تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     02-10-2013

تہران کے سامنے روشن امکانات

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے نزدیک دشمن کون ہے۔۔۔ تہران یا واشنگٹن ؟ اصل اہمیت اُس حوصلے کو حاصل ہے کہ آپ کس طرح پہلا قدم اٹھاتے ہوئے صحیح سمت کا تعین کرتے ہیں۔ایران کے صدر حسن روحانی کو مسٹر اوباما کی ایک ٹیلی فون کال‘ جو گزشتہ چونتیس سال سے کسی بھی امریکی صدر کی طرف سے ایرانی حکومت سے کیا جانے والا پہلا رابطہ تھا، ایک اہم پیش رفت تھی۔ دونوں ممالک کی گزشتہ برسوں کی تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ قوم پرستی اور انا پسندی کی حامل قوتیں پوری کوشش کریں گی کہ اس سے اگلے قدم میں رکاوٹ ڈالی جائے کیونکہ ان کا مفاد اس امرمیں مضمر ہے کہ ایران کو تنہائی کا شکار کیا جائے۔ میراخیال ہے کہ صدر اوبامانے ایران کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھا کر تاریخ رقم کی ہے؛ تاہم بہت سے محتاط تجزیہ کار اور سیاسی ماہرین اور وہ بھی جن کا اپنا ایجنڈا یہ ہے کہ ایران پر دبائو برقرار رہے، کہیں گے کہ ابھی اس فون کال سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیںکی جا سکتیں اور یہ بات درست بھی ہے، لیکن میں نتائج نہیں بلکہ پیش قدمی اور اس کے لیے درکار حوصلے کی تعریف کررہا ہوں۔ امریکہ جسے عام لوگ خود پسند ملک تصور کرتے ہیں‘ کی طرف سے اپنی انا کو دباتے ہوئے درست سمت میں قدم اٹھانا بہت خوش آئند بات ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آئے گی اور امن کی راہ ہموار ہو گی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر ہم ایران اور امریکہ کو دوستی اور تعاون کی طرف قدم بڑھاتا دیکھیں۔ میری رجائیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایرانی قیادت نے بھی امریکیوں کی بات سنی ہے اور ان سے بات کرنے سے پہلو تہی نہیں کی۔ ایساکرتے ہوئے ایران نے اپنے قومی وقار کا نہ تو سودا کیا ہے اور نہ ہی اس کی خودمختاری پر کوئی حرف آیا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں ایران میں جو سیاسی تبدیلی آئی ہے وہ ایرانی معاشرے میں حقیقت پسندانہ اور لچک دار سوچ کی مظہر ہے۔ حسن روحانی ایک معتدل مزاج اور عملیت پسند انسان ہیں۔ وہ کٹر ذہنیت کی بجائے لچک دار رویہ رکھتے ہیں۔ ان سے پہلے ایرانی صدر سخت گیر شخص تھے اور انہوں نے ہر قدم پر امریکہ کو للکارنے کی قسم اٹھا رکھی تھی۔ حسن روحانی ایسے نہیں ہیں۔ ان کو انتخابات میں اس لیے فتح ملی تھی کیونکہ لوگ ملائیت کے بے بنیاد نعروںسے تنگ آچکے تھے‘ وہ دیگر ممالک کے ساتھ رواداری سے رہنے کے خواہش مند تھے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر عائد پابندیوں کی وجہ سے اس کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔جدید ٹیکنالوجی کی غیر موجودگی میں ایران نہ تو اپنے قدرتی وسائل کو نکال سکتا ہے اور نہ ہی دیگر ممالک کو فروخت کر سکتا ہے۔ اس کی عالمی منڈیوں تک رسائی نہیں ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ایران کے قدامت پسند مذہبی حلقوں کو حقائق کا ادراک ہونا شروع ہو گیا ہے؛ چنانچہ انہوں نے صدر روحانی کو کچھ لچک دکھانے کی اجازت دے دی ہے؛ تاہم اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ایران اپنے جوہری تجربات پر بھی کچھ لچک دکھائے گا یا نہیں ؟امریکہ اور کچھ یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک خاص حد میں رہے اور اس کا کنٹرول ان کے پاس ہو تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنارہا۔ یہ بات طے ہے کہ اگر امریکہ اور ایران میں کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو امریکہ ایٹمی تنصیبات کے باقاعدہ معائنے پر اصرار کرے گا۔ تہران اور واشنگٹن کے سامنے کٹھن راستہ ہے۔ ان کے سفارت کاروں کو نہایت ماہرانہ طریقے سے آگے بڑھنا ہے۔ ایرانی سفارت کاروں کو اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ، ان کی معیشت اور ان کا ایٹمی پروگرام بہرحال عالمی طاقتوں کے مقابلے کے نہیں ہیں؛ چنانچہ اُنہیں نسبتاً سنجیدہ رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اب ان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنی عالمی تنہائی دور کرتے ہوئے عوام کو معاشی مشکلات سے نجات دلائیں۔ ایسا لگتاہے کہ واشنگٹن صدر روحانی کی پوزیشن کو بہتر انداز میں سمجھ رہا ہے۔ درحقیقت وہ محمد خاتمی کے بعد ایران کے پہلے اصلاح پسند صدر ہیں جنہیں ناکام ہوتے دیکھنا ایک المیہ ہوگا۔ بہرحال حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اگر ایران اور مغرب کے درمیان بہت سی برف نہیں پگھلی تو بھی اس کا آغاز ضرور ہو گیا ہے۔ اس علاقے کے ممالک کو جس میں پاکستان بھی شامل ہے، دیکھنا ہو گاکہ اس فون کال کے بعد کیا واقعات پیش آتے ہیں۔ امکان ہے کہ آنے والے ہفتوںیا مہینوں میں طرفین کے سیاست دان حوصلے اورفراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کو ایک پرامن جگہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریںگے۔ ایک فون کال نے یقینا بہت کام کیا ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ ایران کس طرح تنہائی سے نکل کر عالمی برادری کا حصہ بنتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved