یقین کریں میں ہر چوتھے دن طے کرتا ہوں کہ اب اگلے کئی روز کوئی سیاسی کالم نہیں لکھنا مگر ہماری سیاست ایسی دلچسپ ہے کہ ہر بار میرے خود ساختہ وعدے کا دھڑن تختہ کر دیتی ہے۔ شکار میں بندوق کے ''ٹھاکے‘‘ سے ڈرے ہوئے پرندے کو یا ‘دامِ ہمرنگ سے بچ کر نکلے ہوئے جانور کو دوبارہ سے گھیرنا خاصا مشکل ہوتا ہے لیکن شکاری ایسے پرندے یا جانور کو اپنے بچھائے گئے جال یا شکار کیلئے بنائی گئی پناہ گاہ کی طرف مائل کرنے یا گھیر کر ادھر لانے کے لیے مختلف Decoys (مرغِ دام) استعمال کرتے ہیں۔تیتر یا بٹیر کے شکاری شکار کو گھیر کر لانے کیلئے ''بلارے‘‘ تیتر یا بیٹر کا استعمال کرتے ہیں۔ یا پھر شکار کو لبھانے کے لیے طعمہ لگاتے ہیں جسے شکاری اسے اپنی زبان میں ''لاوا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ایسا جامع لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ مجھے خود نہیں آتا تو بھلا آپ کو کیسے سمجھاؤں۔ اس کیلئے ملتان کے استاد شاعر مرحوم ممتاز العیشی کے دو سرائیکی شعر لکھ رہا ہوں۔ امید ہے کہ یہ شعر آپ کو ''لاوا‘‘ کا مطلب یا مفہوم کسی حد تک واضح کر دے گا۔ شعر ہے:
تو حسن ہیں میں عشق ہاں تیکوں تیڈی چس میکوں میڈی چس/تیکوں ڈھکدی ناز دی شوخیاں میڈا دم نیاز دا مِٹھا رس
ممتاز میڈا ہر سخن، شالا سنڑے میڈا سجن/لاوا تاں میں وی لائی بٹھاں شالا اوہ پکھی پووے پھَس
میرا خیال ہے اب آپ کو لفظ ''لاوا‘‘ کی سمجھ آ گئی ہو گی۔ دراصل میرے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے، میں سیاست کے ٹھاکے سے ڈرے ہوئے پرندے کی طرح اس سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہوں مگر پھر ایسا ہوتا ہے کہ سیاسی منظر نامے کا کوئی نہ کوئی ''لاوا‘‘ مجھے گھیر گھار کر شکاری کی کمین گاہ کی طرف لے جاتا ہے اور میرے خود ساختہ وعدے کو ملیا میٹ کرکے رکھ دیتا ہے۔
اپنی رہائی اور گرفتاری کے چوتھے یا پانچویں سیزن کے درمیانی وقفے میں یعنی ایک رہائی سے اگلی گرفتاری کے درمیان ایک آدھ گھنٹے کی آزادی کے دوران چوہدری پرویز الٰہی نے بیان دیا کہ انہیں پی ٹی آئی میں چوہدری شجاعت حسین نے بھجوایا تھا۔چوہدری پرویزالٰہی کے اس بیان پر جب اُن سے سوال کیا گیا کہ چوہدری شجاعت نے انہیں تو پی ٹی آئی میں بھیج دیا تو وہ خود پی ٹی آئی میں کیوں نہیں آئے؟ اس پر چوہدری پرویزالٰہی نے جواب دیا کہ چوہدری شجاعت پی ٹی آئی میں سالک حسین کی وجہ سے نہیں آئے۔ وہ اسے وزیر بنوانا چاہتے تھے۔ ماموں کے اس جواب پر اُن کے بھانجے چوہدری سالک حسین نے بصداحترام جواب دیا کہ پوری تحریک انصاف کو معلوم ہے کہ کسے وزیر بننے کا شوق تھا۔ چوہدری شجاعت حسین تین بار پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سے صرف اس لیے ملے کہ وہ مونس الٰہی کو وزیر بنا دیں۔ چوہدری سالک نے کہا: نہ انہیں پہلے وزیر بننے کا شوق تھا اور نہ بعد میں۔ ماموں جان اپنے بیٹے کا غصہ مجھ پر نکال رہے ہیں۔
اس سے پہلے جب چوہدری شجاعت حسین جیل میں چوہدری پرویز الٰہی کو مل کر آئے تھے تو تب چوہدری سالک کے بھائی چوہدری شافع نے کہا تھا کہ چوہدری پرویزالٰہی تو پی ٹی آئی چھوڑنا چاہتے ہیں مگر وہ مونس کی وجہ سے مجبور ہیں۔ دراصل ان کا بیٹا پی ٹی آئی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ اس روز میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے کہ چوہدری پرویزالٰہی پی ٹی آئی کو چھوڑنا چاہتے ہیں جبکہ مونس الٰہی ایسا نہیں چاہتا۔ شاہ جی بڑے زور سے ہنسے اور کہنے لگے: اگر آپ آج چوہدری پرویزالٰہی کی جگہ مونس کو اندر کر دیں اور چوہدری پرویزالٰہی کو سپین بھجوا دیں تو پھر مونس الٰہی پی ٹی آئی چھوڑنے پر رضامند ہو جائیں گے مگر تب چوہدری پرویزالٰہی نہیں مانیں گے۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ جو بندہ سپین میں مزے کر رہا ہو تو بھلا اسے پی ٹی آئی چھوڑنے کی کیا ضرورت یا مجبوری لاحق ہو گی؟ مسئلہ تو اسے درپیش ہے جو جیل میں ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ چوہدری پرویزالٰہی اور شجاعت حسین کے درمیان وجہ ٔاختلاف اور باعثِ نزاع مونس الٰہی کی چوہدری خاندان کی سیاست پر براجمان ہونے کی خواہش ہے۔ چوہدری ظہور الٰہی کی وفات کے بعد چوہدری خاندان کی سیاسی قیادت ان کے فرزند چوہدری شجاعت کے پاس آ گئی۔ چوہدری پرویزالٰہی ان کے سیکنڈ اِن کمانڈ کے طور پر وزیراعلیٰ پنجاب اور بعد ازاں ایک غیر آئینی عہدے یعنی ڈپٹی پرائم منسٹر کا سٹیٹس انجوائے کرتے رہے۔ لیکن جب مسئلہ اگلی نسل کا آیا تو خاندان کی سیاسی وراثت چوہدری شجاعت کے گھر کو دینے کے بجائے چوہدری پرویزالٰہی نے اسے اپنے گھر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے یہ چوہدری پرویز الٰہی کا اپنا فیصلہ نہیں تھا بلکہ ان سے مونس الٰہی نے کروایا اور چوہدری پرویز الٰہی نے مونس الٰہی کی خواہش پر عمل کیا اور خاندان میں سیاسی دراڑ پڑی جو بالآخر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا موجب بن گئی۔ خون کا رشتہ بہت کچھ کروا دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں مال کے ساتھ ساتھ اولاد کو بھی بہت بڑی آزمائش اور فتنہ کہا گیا ہے۔
پنجاب میں اسی طرح میاں شہبازشریف نے اپنے جانشین کے طور پر حمزہ کیلئے اپنے خاندان کی اگلی متوقع سیاسی قیادت کے طور پر بڑی کوشش کی۔ اسے اپنی پنجاب کی آخری وزارت ِاعلیٰ کے دور میں ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ کا غیر اعلان کردہ درجہ بھی عطا کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کایہ بیٹا ملک کی سیاسی باگ ڈور سنبھالے گا اور ان کا نسبتاً بہتر سوجھ بوجھ والا بیٹا کاروبار کی دیکھ بھال کرے گا۔ اس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی‘ جب جنرل غلام جیلانی نے میاں شریف سے ان کے ایک بیٹے کو وزیر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو میاں شریف مرحوم نے اپنا نسبتاً زیادہ سوجھ بوجھ کا مالک بیٹا تو کاروبار چلانے کیلئے رکھ لیا اور کاروباری داؤ پیچ سے نابلد بیٹے کو سیاست کے حوالے کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بے نیاز ہونے کا ثبوت دیا اور قابلیت نے مقدر سے مات کھائی۔ میاں شہباز شریف کی آخری سولہ ماہ کی وزارتِ عظمیٰ نے قدرت کے فیصلے کی تائیدو تصدیق کر دی۔ ان سولہ ماہ نے میاں شہبازشریف کے بطور کامیاب حکمران اور بہترین منتظم ہونے کے غبارے سے اس برے طریقے سے ہوا نکالی کہ وہ ملکی تاریخ کے سب سے ناکام وزیراعظم کے طور پر اپنا نام اَمر کر گئے۔
اقتدار کی محبت بہت برُی چیز ہے۔ اس میں تو باپ بیٹے کا لحاظ نہیں کرتا کجا کر معاملہ ماموں اور بھانجے کا ہو۔ عمران خان مونس الٰہی کو وزارت دینے کے نہ صرف شدید خلاف تھے بلکہ کئی جگہ برملا کہہ چکے تھے کہ وہ مونس الٰہی کو تو کسی طور وزیر نہیں بنائیں گے۔ وہ اپنے اس مؤقف پر بڑا عرصہ ڈٹے بھی رہے اور چوہدری پرویزالٰہی کے ساتھ ساتھ چوہدری شجاعت کو بھی ٹالتے رہے تا وقتیکہ سیالکوٹ کا پی پی 38 کا ضمنی الیکشن آن پڑا۔ اس الیکشن میں پی ٹی آئی نے ہر حال میں جیتنا تھا اور اس حلقے میں چوہدری صاحبان کا خاصا اثرو رسوخ تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی نے اس موقع پر اپنی بارگیننگ پوزیشن کو بلیک میلنگ کی حد تک استعمال کیا اور عمران خان کے کسی وعدے پر یقین کرنے کے بجائے الیکشن میں مدد کو مونس الٰہی کی وزارت سے مشروط کر دیا۔پی پی 38سیالکوٹ میں الیکشن اٹھائیس جولائی 2021ء کو تھا اور مونس الٰہی نے مورخہ 13 جولائی کو وفاقی وزیر برائے آبی ذرائع کا حلف اٹھا لیا۔ اب وہ سپین میں ہیں اور ان کے والدِ محترم جیل میں ہیں۔
ایک بندہ بھاگا چلا جا رہا تھا۔ کسی نے روک کر بھاگنے کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگا: پچھلے چوک میں لوگ ابا جی کے ساتھ گالی گلوچ اور مار پیٹ کر رہے ہیں جبکہ میں وہاں سے عزت بچا کر بھاگ آیا ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved