تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     10-09-2023

پی ٹی آئی وکالت تحریک

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کے اعلامیے کے مطابق انتخابات نوے روز میں کرائے جائیں‘ سیاسی بنیادوں پر گرفتار کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے اور مقتدرہ آئین و قانون میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت ملک بھر کی بار کونسلز میں 14ستمبر کو پُرامن احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے آل پاکستان وکلا کنونشن میں پاکستان بار کونسل کے رہنماؤں نے شرکت نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے لیڈر جس مہم کو تحریک کا نام دے رہے ہیں اس میں پورے پاکستان کے وکلا کی نمائندہ تنظیم شامل نہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے تمام مطالبات کی اگرچہ حمایت کی جا سکتی ہے لیکن اسے تحریک کا نام دینا مجھ جیسے طالب علم کیلئے چند حوالوں سے مشکل ہے۔ تحریک کا لفظ ذہن میں آتے ہی بڑے مقصد کا تصور ابھرتا ہے‘ ایک ایسی تحریک جس میں قوم کی اکثریت شامل ہو‘ اس ضمن میں سب سے بڑی مثال تحریک ِآزادی جبکہ ماضی قریب میں ججز بحالی کیلئے وکلا تحریک کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس میں وکلا کی تمام تنظیمیں‘ سیاسی و سماجی حتیٰ کہ پوری قوم شامل تھی۔ وکلا تحریک یکدم شروع نہیں ہوئی تھی‘ اس کے پیچھے طویل جدوجہد اور کٹھن مراحل تھے۔ مارچ 2007میں پرویز مشرف کی طرف سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا‘ چھ ماہ تک مختلف نشیب و فراز کے بعد نومبر 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ ہوا جس میں 60ججز کو معزول کر کے انہیں گھروں میں بند کر دیا گیا‘ عبدالحمید ڈوگر نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر اس خلا کو پُر کرنے کی ناکام کوشش کی۔ عبدالحمید ڈوگر بظاہر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے لیکن وکلا نے عدالتوں میں پیش ہونا چھوڑ دیا۔ دسمبر 2007ء میں آئین کی بحالی تو ہوئی اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججز نے دوبارہ حلف بھی اٹھایا مگر افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے حلف نہیں اٹھایا‘ اس کے بعد وکلا تحریک میں نیا ٹرن آیا اور تحریک کا دائرہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ یکجہتی میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جواد ایس خواجہ اور ماتحت عدالتوں سے بعض ججز کے استعفے سامنے آنے لگے۔ ایسے اضلاع بھی تھے جہاں پر وکلا مسلسل 10ماہ تک ہڑتال میں رہے اور عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔ مقدمہ چاہے جتنا سنگین نوعیت کا کیوں نہ ہو پیروی کیلئے وکیل ہر درخواست گزار کا قانونی استحقاق ہوتا ہے‘ تاہم وکلا تحریک میں صورتحال مختلف تھی کہ افتخار محمد چوہدری کے خلاف پیروی کرنے اور بیانات دینے کی پاداش میں کئی وکلا کی بار رکنیت منسوخ کر دی گئی‘ ان میں وصی ظفر بھی شامل تھے۔ فروری 2008ء کو جمہوریت کی بحالی ہوئی اور الیکشن کے نتیجے میں منتخب حکومت قائم ہو ئی‘ سادہ اکثریت کی بنا پر پاکستان پیپلزپارٹی اتحادیوں کی مدد سے وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی‘ وکلا تحریک میں چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی ایک پیج پر تھیں اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو چیف جسٹس کے گھر پر قومی پرچم لہرانے کے عزم کا اظہار کر چکی تھیں اس لئے خیال تھا کہ جمہوری حکومت آتے ہی ججز کا معاملہ حل ہو جائے گا لیکن چونکہ پرویز مشرف عہدۂ صدارت پر تھے تو عملی طور پر ایسا ممکن نہ ہو پایا۔ جب 18اگست 2008 ء کو پرویز مشرف عہدے سے مستعفی ہو ئے تو قوی امکان تھا کہ اب جمہوری حکومت اولین ترجیح کے تحت ججز کا معاملہ حل کر ے گی مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوا اور اعتزاز احسن جیسے رہنماؤں کو اپنی ہی پارٹی کے خلاف عملی طور پر سامنے آنا پڑا۔ وکلا قیادت نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ جون 2008ء میں ہونے والا وکلا تحریک کا پہلا لانگ مارچ ناکامی سے دوچار ہوا جو لاہور سے شروع ہوا تھا اور پارلیمنٹ کے سامنے رہنماؤں کے خطابات کے بعد ختم ہو گیا ‘ اس لانگ مارچ میں اعتزاز احسن سمیت وکلا کی سرکردہ تنظیمیں موجود تھیں‘ میاں نواز شریف نے بھی اس میں شرکت کی ‘ لانگ مارچ کو اچانک ختم کئے جانے کے اعلان سے وکلا میں کسی حد تک مایوسی بھی پھیل گئی کیونکہ وکلا پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینا چاہتے تھے۔ مارچ 2009 ء کو وکلا تحریک کے لانگ مارچ کا دوسرا مرحلہ فیصلہ کن ثابت ہوا‘ لانگ مارچ سے پہلے پورے ملک سے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہونے لگے‘ مجھے بخوبی علم ہے کہ لانگ مارچ سے کئی روز پہلے دیگر صوبوں سے جوق در جوق لوگ اسلام آباد میں آنے لگے تاکہ جب لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے تو اس میں شامل ہو جائیں‘ ایک ''ہو کا عالم‘‘ تھا ہر طرف سناٹا تھا‘ گلیاں سنسان ویران ۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ پوری قوم ایک مقصد پر جمع ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ ابھی گوجرانوالہ بھی نہیں پہنچا تھا کہ اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل پیدا ہونے لگی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ججز کو بحال کر دیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ماضی کی وکلا تحریک کے پیش نظر بڑا مقصد تھا جس میں سیاسی جماعتوں سمیت وکلا کی تمام تنظیمیں ایک پیج پر جمع تھیں‘ یوں طویل جدوجہد اور مشکلات کے بعد کامیابی وکلا تحریک کا مقدر ٹھہری۔ اس کے برعکس چند وکلا تنظیموں کی حالیہ مہم کو تحریک کا نام دینازیادتی ہے۔
آل پاکستان وکلا کنونش میں سپریم کورٹ بار کے صدر عابد ایس زبیری‘ اعتزاز احسن‘ لطیف کھوسہ‘ حامد خان‘ احمد اویس‘ اکرم شیخ‘ احمد رضا قصوری‘ نیاز اللہ نیازی‘ توفیق آصف‘ شیخ احسن الدین اور بابر اعوان سمیت دیگر وکلا رہنماؤں نے تقاریر کیں‘ چند ایک وکلا رہنماؤں کی تقاریرکسی تحریک کی بجائے پی ٹی آئی کی وکالت دکھائی دیتی تھیں۔ جو تحریک اپنے ساتھی وکلا کی حمایت حاصل نہ کر سکی اسے ملک گیر تحریک کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟ پاکستان بار کونسل کی عدم شرکت اپنی جگہ اس کنونش کے شرکا نے اپنے ہی ساتھی وکلا کے مؤقف سے اتفاق نہیں کیا۔ ایسی تحریکوں کا کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بروقت عام انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔اگست میں اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو اس حساب سے نومبر کا وسط عام انتخابات کا وقت تھا‘ نومبر کے وسط میں انتخابات کے امکانات نہیں ہیں‘ وجہ ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں ہیں‘ اس تاخیر کی ذمہ دار سبکدوش حکومت اور الیکشن کمیشن ہیں۔ تحریک انصاف موجودہ حالات سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ وکلا کا ایک گروپ پی ٹی آئی کی حمایت میں سامنے آ چکا ہے‘ جس کا ایجنڈا اگرچہ کمزور ہے لیکن یہ مہم کچھ نہ کچھ اثرات ضرور چھوڑ جائے گی۔ اسی طرح پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ صدر مملکت کی موجودگی سے جو فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں کر لئے جائیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے عام انتخابات کی تاریخ کے بلا تاخیر اعلان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ صدر مملکت کی آئینی مدت پوری ہو چکی ہے‘ جب تک صوبائی حکومتیں قائم نہ ہو جائیں ان کے پاس عہدے پر برقرار رہنے کا آئینی جواز موجود ہے‘ مگر ایک ایسا صدر جو سینیٹر رضا ربانی کے بقول اپنی آئینی مدت کے دوران آئین کو برقرار رکھنے میں ناکام رہا اور متعدد مواقع پر آئینی دفعات کی خلاف ورزی کی ‘ وہ اپنی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved