تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-10-2013

امریکی اوربھارتی سفیر سے ایک طالبان لیڈر کی ملاقات؟

خدائی اصول یہ ہے کہ وہ فقط اہلِ اخلاص کا مددگار ہوتاہے ، ریاکاروں کا نہیں ۔ وہ جو حکمت کو عزیز رکھتے ہیں ۔ وزیر اعظم کا کہنا یہ ہے کہ پشاور حملے کی ذمہ داری طالبان نے اگر قبول نہیں کی تو غیر ملکی ہاتھ ملوّث ہو سکتا ہے ۔ اسے بے نقاب کیا جائے گا ۔ بعض غیر جانبدار مبصرین کی رائے بھی یہی ہے کہ یہ بھارت یا امریکہ ہو سکتے ہیں ۔ جنرل ثنا ء اللہ خاں نیازی کے قتل کی ذمہ داری مولوی فضل اللہ نے قبول کر لی ہے ، جو حامد کرزئی اور امریکہ کی مرضی سے نورستان میں قیام پذیر ہے۔ چرچ کے اذیت ناک واقعے میں خودکش حملہ آور برتے گئے اور ظاہر ہے کہ طالبان کے سوا یہ اہتمام کوئی اورنہیں کر سکتا۔ صرف وہی جنت کے پروانے جاری کرتے ہیں ۔ کل جماعتی کانفرنس کے بعد پے درپے دھماکوں کی حکومت کو تحقیقات کرانی چاہیے۔ آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جنس اور آئی بی کے بہترین دماغوں کے ذریعے اور جنگی بنیادوں پر۔ کیا یہ فقط طالبان ہیں ، جن میں جرائم پیشہ عناصر گھس آئے ہیں اور جن میں غیر ملکی رسوخ بھی کارفرما ہے یا امریکی اور بھارتی ، جن کی خواہش ہے کہ کسی صورت مذاکرات کا آغاز نہ ہو نے پائے ۔ رہا غیر ملکی ہاتھ کو بے نقاب کرنے کا سوال تودوسروں کی طرح یہ ناچیز بھی اندازہ لگانے کی کوشش ہی کر سکتاہے کہ پاکستان کا وزیراعظم جرأت رندانہ کا مظاہرہ کر سکتاہے یا نہیں ؟ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط۔ ایک ر ائے یہ ہے کہ خوف زدہ وزیراعظم ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ تھے ؛لہٰذا انہوں نے دوسروں کو ملوّث کیا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ کہ نیک نیتی سے انہوںنے مصائب کے گھنے جنگل میں راہِ نجات تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اصول کی بات مگر یہ ہے کہ ایک بار اتفاقِ رائے سے بات چیت کا فیصلہ کرلیا گیا تو اس پر عمل ہونا چاہیے اور پورے خلوص سے ۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے: ’نانی نے خصم کیا، برا کیا۔ کر کے چھوڑ دیا، اور بھی برا کیا۔ ملک متحمل نہیں کہ ساری دنیا کے سامنے وعدہ کرکے مکر جائے۔ کل جماعتی کانفرنس سے قبل وزیراعظم نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو مشورے کے لیے طلب کیا تو دو نکات پر انہوں نے زور دیا۔ اوّل یہ کہ معاملات سول حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔ ثانیاً یہ کہ اگر سیاسی قیادت مذاکرات کا فیصلہ کرے تو پوری یکسوئی سے اس کی مدد کی جائے گی۔ وزیر اعظم کے ساتھ سپہ سالار کی انہی ملاقاتوں کے نتیجے میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوا کہ انہیں ایک سال کی توسیع دی جارہی ہے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ وزیراعظم ایسی غلطی کا ارتکاب کریں گے کہ اس سے ان کی ساکھ مجروح ہوگی اور ان سے زیادہ جنرل کی۔ جہاں تک انہیں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی یا قومی سلامتی کا مشیر مقرر کرنے کا تعلق ہے تو طالبِ علم کی رائے میں جنرل کو ایسی کوئی بھی پیشکش قبول کرنے سے انکار کردینا چاہیے۔ چھ سال تک انہوںنے عالمِ اسلام کی سب سے زیادہ طاقتور فوج کی قیادت کی ۔ ایک کے بعد پاک فوج کے دوسرے سربراہ نے اس شاندار منصب کی توہین کی۔ کچھ نے مارشل لا نافذ کیا۔ بعض سیاست میں کودے اور ایک آدھ نے غیر ملکیوں کی نوکری کرلی۔ جنرل نے اپنا وقت صبر کے ساتھ گزارا اور سیاست میں فوج کا کردار کم کرنے کی کوشش کی۔ اب یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ لازماً سرکار سے وابستہ رہیں۔ وہ ایک کتاب کیوں نہیں لکھتے؟ بے شک بہت سی باتیں لکھی نہیں جا سکتیں لیکن بہت سی لکھی جا بھی سکتی ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی دوسرا شخص افغان مسئلے پر ان سے بہتر اظہارِ خیال پہ قادر ہے ۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ مغرب کا کوئی بھی ہوشمند پبلشر کئی ملین ڈالر کی پیشکش کرسکتاہے ۔ 2001ء میں امریکیوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے ۔ ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کا صفایا کرنے کی بجائے، امریکیوں نے انہیں پاکستان میں گھسنے دیا۔ مختصر عرصے کے لیے راولپنڈی کا کور کمانڈر رہنے کے بعد وہ آئی ایس آئی کے سربراہ بنائے گئے ۔ اپنے فرائض اس خوش اسلوبی سے انجام دئیے کہ جنرل پرویز مشرف کے آوارگان کلب کا ممبر نہ ہونے کے باوجود سپہ سالار مقرر کیے گئے، درآں حالیکہ موصوف کسی اور کو یہ منصب سونپنے کے آرزومند تھے لیکن پھر تقدیر کے ان دیکھے ہاتھ نے ان کی راہ ہموار کر دی۔ امریکی امداد پر انحصار کے باوجود، بدترین مجبوریوں کے باوجود، انہوںنے انکل سام کی مقدور بھر مزاحمت کی۔ اس اثنا میں پانچ بار میں نے ان سے دوسرے اخبار نویسوں کے ساتھ اور کئی بار تنہائی میں طویل ملاقاتیں کیں ۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے انہیں ایک نیک نیت ، محب وطن اور دیانت دار آدمی پایا۔ اللہ نے زندگی دی اور اس عہد کے تعصبات کی گرد بیٹھ چکی تو انشاء اللہ بعض تفصیلات میں لکھ دوں گا۔ اگرچہ قوم اور سول حکومت کی تائید انہیں حاصل تھی ، یہ جنرل کیانی تھے ، جن کی وجہ سے سات ماہ تک نیٹو سپلائی رکی رہی ۔ ان کے بھائی غیر محتاط نہ ہوتے تو جنرل کی نیک نامی کا گراف بہت بلند ہوتا۔ میں سوال کرتا ہوں کہ جنرل کیانی سبکدوش ہو کر غیر سرکاری طور پر حکومت کی مدد کیو ں نہیں کر سکتے ؟ ایسے خطرناک حالات میں، جن سے ہم دوچار ہیں، ملکوں اور قوموں کی تقدیر کے فیصلے کل جماعتی کانفرنسوں اور ٹی وی مذاکروں میں نہیں ہو تے۔ ایسے میں پھونک پھونک کر قدم رکھناہوتاہے۔ بہت سی چیزیں اخفا میں رکھی جاتی ہیں اور قیادت کو گریز کی بجائے، چیلنج قبول کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم شدید مخمصے کا شکار ہیں اور شاید خوف کا بھی ۔ یہ امریکی حکمتِ عملی تھی کہ پاکستانی میڈیا مادر پدر آزاد ہو جائے اور ایک سبب یہ تھا کہ وہ کافی خریداری کر چکے تھے ۔ متوازی طور پر وہ این جی اوز کا ایک جال بن چکے ہیں، جو ملک کی نہیں، ڈالر وںکی وفادار ہیں۔ اگرچہ حالیہ دورے میں وزیراعظم کا طرزِ عمل بحیثیتِ مجموعی قابلِ قدر رہا مگر کیا کسی نے غور کیا کہ ایسی شدیدمصروفیات میں وہ یہودیوں کے قارون جارج سوروس سے ملاقات کا وقت نکال سکے۔ وہ شخص، جس نے 1996ء میں ملائشیا سمیت ، مشرقِ بعید کے کئی ممالک کی معیشت برباد کر دی تھی۔ اس ملاقات کا اہتمام کس نے کیا؟ سن گن ملی ہے۔ تصدیق کرلوں تو عرض کروں گا۔ ترجیحی طور پر اور تیزی سے وزیرا عظم کو کل جماعتی کانفرنس کے بعد برپا ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات کرانی چاہیے۔ ایک اور اطلاع کی تحقیقات بھی وہ کرالیں ۔ اتوار کی شام ایک انتہائی قابلِ اعتماد ذریعے نے بتایا کہ 13مئی کو ایک انتہائی اہم طالبان لیڈر کابل میں تھے، جہاں انہوںنے امریکی سفیر جیمز بی کننگھم (James B. Cunningham) اور بھارتی سفیر مسٹر گوتم موکھو پادھیا (Gautam Mukhopadhyay) سے ملاقاتیں کیں ۔ جن صاحب نے یہ بات مجھے بتائی،23برس سے میں انہیں جانتا ہوں۔افسانہ تراشی تو کجا، میں نے انہیں کبھی مبالغہ آرائی کرتے بھی نہیں پایا۔ مزید یہ کہ وہ ایک جذباتی آدمی ہرگز نہیں اور سیاسی حرکیات کا پورا ادراک رکھتے ہیں ۔ اگر یہ سوفیصد مصدقہ اطلاع ہوئی ، یعنی ایک دوسرا اتنا ہی معتبر ذریعہ تصدیق کردیتا تو پیر کی شام میں یہ خبر اپنے اخبار کو دے دیتا ۔ کوشش کی اور اب تک جاری ہے ۔ وزیراعظم کے لیے یہ تحقیق ممکن ہے اور اس میں کامیابی کا امکان سو فیصد ہے ۔ دل دکھ سے بھرا ہے ۔ سیاسی قیادت سے زیادہ ، جو ان خطرناک حالات میں تعصبات سے اوپر نہیں اٹھ پائی ، اپنے اخبار نویس ساتھیوں کے طرزِ عمل پر ۔ بعض گھر پھونک کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ کسی پر اس کی قوّت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہر چیلنج میں مواقع چھپے ہوتے ہیں ۔ یہ بھی کہ گاہے قومیں تبھی زندہ ہوتی ہیں، جب ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہو۔ خدائی اصول یہ ہے کہ وہ فقط اہلِ اخلاص کا مددگار ہوتاہے ، ریاکاروں کا نہیں ۔ وہ جو حکمت کو عزیز رکھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved