ڈالر کی قدرمیں اضافہ ملکی معیشت میں اُم المسائل ہے۔ یہیں سے دیگر معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔ سب سے پہلے اس پر قابو پانا ضروری ہے۔ میں اپنے کالموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ انٹربینک میں ڈالر کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں نہیں لیکن گرے مارکیٹ میں ڈالر کی خریدوفروخت روکنا حکومت کے اختیار میں ہے۔ اب آرمی چیف کی بزنس کمیونٹی سے ملاقاتوں کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی ہو رہی ہے جو خوش آئند ہے۔ ملک میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہورہی تھی اور عوام یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ کہاں جا کر رکے گا۔ بزنس کمیونٹی ان حالات میں کاروبار نہیں کر سکتی اور وہ ملک چھوڑنے کو ترجیح دیتی ہے۔ آرمی چیف نے بزنس کمیونٹی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے اور بیرونی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ بزنس کمیونٹی اب پہلے سے زیادہ پُراعتماد دکھائی دے رہی ہے اور عوام میں بھی امید کی کرن جاگی ہے کہ شاید اب ملک کے حالات بہتر ہو جائیں۔ کاروباری طبقہ بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اگر یہ خرابی اس سٹیج پر ہی رک جائے تو معیشت کو سنبھالا دیا جا سکتا ہے۔ ڈالر کے بعد عام آدمی کے مسائل خوراک سے متعلق ہیں۔ آٹا اور چینی عوام کی خوراک کا لازمی جُز ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ ڈالر بڑھے یا نہ بڑھے‘ شوگر مافیا سال میں ایک مرتبہ چینی کا بحران ضرور پیدا کرتا ہے۔ اس مافیا پر ہاتھ ڈالنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان میں محض چند ماہ پہلے تک چینی ایک سو روپے سے بھی کم قیمت پر فروخت ہو رہی تھی جبکہ اِس وقت مارکیٹ میں چینی لگ بھگ دو سو روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ نگران حکومت کے مطابق ملک میں اتنی چینی میسر نہیں کہ آئندہ پیداوار تک ملکی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اسی لیے حکومت چینی درآمد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے چینی کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔
چند ماہ پہلے پی ڈی ایم کے دورِ حکومت میں ملک میں بظاہر وافر چینی موجود تھی اور اسی بنا پر چینی برآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر چینی وافرتھی تو محض چند ماہ میں اس کی قلت کیسے پیدا ہو گئی۔ دراصل ملک میں چینی کی وافر مقدار موجود ہی نہیں تھی اور حکومت کا چینی برآمد کرنے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اب پی ڈی ایم حکومت کے اتحادی اور سابق وفاقی وزیر اس پر ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ پاکستان میں چینی کی صنعت سے جڑی بڑی کاروباری شخصیات سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتی ہیں جبکہ حکومت صرف چینی بنانے والے کارخانوں اور ملوں کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار پر انحصار کرتی ہے‘ خود سے تحقیقات نہیں کرتی۔
پاکستان میں چینی اُن آٹھ بنیادی اجناس میں شامل ہے جن کی برآمد کا فیصلہ وفاقی کابینہ کی ایک کمیٹی کرتی ہے جسے ای سی سی یا اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی کہا جاتا ہے۔ ای سی سی کے سامنے اعداد و شمار رکھے جاتے ہیں جن کی روشنی میں یہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔ یہ اعداد و شمار نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت جمع کرتی ہے جو بنیادی طور پر یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں چینی کا کتنا ذخیرہ موجود ہے، کتنے کی ضرورت ہے اور کتنی چینی وافر ہے۔ ان اعداد و شمار ہی کی بنیاد پر ای سی سی فیصلہ کرتی ہے کہ کیا وافر چینی کو برآمد کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔ اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ گنے کی آئندہ پیداوار کا ہدف کیا ہے اور کرشنگ کے سیزن میں چینی کا آؤٹ فلو کیا ہو گا۔ ای سی سی کے سامنے جو اعداد و شمار وزارتِ فوڈ سکیورٹی کی جانب سے رکھے جاتے ہیں انہی کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقہ کار میں کافی چھید ہیں۔ شوگر ملوں سے چینی کی پیداوار اور ذخائر کے حوالے سے اعداد و شمار لے کر ای سی سی کے سامنے رکھنے تک اور اس پر فیصلہ ہونے تک اعداد و شمار بدل چکے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی کا سپلائر اتنا انتظار نہیں کرتا اور غیر رسمی طور پر چینی کی سپلائی جاری رہتی ہے۔ اس طرح اعداد و شمار میں بیان کردہ ذخائر بدل جاتے ہیں۔ ایسا صرف رواں برس نہیں ہوا۔ یہ لگ بھگ ہر برس ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اعداد و شمار جمع کرنے کا طریقہ کار درست نہیں اور نہ ہی اسے درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جان بوجھ کر سسٹم میں لوپ ہولز رکھے گئے ہیں تا کہ شوگر مافیا فائدہ اٹھاتا رہے۔ پی ٹی آئی دور میں 2020ء میں ایک ''ٹریک اینڈ ٹریس‘‘ سسٹم بنایاگیا تھا جو کافی حد تک مؤثر تھا؛ تاہم وہ زیادہ چل نہیں سکا۔ یہ جو نظام بنایا گیا تھا اس میں ہر علاقے کے ڈپٹی کمشنر کو روزانہ رات آٹھ بجے اپنے علاقے میں آٹھ بنیادی اجناس کے ذخائر کے حوالے سے اعداد و شمار وفاقی حکومت کو جمع کرانا ہوتے تھے‘ ان میں چینی بھی شامل تھی۔ اس طرح ملک میں موجود تمام شوگر ملز کے چینی کے ذخائر کے حوالے سے بروقت اور درست اعداد و شمار حکومت کے پاس موجود ہوتے تھے۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں چینی کی برآمد یا درآمد کے حوالے سے درست فیصلہ کرنا ممکن تھا مگر یہ نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا۔ اب حکومتیں اعداد و شمار کے لیے زیادہ تر شوگر ملز ایسوسی ایشنز پر انحصار کرتی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ چینی کی برآمد کے حوالے سے فیصلے میں غلطی کے خدشات موجود رہتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی خدشہ موجود رہتا ہے کہ ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں حکومت کو چینی درآمد کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پاکستان میں چینی برآمد و درآمد کرنے اور قومی سطح پر ملک کے اندر فروخت کرنے والا زیادہ تر ایک ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ یہاں جو مقامی سطح پر چینی فروخت کرتا ہے‘ وہی چینی برآمدکرتا ہے اور زیادہ تر درآمد بھی وہی کرتا ہے۔ ہر کوئی چینی درآمد نہیں کر سکتا‘ اس کے لیے لائسنس درکار ہوتا ہے اوریہ لائسنس زیادہ تر انہی کے پاس ہوتا ہے جنہوں نے چینی برآمد کرنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی برآمد اور درآمد کرنے والے پاکستان میں چینی کے حوالے سے پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تر چینی بنانے والی ملوں کے مالکان شامل ہیں۔
اس وقت چینی سکینڈل نے ملک میں سیاسی بحران بھی پیدا کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی چھتری تلے حکومت کرنے والی اتحادی جماعتیں اب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے سابق وفاقی وزیر برائے تجارت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق چینی برآمد کرنے کا فیصلہ وزیر تجارت سید نوید قمر کا تھا، بحران کے بارے میں اُنہی سے پوچھا جائے۔ سابق وزیر تجارت کے مطابق چینی برآمد کرنے کی ذمہ داری کسی ایک وزارت پر نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ یہ فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کیا تھا اور کابینہ نے اس کی منظوری دی تھی‘ جس کے سربراہ سابق وزیراعظم شہباز شریف تھے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی‘ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں اور شوگر مل مالکان کے کردار پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اکثر شوگر مل مالکان کابینہ اور پی ڈی ایم کا حصہ یااس کے حامی تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 32 شوگر ملوں کے مالک چند خاندانوں کو نفع پہنچانے کے لیے چوبیس کروڑ عوام کو مہنگی چینی خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سابق وزیر نے سابق وزیر داخلہ کو بھی چینی بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق وزارتِ داخلہ نے 1.4 ملین ٹن چینی ''سمگل‘‘ کرنے کی اجازت دی تھی جس سے سمگلروں نے بڑی تعداد میں ڈالر کمائے۔ ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔مہذب معاشروں میں اس طرح کے الزامات حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں الزامات لگانا اور ان پر کوئی ایکشن نہ ہونا ایک معمول کی بات ہے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کہہ کر ہر طرح کے الزامات سے جان چھڑا لی جاتی ہے جونہایت افسوسناک روش ہے۔ اس وقت ملک میں بلا تخصیص احتساب کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ان حالات میں اگر پچھلے پانچ سال کے چینی بحرانوں کے ذمہ داران سے متعلق جاننے کی کوشش کی جائے اور انہیں احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے تو ممکن ہے کہ مستقبل میں یہ مسائل پیدا نہ ہوں اور عوام مہنگائی کی چکی میں مزید پسنے سے بچ جائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved