تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-09-2023

’’گھر سے کام‘‘ کا چلن توجہ چاہتا ہے

دنیا بھر میں کارکردگی کا گراف بلند کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ آجر چاہتے ہیں کہ کام کے ماحول میں ایسا بہت کچھ ہو جو اجیروں یعنی کام کرنے والوں کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی تحریک دے۔ اب سوال یہ ہے کہ ماحول میں ایسا کیا ہو۔ کون سا آجر ہے جو نہیں چاہتا کہ اُس کے ادارے میں کام کرنے والوں کی کارکردگی کا گراف بلند نہ ہو؟
ملازمین کی اہلیت اور سکت کو بروئے کار لانے کے حوالے سے ہر آجر کچھ نہ کچھ کرتا ہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں آجر اپنے ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیتے ہیں تاکہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ ملازمین کی قابلیت کو شناخت کرلینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اُن میں کام کرنے کی لگن برقرار رکھنا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ملازمین بھی آجروں ہی کی طرح انسان ہوتے ہیں۔ حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اُن پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ موسم کی طرح دفتر اور کام کا ماحول بھی اُنہیں شدید متاثر کرتا ہے اور اِس کے نتیجے میں وہ اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے نہیں کر پاتے اور ادارے کی ترقی و استحکام میں اُن کا وہ کردار نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔
تین سال قبل جب کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تھا تب دنیا بھر میں ورک فراہم ہوم کا غلغلہ بلند ہوا تھا۔ گھر بیٹھ کر کام کرنے کے چلن نے راتوں رات غیر معمولی مقبولیت پائی۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ ملازمین کام پر آنے اورگھر واپس جانے کے یومیہ سفر سے نجات چاہتے تھے۔ دوسری طرف آجر بھی اخراجات سے پریشان تھے۔ ورک فرام ہوم کا چلن عام ہونے سے اُن کے اخراجات میں معتدبہ کمی واقع ہوئی اور اُنہوں نے طے کیا کہ لوگوں کو گھر بٹھاکر ہی کام جاری رکھا جائے۔ امریکہ، یورپ، چین، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا اور دوسرے بہت سے ترقی یافتہ و خوش حال ممالک میں ورک فرام ہوم نے کام کاج کی دنیا میں مقبول ترین رجحان کا درجہ پایا۔ پاکستان، بھارت اور دیگر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں بھی ورک فرام ہوم کا طریقہ مقبولیت سے ہم کنار ہوا۔ ہمارے ہاں کام کرنے کا یہ ڈھنگ اب تک خاطر خواہ مقبولیت بہر حال حاصل نہیں کرسکا ہے۔ ایک بڑا سبب اِس کا یہ ہے کہ آجر اب تک اِس کے لیے تیار نہیں۔ وہ اس حوالے سے سوچنے کے عادی ہی نہیں۔ بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں میں انتظامی عہدوں پر تعینات افراد اور انسانی وسائل کے شعبے سے جُڑے ہوئے لوگ آجروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ کام اُسی وقت ڈھنگ سے ہو پاتا ہے جب ملازمین سامنے ہوں۔ آجر اب تک یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ گھر پر بیٹھ کر بھی اچھا کام کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اُنہیں بہت کچھ بتانے اور ذہن تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں ورک فرام ہوم ایک بنیادی ضرورت ہے کیونکہ دفاتر اور کام کے دیگر مقامات کے کرائے بہت بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں بجلی اور دیگر بنیادی ضرورتوں پر بہت کچھ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ جب دفتر میں لوگ ہوتے ہیں تو اُن کے چائے پانی پر بھی اچھا خاصا خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ جب تمام ملازمین ایک جگہ ہوتے ہیں تو گپ شپ کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور کام ایک طرف رہ جاتا ہے۔ پھر ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کام پر آنا اور گھر واپس جانا اب محض معمول نہیں رہا بلکہ مستقل نوعیت کے دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں لوگ کام پر جانے ہی میں تھک جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیسے کرسکتے ہیں؟ دوسری طرف کام پر سے تھکے ہارے گھر واپس آنے میں انسان مزید تھک جاتا ہے اور ایسے میں سماجی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی سکت باقی نہیں رہتی۔ عام آدمی صبح سات بجے گھر سے نکلتا ہے اور شام سات بجے گھر میں قدم رکھتا ہے۔ ایسے میں وہ کس طور سماجی معاملات میں بھرپور حصہ لے سکتا ہے؟ جب سارا وقت ہی کام میں کھپ جائے تو انسان تفریح کے لیے وقت کہاں سے نکالے؟
ورک فرام ہوم کا تجربہ ترقی یافتہ دنیا میں ملے جلے اثرات کا حامل رہا ہے۔ یہ طریقِ کار چونکہ واضح منصوبہ سازی کے بغیر اپنایا گیا تھا اس لیے خاطر خواہ نتائج نہیں دے سکا ہے؛ تاہم اس اعتبار سے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملازمین کو قدرے سکون کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ اُن کے سر سے کم از کم یومیہ سفر کا بوجھ تو اُترا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ دفتر یا کسی اور مقامِ کار کے ساتھیوں کی معیت میں فضول باتوں سے بچنے کا موقع بھی ہاتھ آیا۔
اب یہ کہا جارہا ہے کہ گھر بیٹھے کام کرنے کا تجربہ چند ایک منفی اثرات کا حامل رہا ہے۔ یہ نکتہ زور دے کر بیان کیا جارہا ہے کہ ورک فرام ہوم والے ملازمین میں کام کرنے کی وہ لگن برقرار نہیں رہتی جو کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ انسان گھر کے کسی کونے میں دبک کر دفتر کا کام کرے تو اُس میں وہ گرم جوشی باقی نہیں رہتی جو کام کا معیار بلند کرنے کے لیے درکار ہوا کرتی ہے۔ انسان جب دفتر میں یا کسی اور مقام پر ساتھیوں کے درمیان ہوتا ہے تو اُس میں کام کرنے کا جذبہ برقرار رہتا ہے۔ الگ تھلگ رہ کر کام کرنے سے گرم جوشی باقی نہیں رہتی اور کچھ نیا کرنے کا شوق بھی ماند پڑتا جاتا ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔
بیشتر مالکان کا یہ حال ہے کہ وہ ورک فرام ہوم کی صورت میں ملازمین کو دفتر آنے کا بالکل پابند نہیں کرتے۔ یہ غلط سوچ ہے۔ اگر ہفتے میں دو دن دفتر یا کسی اور مقامِ کار پر آنے کا پابند کیا جائے تو ملازمین میں کام کرنے کی بھرپور لگن برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ انسان اگر ہفتے میں دو دن دفتر جائے تو تمام ساتھیوں سے ملاقات بھی ہوگی اور سب اپنی اپنی کارکردگی بیان کرکے ایک دوسرے کے لیے کسی نہ کسی حد تک معاون ضرور ثابت ہوں گے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ورک فرام ہوم کی صورت میں انسان قدرے اُداسی محسوس کرتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ دفتر یا کسی اور مقامِ کار کو زندگی اور معاملات سے بالکل نکال دیا گیا ہوتا ہے۔ یہ طریقِ کار منفی اثرات کا حامل ہے۔ اگر آجروں کی ذہن سازی کی جائے اور اُنہیں بتایا جائے کہ گھر بٹھاکر کام کرانے کی صورت میں بھی اگر ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ تمام ملازمین کو بلاکر اُن سے بات کی جائے، اہداف کے بارے میں پوچھا جائے اور مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہر ملازم میں باقی تمام ساتھیوں سے جُڑے رہنے کا احساس توانا ہوگا اور بالمشافہ ملاقات میں وہ اپنی طبیعت میں تازگی اور شگفتگی محسوس کرے گا۔
پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں ورک فرام ہوم کا طریقہ اپناکر لوگوں کو یومیہ سفر کے جھنجھٹ سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ یوں دوسرے بہت سے اخراجات ختم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ چھوٹا سا یا برائے نام دفتر بھی کافی تصور کیا جائے گا۔ پاکستان جیسے ممالک میں ورک فرام ہوم کی صورت میں آجروں کو اپنے متعدد اخراجات کم کرنے اور منافع کمانے کی صلاحیت بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ متعدد شعبوں میں ورک فراہم ہوم کا تجربہ خاصے مثبت نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو گھر بٹھاکر کام لینے کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ یہ تجربہ زیادہ کارگر اس لیے ثابت نہ ہوسکا کہ اِسے کارگر بنانے کی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔ جنہیں کئی ماہ تک گھر بٹھایا گیا اُن سے کام لینے کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا۔ ہمارے ہاں لاکھوں افراد کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ اُنہیں گھر بٹھاکر کام لیا جاسکتا ہے یا پھر ہفتے میں دو دن بلاکر بھی بہت سے معاملات نمٹائے جاسکتے ہیں۔ جب معاملہ یہ ہو تو پورا دفتر قائم کرنے اور اُسے چلاکر اچھے خاصے اخراجات کی راہ ہموار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ساتھ ہی ساتھ کام کے اوقات گھٹاکر پوری توجہ اور سختی کے ساتھ کم وقت میں زیادہ کام لینے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved