ترکی کمپنی کے لیے یہ ایک بم شیل تھا کیونکہ کمپنی کے مالک نے بیانِ حلفی دیا تھا کہ اس نے کنٹریکٹ کے لیے رشوت نہیں دی تھی۔ یہ ایک سفید جھوٹ تھا کیونکہ جوائنٹ انکوائری ٹیم نے وہ سب ثبوت اکٹھے کر لیے تھے کہ کیسے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کو رشوت دے کر یہ کنٹریکٹ لیا گیا۔ سب سے بڑھ کر‘ سیکرٹری پاور شاہد رفیع نے بیان حلفی دے دیا تھا اور پلی بارگین کے تحت پیسے بھی واپس کئے۔ ساتھ میں طریقہ واردات بھی بتادیا۔یہ پاکستانی بیوروکریٹ کا حال تھا جو کبھی میرٹ پر سی ایس ایس کر کے اس ملک اور اس کے عوام کی قسمت بدلنے کے لیے سول سروس میں آیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ملک میں میرٹ آجائے تو پورے ملک کی حالت بدل جائے ‘ ملک ترقی کرے‘ سفارشی لوگوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ میں ہمیشہ ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ یہ پاکستانی بیوروکریٹ تو مقابلے کا امتحان پاس کر کے میرٹ پر اسسٹنٹ کمشنر‘ ڈی سی‘ کمشنر‘ ایس ایس پی‘ ڈی آئی جی یا آئی جی یا دیگر محکموں میں لگتے ہیں‘ انہیں تو نوکری کے لیے کسی کو پیسے نہیں دینے پڑتے‘پھر ان میں سے اکثریت کیوں کرپٹ نکلتی ہے؟ اگر یاد ہو تو بلوچستان کے ایک چیف سیکرٹری کے گھر سے اَسی کروڑ روپے نقدی برآمد ہوئی تھی‘ سندھ میں ایک ڈپٹی کمشنر کروڑوں کا فراڈ کر کے باہر نکل گیا۔ کینیڈا میں سب سے زیادہ شہریت لینے اور اپنے بچوں کو سیٹل کرنے والے پاکستانی پولیس افسران ہیں‘ جنہوں نے وہاں کروڑوں کے گھر لیے ہیں۔ پاکستان سے پیسہ کما کر وہ بچوں کو کینیڈا اور دیگر ملکوں میں بھیج رہے ہیں۔ یہ تھی آپ کی کریم کلاس اور میرٹ پر بھرتی ہونیوالے شاہد رفیع جیسے افسران جنہوں نے اپنے تین چار کروڑ روپے کیلئے پاکستان کو سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کرادیا‘ بدنامی الگ سے کرائی۔ اگر شاہد رفیع سیکرٹری ہونے کے ناتے اس ڈرٹی ڈیل پر دستخط نہ کرتا تو کبھی وزیراعظم ہاؤس‘ فنانس یا پانی و بجلی کی وزارت کے وزیر یا افسران پیسہ نہیں کھا سکتے تھے۔سیکرٹری کسی بھی وزارت کا پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر ہوتا ہے اور اس کے دستخط کے بغیر کوئی پراجیکٹ منظور نہیں ہوسکتا۔ سیکرٹری تو بڑی چیز ہوتا ہے‘ اگر وزارت کا ایک معمولی سیکشن افسر بھی وزیر کے انٹرٹینمنٹ الاؤنس کو منظور نہ کرے تو وہ چائے تک نہیں پی سکتا۔ لیکن بیوروکریسی نے ہمیں ہمیشہ یہی بتایا کہ کیا کرتے‘ وزیر کا دبائو تھا یا وزیراعظم آفس کا دبائو تھا تو کرنا پڑا۔لیکن آپ نہ کرتے تو کیا ہوجاتا؟ آپ کو عہدے سے ہٹا دیتے؟اگلا سیکرٹری پھر ناں کرتا تو کتنے سیکرٹریز کو وزیراعظم ہٹاتا؟ مگر وہ دور گزر گیا جب سیکرٹری ملک اور عوام کے نام پر سٹینڈ لے لیتے تھے۔ وزیر یا وزیر اعظم بھی ان کی قدر کرتے تھے۔ وہ وزیراعظم اور وزیر نہ رہے نہ وہ سیکرٹری اور افسران۔ سب نے سوچا اس گنگا میں اگر وزیراعظم یا وزیر نہا رہا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ یوں جنہوں نے وزیراعظم اور وزیروں کو غلط کاموں سے روکنا تھا انہوں نے سوچا کہ پورے ملک یا عوام کا ٹھیکہ ہم نے اٹھایا ہوا ہے؟ لوگ نعرے ان وزیراعظم اور وزیروں کے مارتے ہیں‘انہیں کندھوں پر اٹھاتے ہیں‘ ووٹ ڈالتے ہیں‘ ان کیلئے آپس میں لڑتے مرتے ہیں‘ انہیں اپنا مائی باپ مانتے ہیں۔عوام اگر لٹ کر خوش ہے تو ہم کیوں اُنکے مفادات کا تحفظ کریں؟یوں بیوروکریسی نے سیاستدانوں کو کرپشن کے طریقے سمجھائے۔ خود بھی کرپٹ ہوئے اور ان حکمرانوں کو بھی کیا۔ بیوروکریسی نے ہر ڈیل میں خود زیادہ کمایا اور سیاستدان یا اپنے وزیروں کو کم مال دلوایا‘ لیکن بدنامی زیادہ سیاستدانوں کی ہوئی اور بیوروکریٹس نے رَج کر کمائی کی۔ چند ایک بیوروکریٹ اگر ایماندار نکل آئے تو انہیں ان کے ساتھیوں نے جینے نہیں دیا۔ انہوں نے ان سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سازشیں کر کے انہیں ہٹوایا اور پھر کھل کر خود بھی کھایا اور انہیں بھی کھلایا۔یوں جسے پاکستان کی کریم کلاس کا درجہ دیا گیا تھا وہ شاہد رفیع کی طرح کنٹریکٹس میں پیسہ بنا رہے تھے۔ اپنے ایک پائو گوشت کیلئے بیوروکریسی کے بابوؤں نے پورا اونٹ ذبح کر دیا۔ ڈی ایم جی افسر شاہد رفیع اس کی کلاسک مثال ہے کہ پانچ سو ملین ڈالرز کے کنٹریکٹ میں چار پانچ کروڑ روپے حصہ لیا جس کے بدلے ملک کا اربوں روپے کا نقصان کررہا تھا‘ بلکہ سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ تک ہوا۔یہ تھا وہ میرٹ پر اسسٹنٹ کمشنر لگنے والا افسر‘ جس کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں ذلیل ہوا ‘ جرمانے بھگتے اور قوم کو مہنگی بجلی کا تحفہ ملا۔
اس دوران ترکی کمپنی کو علم ہوا کہ ان کی کرپشن پکڑی گئی ہے اور عالمی عدالت میں وہ ثبوت پیش ہوئے تو جہاں پاکستان کا جرمانہ ختم ہوگا وہیں اس کمپنی کو ہمیشہ کے لیے عالمی کنٹریکٹس لینے سے بین کر دیا جائے گا۔ کمپنی اور ترکی کی بدنامی ہوگی۔طیب اردوان جو اِس سوا ارب ڈالرز جرمانے کو پاکستان اور ترک کمپنی کا کاروباری مسئلہ قرار دے رہے تھے ‘ انہیں معاملے کی سنگینی کا احساس دلایا گیا۔ انہوں نے فوراًاُس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا‘ عمران خان کو کہا گیا وہ ترکی کی کمپنی کا جرمانہ معاف کرانے میں مدد کر یں۔ عمران خان بھی فوراً تیار ہوگئے اور فوراً ہی اعلان کر دیا کہ ترک بھائیوں نے کیسے پاکستان کے مشکل حالات دیکھ کر اپنا جرمانہ معاف کرنے کا فیصلہ کیا۔اس دوران خان کو بتایا گیا کہ حضور ترکوں نے الٹا ہمیں لوٹا ہے۔ پانچ سو ملین ڈالرز کے کنٹریکٹ میں بڑی کرپشن کر کے ہمارے ڈالرز وہ لے گئے‘ اب جرمانہ ادا کرنے کی باری ترکوں کی تھی۔ اس مشترکہ ٹیم کے ممبران کا بتایا گیا جس نے وہ کرپشن پکڑی تھی۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ اس ٹیم کا منہ بند کرائو‘ اگر زیادہ ہی مسئلہ ہے تو انہیں بیس بیس لاکھ روپے انعام اور پاکستان میڈل دے کر جان چھڑائو‘ ہم نے طیب اردوان کو اکاموڈیٹ کرنا ہے۔ اُن دنوں وزیراعظم عمران خان طیب اردوان‘ ایران‘ ملائیشیا اور قطر مل کر سعودی عرب کے خلاف ایک بلاک بنا رہے تھے۔ طیب اردوان نے عمران خان کی سعودی حکمرانوں سے تعلقات کی خرابی کو استعمال کیا اور نیویارک کی ملاقات میں عمران خان کو سب سے زیادہ پروٹوکول دینے والے طیب اردوان تھے۔ وجہ وہی تھی کہ کس طرح ترکی کی کمپنی کو عالمی عدالت سے بچایا جائے ورنہ ترکی اور ترکی ٹھیکیداروں کی بڑی بدنامی ہونی تھی۔ عمران خان نے ایک لمحے کے لیے اس بات کی پروا نہیں کی کہ جب ہم مشکل میں تھے اور دنیا بھر سے ڈالرز مانگ رہے تھے اُس وقت ترکی کی کمپنی نے پاکستان پر کیس کر کے سوا ارب ڈالر جرمانہ کرا کے مختلف ملکوں میں لوکل عدالت میں کیسز کر کے پاکستانی اثاثوں پر کنٹرول کیلئے کارروائی شروع کرا دی تھی۔ پاکستان بارے دنیا بھر میں اس عالمی عدالت کے فیصلے سے یہی تاثر بنا کہ یہ کرپٹ قوم ہے اور وہاں کرپشن کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان عالمی عدالتوں میں پاکستان بارے ایسے نیگٹو رائے بنی کہ اُن دنوں میں پاکستان نے عالمی عدالتوں میں مقدمات ہارے اور اربوں کے جرمانے ہوئے۔ وجہ وہی تھی کہ پاکستان کا عالمی عدالت میں تاثر بن گیا تھا کہ یہ کرپٹ ملک ہے۔ ہمارے پاس اچھا موقع تھا کہ ہم عالمی عدالت میں پاکستان کی پوزیشن کلیئر کرتے اور ترک کمپنی کو سزا دلواتے‘ اس پر جرمانہ کرواتے‘ الٹا ہم نے خود کو ایک دفعہ پھر ترک کمپنی کی کرپشن کے ثبوتوں کے باوجود اسے کلین اور خود کو کرپٹ ثابت کرادیا اور آپس میں معاہدہ کر کے سوا ارب ڈالرز معاف کرا لیے۔ عمران خان اسی میں خوش میں رہے کہ ہماری ساکھ کی خیر ہے‘ ترک کمپنی پر حرف نہ آئے۔ یوں سوا ارب ڈالرز بچا کر ہم پاکستان کی عزت اور ساکھ کا سودا ترکی میں اس کمپنی کے ساتھ کر آئے جو ویسے بھی بچ جانا تھا ‘لیکن ہم نے ترکوں کی پیٹھ نہیں لگنے دی‘ جنہوں نے عالمی عدالت جا کر ہمارے پاکستان پر ہزار الزامات لگا کر ہمارا لباس کیچڑ سے داغ داغ کیا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved