طالبان کا مسئلہ تو حل ہوا۔اب میں کالم کے لیے کسی مو ضوع کی تلاش میں ہوں۔ وزیر اعظم اور علما کی سوچ ہمارے سامنے آگئی۔آرا کی یکسانیت اور خیال کی اِس یک سُوئی کے بعد کہنے کو کچھ باقی نہیں۔وزیر اعظم نے سوال اٹھایا ہے: جب طالبان نے کہہ دیا کہ دھماکے انہوں نے نہیں کیے تو پھر یہ کون کر رہا ہے؟گویا یہ کوئی اور ہے۔ طالبان کی صداقت پر اس ایمان ِ کامل کا اظہار وزیر اعظم کر رہے ہیں جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ اور سب سے مو ثر ریاستی ادارے، حکومت کے سربراہ ہیں۔بالفاظِ دیگر طالبان کا کہنا قولِ فیصل ہے کہ ان سے کسی دروغ گوئی کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔اب اس باب میں تحقیقات کی حاجت ختم ہو گئی کہ طالبان بھی ان واقعات میں ملوث ہو سکتے ہیں۔اس لیے ہمیں ان حملوں کے ذمہ داران کہیں اور تلاش کر نے چاہئیں۔اِن دعوئوں کی صداقت اور عدم صداقت کے باب میں ان امور کے سب سے ممتاز ماہررحیم اللہ یوسف زئی کی ایک رپورٹ دو دن پہلے شائع ہو چکی ’جب پشاور کے ایک کلیسا پر خود کش حملے ہوئے‘۔ انہوں نے بتا یا ہے کہ ذمہ داری کیوں قبول کی جاتی ہے اورکب اس سے انکار کیا جا سکتا ہے۔لیکن ایسے تجزیے بے معنی ہیں جب وزیر اعظم جیسی ذمہ دار شخصیت نے ایک بات دوٹوک لہجے میںکہہ دی۔ علماء کرام کا انصاف بھی ہم نے دیکھ لیا۔ان کا اعلامیہ میرے سامنے ہے۔ریاست اور طالبان کے درمیان بلا کا یہ توازن ان کی اپنی بنائی گئی منطق ہی کا ثمر ہو سکتا تھا۔ قانون اور قانون شکنی،ریاستی نظام اور غیر ریاستی عناصر، قاتل اور مقتول،امن اور بدامنی،عمرانی معاہدہ اور اس کا ابطال، ان سب کو علما نے جس طرح ایک آنکھ سے دیکھا ہے،اس کے بعد کیا اس مو ضوع پر کچھ کہنے کی گنجائش باقی ہے؟اگر کوئی دقتِ نظر کے ساتھ اس اعلامیے میں کسی طرح کاجھکاؤ تلاش کر سکتا ہے تو وہ طالبان ہی کی طرف ہے۔علما ہمارے سماج کی سب سے مو ثر غیر حکومتی تنظیم کے نمائندے ہیں۔ان کا نقطہ نظر ہم نے جان لیا۔حکومت کی بات میں کر چکا۔عمران خان اور سید منور حسن کے خیالات سے کون واقف نہیں ۔کیا ہمارے ہاں کسی مسئلے پر اس سے بڑا اتفاقِ رائے کبھی وجود میں آیا؟اگر کوئی کسر باقی ہے تو وہ طالبان ان شاء اللہ خود پوری کر دیں گے۔ان کا حلقہ اثر پھیل رہا ہے۔ پنجاب بھی اس سے باہر نہیں۔سنا ہے یہاں بھی علما کی عدالتیںقائم ہو رہی ہیں۔اب افغانستان کی طرح یہاں بھی لو گوں کو امن ملے گا اور انصاف بھی۔مستقبل کے پاکستان کا نقشہ اب پوری طرح واضح ہے۔کیا اس کے بعد بھی اس مو ضوع پر کچھ لکھنے کی ضرورت باقی ہے؟ اگر طالبان نہیں تو پھر کس مو ضوع پر لکھا جائے؟پاکستان میں ان دنوں مذہبیت اور لبرل ازم کی بات ہو تی ہے۔ چند روز پہلے مجھے بھی ایک ایسے سیمینار میں مدعو کیا گیا ۔یہاں پاکستانی سماج کے فکری ارتقا کو مو جودہ نظری کشمکش کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی گئی۔اس باب میں میرا ایک نقطہ نظر ہے۔کیا اس پر بات کی جائے؟پھر خیال آتا ہے کہ اب اس کی کیا ضرورت ہے۔یہ مسائل اب وہ طے کریں گے جن کے ہاتھ میں زمام ِ کار ہوگی۔ اب مجوزہ پاکستان بھانت بھانت کی بولیاں بو لنے والوں کی آماجگاہ تو نہیں ہو گا۔اس کا حاصل انتشارِ فکر کے سوا کیا ہے؟فکری بحثیں آسو دہ حالوں کی عیاشی ہے۔ہمیں کسی نئے فکر کی ضرورت ہے نہ کسی نادر تحقیق کی۔لوگ اسے اپنے پاس رکھیں۔دین مکمل ہو گیا۔ فقہ آخری صورت میںمر تب ہوگئی۔اس کے باوصف اگر بالفرض کوئی ضرورت پیش آئی تو علما ہیں نا!ریاست انہیں نامزد کر دے گی۔کیا طالبا ن نے علما کی ایک شوریٰ نہیں بنا رکھی؟ یہی کسی کے قتل یا معا فی کا فیصلہ کرتی ہے۔ کسی دوسرے کو ذہنی مشقت اٹھانے کی اب کوئی ضرورت نہیں۔اس لیے اب اس مو ضوع پر لکھنا بھی وقت اوراخبار کی جگہ کا ضیاع ہے۔ کہتے ہیں پاکستان میں فلم انڈسٹری پھر سے زندہ ہو رہی ہے۔نیا تخلیقی جوہر سامنے آرہا ہے۔پاکستان کی فلم آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہو رہی ہے۔کیا اس خبر کو مو ضوع بنا یا جائے؟ اس پر سوچتا ہوں تو اپنی حماقت پر خود ہی ہنس پڑتا ہوں۔ایک مسلمان معاشرے میں کیا اس لہو و لعب کی گنجائش ہو سکتی ہے؟یہ فتنہ تو دراصل نئی دجالی تہذیب کا تحفہ ہے جو مسلمان معاشروں کو ان کی اخلاقی اقدار سے دور کر نے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔فنون لطیفہ کی ان سب اقسام کا حاصل اخلاقی فساد کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔فلم ،تصویر، مجسمہ سازی، مخلوط معاشرت اور مو سیقی جیسے ممنوع افعال کا اجتماع ہے ۔ہم انہیں کیسے گوارا کر سکتے ہیں۔اس لیے فلم انڈسٹری کے احیا پر زیادہ خوش ہو نے کی ضرورت نہیں۔یہ محض چند دنوں کی مہمان ہے۔لکھنا ہے تو ایسے مو ضوع پہ قلم اٹھاناچاہیے جس کا کوئی مستقبل ہو۔چند دن تک جس کا تذکرہ رہے۔ کرکٹ اور ہاکی کا زوال بھی تو ایک مو ضوع ہو سکتا ہے؟میں بہت دنوں سے اس پر کچھ لکھنا چاہتا تھا۔میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب کسی سماج میں زوال آتا ہے تو وہ ہمہ گیر ہو تا ہے۔یہ ممکن نہیں کہ معاشرہ زوال کی ڈھلوان پر لڑھک رہا ہو اور کسی ایک شعبے میں عروج ہو۔کرکٹ میں یہی ہو رہا ہے اور ہاکی میں بھی۔میں بس یہاں تک ہی سوچ سکا کیونکہ مجھے یہ موضو ع بھی غیرضروری لگا۔ہاکی کیا ہے؟ مسلمان نوجوان گھٹنے ننگے کیے میدان میں دوڑ رہے ہوتے ہیں اور قوم کی جوان بیٹیاں انہیں دیکھ رہی ہو تی ہیں۔کرکٹ تو ہے ہی انگریزوں کی سازش۔پانچ دن کھیلتے رہو اور کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ ہم اتنا وقت کیسے ضائع کر سکتے ہیں؟اب وہی کھیل کھیلا جا ئے گاجو ہماری مذہبی اور سماجی اقدار کے مطابق ہوگا۔مثلاً گھڑ سواری، نیزہ بازی۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں ان دونوں کھیلوں کے بارے میں کچھ نہیں جا نتا۔اس لیے ان پر بھی کچھ لکھنے سے رہا۔ تو پھر میں کیا لکھوں؟کس موضوع پہ قلم اٹھاؤں؟مذہب پہ میرا لکھنا معتبر نہیں کہ کسی مدرسے کا سند یافتہ نہیں۔ میں سیاست میں جمہوریت اور اختلافِ رائے کا قائل ہوں اور اب یہ فکری پراگندگی کے سوا کچھ نہیں۔ویسے جمہوریت ہے بھی غیر اسلامی ۔فنونِ لطیفہ وغیرہ سب لغو ہیں اور اخباری کالم میں لغویات کا کیسے گزر ہو؟کھیل؟ یہ محض وقت کا ضیاع۔ تعلیم؟ یہ میرا نہیں، ریاست کا کام ہے۔تو میں کیا کروں؟کیا کوئی اور ذریعہ معاش تلاش کروں؟لیکن یہ کیسے ہو؟ مجھے تو کوئی دوسرا ہنر نہیں آتا۔ایک دفعہ کاروبار کی کوشش کی اور ایک نیک آدمی کو چند لاکھ دیے کہ میری جمع پونجی یہی کچھ تھی۔اب میں منہ چھپاتا پھرتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھ کر کہیں شر مندہ نہ ہو۔سوال یہ ہے کہ جب لکھنے کے سوا کوئی کام نہ آتا ہو تو کیا کروں؟ہاں! یاد آیا ایک مو ضوع باقی ہے۔ موسم!تو سنائیں موسم کیسا ہے؟لگتا ہے سردی کی آمد کچھ مو خر ہو گئی۔اگر بارش ہو جا تی تو…!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved