تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     08-09-2023

الیکشن 90دن میں‘ وکلا متحد

آئیے آج ذرا وکالت اور عدالت کی دنیا میں جھانک لیں۔ جہاں پہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آچکی ہے۔ عسکری زبان میں اس تبدیلی کو Change of Guardکہہ لیں کیونکہ یہ پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کے سب سے بڑے عہدے پر تبدیلی ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کسٹوڈین آف دی کانسٹیٹیوشن کہلانا پسندکرتی ہے۔ اس لیے جب کوئی اس ارفع ترین عہدے سے جا رہا ہو یا اس عہدے پہ آرہا ہو تو دونوں صورتوں میں امید اور ناامیدی کی بحث‘ کیا کچھ کِیا اور کیا نہ کِیا کے ساتھ شروع ہو جاتی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب پہلے ہی چیف جسٹس آف پاکستان نامزد ہو چکے ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد یہی 1973ء کے آئین کا تقاضا ہے۔ اب بدحال قوم اور طرح طرح کی ناانصافی کے مارے ہوئے لوگ آنے والے چیف جسٹس صاحب سے اُمیدیں جوڑے بیٹھے ہیں۔ جتنی بھاری یہ ذمہ داری ہے‘ اُس سے کہیں زیادہ وزنی امیدوں کے ڈھیر اور مقدمات کا پہاڑ سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔
دوسری جانب موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال 16ستمبر بروز ہفتہ رات 12بج کر ایک منٹ پر چیف جسٹس سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ہو جائیں گے۔ ویسے پچھلے ہفتے عشرے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالتی کام سے دست کَشی کر رکھی ہے۔ ہاں البتہ ایک گنجائش اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر چیف صاحب آدھی رات سے تھوڑا پہلے انصاف دینے کی غرض سے پہلے کی طرح پھر عدالت لگا لیں۔ ایسے میں قانون یہ کہتا ہے کہ عدالتی وقت کے خاتمے کے بعد بھی جو جج بیٹھا رہے اُسے عدالت کہا جائے گا۔ جس کی تازہ ترین مثال عمران خان کے فُل سپیڈ ٹرائل سے ملتی ہے۔ جس نے سالانہ عدالتی رخصت کے دوران بھی سپیڈی ٹرائل کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔
بہر حال ریٹائرمنٹ برحق ہے جس نے ہر طرح کی ملازمت میں ایک نہ ایک دن آنا ہی ہوتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جس طرح موت برحق ہے اورہر ذی روح کے پاس اُس نے آناہی ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک جج صاحب کو ریٹائرمنٹ کا سامنا ہوا تو میڈیا رپورٹروں نے ریٹائرمنٹ سے 24گھنٹے پہلے موصوف کو گھیر لیا۔ ایک چہچہاتے رپورٹر نے لہراتا ہوا سوال یوں داغا ''اب آپ کے پاس 24گھنٹے باقی رہ گئے ہیں‘ اس پہ کیا کہیں گے؟‘‘۔ رپورٹر کے سوال کا جو جواب ریکارڈ پر آیا اُس میں ریٹائرمنٹ کا پورا کرب بھی دَر آیا۔ رپورٹر کو جواب ملا کہ میرے 24گھنٹے نہیں بلکہ26گھنٹے باقی رہتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا میرے 26گھنٹے 26 سالوں پہ بھاری ہیں۔ یہ واقعی سچ ثابت ہوا۔ پاکستان کے وکلا نے اپنے خون پسینے اور اپنے پروفیشن کی قربانی دے کر جوڈیشل سسٹم کی آزادی کی جو تحریک چلائی تھی‘ اُس کا نتیجہ سننا ہو تو نظامِ عدل سے وابستہ کسی بھی فردسے بات کر لیں۔ سائل سے لے کر وکیل تک ایسی ایسی کہانیاں سامنے آئیں گی کہ لوگ عربی ادب کی سب سے لمبی کہانی ''لیلہ و الف لیلہ‘‘ کو بھول جائیں گے۔
اسی تسلسل میں دنیائے وکالت بھی بہت بڑی تبدیلی کو گلے لگا چکی ہے۔ وکالت نامہ کے جن قارئین کو معلوم نہیں اُن کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں وکلا سیاست کے دو گروپ ہیں جو ہر سال ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں۔ وکلا سیاست کی دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ جونہی نئے سال میں بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار منتخب ہوتے ہیں‘ عین اُسی وقت نئے امیدوار اپنی برادری سے اگلے سال کے ووٹ کی ایڈوانس بکنگ شروع کروا دیتے ہیں۔ یوں تقریباً پورا سال وکلا سیاست کی انتخابی مہم چلتی ہی جاتی ہے۔ لمبے عرصے بعد اب پہلی بار وکلا کے ان دونوں دھڑوں کو دو نکات پر متفق ہونا پڑا۔ پہلا نکتہ آئین کی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے نقطۂ اتصال بنا۔ یہ ہے 90دن کی طے شدہ آئینی مدت کے اندر اندر جنرل الیکشن کروانے کا مطالبہ۔ اگلے روز پاکستان بار کونسل نے اپنے اجلاس میں جنرل الیکشن 90دن کے اندر کروانے اور الیکشن نہ کروانے کی صورت میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے دوسرے گروپ نے یہی مطالبہ زبانی اور تحریری طور پر سپریم کورٹ اور قوم کے سامنے رکھا ہے۔
اسی تناظر میں جمعرات کے دن 11بجے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آل پاکستان وکلا کنونشن کا انعقاد کیا۔ شاہراہ دستور کی غربی جانب ٹرپل سٹوری ایڈیٹوریم‘ لیڈی لائرز اور وکلا سے فُل تھا۔ بے رحم مہنگائی کے خلاف اس ایڈیٹوریم کے مختلف کونوں سے بار بار زور دار نعرے لگے۔ جو جذبات اس وقت پاکستانی قوم کے ہیں‘ اُن کا اظہار ممتاز وکیلوں‘ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل کے عہدیداروں نے کھُل کر کیا۔ اس موقع پر سٹیج سے میری گزارشات چار نکات پر مشتمل تھیں۔
آل پاکستان وکلا کنونشن میں پہلانکتہ: پاکستان میری اور ہم سب کی پہلی پناہ گاہ ہے اور آخری پناہ گاہ بھی۔ یہ قوم کی پہلی امید ہے اور آخری امید بھی۔ یہ قوم کی پہلی آپشن بھی ہے اور آخری آپشن بھی۔ ریاست سے لوگوں کو جوڑے رکھنے کے لیے صرف ایک عمرانی معاہدہ موجود ہے جس کا نام ہے 1973ء کا آئین۔ اسے بے توقیر نہ کیا جائے۔ اس لیے90دنوں میں ملک بھر میں الیکشن ہونے چاہئیں۔
آل پاکستان وکلا کنونشن میں دوسرانکتہ: فرنگی کے زمانے سے خواتین کو Vulnerableطبقہ سمجھ کر ضابطۂ فوجداری مجریہ 1898ء میں بطور قانون لاگو ہوا۔ اور تب سے اب تک خاتون چاہے کسی جرم میں پکڑی جائے اُسے ضمانت دی جاتی ہے‘ صنفِ نازک سے ترجیحی سلوک کے طور پر۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی 21سیاسی قیدی خواتین پانچ ماہ سے صوبے کے ہائی کورٹ میں ضمانت کے فیصلے کی منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ اُن کا نوٹس لے اور اُنہیں انصاف دے۔
آل پاکستان وکلا کنونشن میں تیسرا نکتہ: ہندوستان میں آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے 1947ء میں میری آبائی تحصیل کہوٹہ کا آخری دورہ کیا تھا۔ یہ کیسی آزادی ہے‘ یہ کہاں کی خود مختاری ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سفیر کس حیثیت سے وائسرائے بن کر الیکشن کمیشن‘ پولیس لائن‘ آئی جی آفس اور ہمارے ریاستی اداروں میں جا رہے ہیں؟ کیا امریکہ ہمارے سفیر کو پینٹا گون کا ایسا دورہ کرنے اجازت دے گا؟ کیا امریکہ میں پاکستانی سفیر کیپٹل ہِل‘ وائٹ ہائوس یا ایڈمنسٹریشن میں اس طرح کی ملاقاتیں کر سکتا ہے؟
آل پاکستان وکلا کنونشن میں چوتھانکتہ: زہرا نگاہ نے کہا تھا
سُنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سُنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
گھنے پیڑوں کی چھائوں میں وہ جا کر لیٹ جاتا ہے
پاکستان کے نصیب میں یہ کیسے شیر آئے ہیں‘ جن کا کھا کھا کر پیٹ ہی نہیں بھر رہا۔ لوگ بجلی‘ آٹے‘ مٹی کے تیل‘ روٹی اور پٹرول کے لیے ترس گئے۔ آج ملک کو اس حال پر پہنچانے والے مولانا‘ شریف اور سمدھی‘ باپ اور بیٹا دُور دیس کی ٹھنڈی ہوائوں میں آرام فرما رہے ہیں اور پاکستانی مسائل کے تنور میں جل رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved