ بنی، جسٹس ثاقب نثار نے تو شیخ رشید کی انتخابی مہم چلائی۔ سلیم کوثر نے کہا ہے:
وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا، پہ مری سزا کوئی اور ہے
مگر آج وہی کرّوفر والے عالی مرتبت جج صاحبان نشانِ عبرت بنے ہوئے ہیں، اُن کا اُس وقت کا کردار باعثِ افتخار نہیں، بلکہ باعثِ ننگ وعار ہے۔ منیرنیازی نے کہا تھا:
آنکھوں میں اڑ رہی ہے، لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اب پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نگراں حکومت کے اختیارات میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جانے والی حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ جو معاہدے کیے ہیں، وہ انھیں جاری رکھ سکے اور اُن کے تحت جو اقدامات ضروری ہیں، وہ انجام دے سکے تاکہ خدانخواستہ کسی سبب انتخابات نوے دنوں سے مؤخر ہوں تو ملک کسی اور بڑے اقتصادی بحران میں مبتلا نہ ہو۔ پہلی تجویز میں نگراں حکومت کو نئے معاہدات کی بھی اجازت دی گئی تھی، مگر پھر اسے واپس لے لیا گیا اور صرف منتخب حکومت کے طے شدہ معاہدات کو جاری رکھنے کی منظوری دی گئی ہے، نئے معاہدے کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ آرمی ایکٹ میں بھی ترمیم کی گئی ہے‘ اس پر بعض ارکانِ پارلیمان کو تحفظات تھے، لیکن بہرحال قانون بن چکا ہے۔
ہمارے ہاں الیکشن کمیشن اور نگراں سیٹ اپ میں ریٹائرڈ جج صاحبان اورصحافیوں کو بھی آزمایا گیا، لیکن وہ اچھے، قابلِ اعتماد اور دبنگ منتظم ثابت ہوئے اور نہ وہ کوئی اچھا تاثر چھوڑ کر گئے، کسی حد تک سابق بیوروکریٹ اورموجودہ چیف الیکشن کمشنر مضبوط قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کے حامل ثابت ہوئے، لیکن سابق حکومت کے دور میں رسوائے زمانہ ڈسکہ الیکشن میں نا اہلی اور دھاندلی کے ذمے دارافسروں کو قرارِ واقعی سزا نہ دلوا سکے، کیونکہ لاہور ہائیکورٹ ان کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔ گزشتہ کئی برسوں سے اعلیٰ عدلیہ نے بعض عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں سے ماتحت عدالتی نظام کو غیر مؤثر اور مفلوج کر رکھا ہے، بی آر ٹی پشاور وغیرہ منصوبوں میں کرپشن کی تحقیقات کے بارے میں پشاور ہائیکورٹ نے فیصلے دیے، مگر عدالتِ عظمیٰ نے اس پر غیرمعیّنہ مدت کے لیے حکمِ امتناع جاری کر دیا۔ سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو الیکشن ٹریبونل نے نااہل قرار دیا اور الیکشن کمیشن نے ان کی نشست خالی قرار دی، لیکن اس پر بھی حکمِ امتناع جاری کر دیا گیا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے حکم دیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی سے لی گئی تنخواہیں اور مراعات بھی واپس کریں۔
خلاصہ یہ کہ کتابوں میں درج قوانین غیر جانبدارانہ عدل اور شفافیت کے ضامن نہیں بن سکتے تاوقتیکہ مناصب پر فائز شخصیات مضبوط اور مستحکم عادلانہ انتظامی صلاحیت، قوتِ فیصلہ اور قوتِ نافذہ کے حامل نہ ہوں، ورنہ قرآن وسنّت میں ایک انتہائی خدا ترس اور متقی انسان بنانے کے سارے احکام موجود ہیں، لیکن جب تک اُن پر عمل نہ کیا جائے، صرف مکتوب احکام نتائج کے حامل نہیں ہو سکتے۔ دعا ہے: ہمارا موجودہ نگراں سیٹ اپ ماضی کی تاریخ دہرانے کے بجائے کوئی اچھا تاثر چھوڑ کر جائے، بظاہر اس سیٹ اپ پر کوئی نمایاں سیاسی چھاپ نہیں ہے، اسی الزام پر پختونخوا کی کابینہ کو تبدیل کر دیا گیا ہے، پس لازم ہے کہ وہ اپنے فرائض دیانت داری سے انجام دیں تاکہ ہمارے مجموعی نظام اور انتخابی نظام پر اعتماد قائم ہوسکے اور انگلی نہ اٹھائی جاسکے۔
ہمارے ہاں بعض قوانین مروّجہ پارلیمانی طریقۂ کار کونظراندازکر کے عُجلت میں منظور کیے جاتے ہیں، اس کے پیچھے وقتی مصلحتیں اور عارضی مفادات کارفرما ہوتے ہیں، اس لیے یہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے، بعض اوقات ایسے قوانین آگے چل کر خود قانون سازوں کے گلے کا طوق بن جاتے ہیں، یہ قانون سازی کا معروضی طریقہ نہیں ہے، بعض قوانین کے حوالے سے اس وقت بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved