ایک غیر ملکی سفیر ان دنوں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کسی اہم سیاسی جماعت یا سرکاری ادارے کے سربراہ سے آپ کی ملاقات نہ ہوتی ہو۔ گزشتہ دنوں آپ چیف الیکشن کمشنر سے ملے میں آپ نے پاکستان میں قوانین اور آئین کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اپنے ملک کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔مگر بادی النظر میں ان غیر سفارتی سرگرمیوں پر بعض حلقوں میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ یہ غیر معمولی نقل و حرکت اور ملاقاتیں سفارتی آداب کے مطابق ہیں؟ چیف الیکشن کمشنر سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے دفتر خارجہ کا بیان سامنے آچکا ہے کہ اُنہیں ایک غیر ملکی سفیر سے ملاقات سے قبل دفترِ خارجہ سے اجازت حاصل کرنی چاہیے تھی۔ یہاں یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ تقریباً ایک سال قبل ایک غیر ملکی سفارتی اہلکار لاہور میں اپنی تعیناتی کے دوران پنجاب کے مختلف علاقوں میں بظاہر بے وجہ گھومے پھرے جبکہ سننے میں یہ آتا ہے کہ وزارتِ داخلہ اور خارجہ کی جانب سے ہدایات ہیں کہ سفارتی نمائندے اپنی حدود سے باہر جانے سے پہلے متعلقہ اداروں سے اجازت لیں۔
ابھی الیکشن کمیشن سے محترم سفیر کی ملاقات کو چند روز ہی گزرے ہوں گے کہ مری میں ایک سیاسی رہنما سے ان کی ملاقات کی خبریں سنائی دینے لگیں۔واقعات سے واقعات کا سلسلہ جڑتا ہے اور مذکورہ ملاقات سے توجہ جولائی1996کی اُس ملاقات کی طرف مبذول ہوئی جو پنجاب کے اسی مقام پر ہوئی۔ ملاقات کرنے والی امریکی سفارتی اہلکار مسز رابن رافیل تھیں جنہوں نے ملک کی ایک ابھرتی ہوئی سیاسی شخصیت کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے کیلئے اسلام آباد سے مری کی سفر کیا‘ اور اس ملاقات کے چند روز بعد مذکورہ پارٹی کے سینئر اراکین نے اُس وقت کے پانچ بڑے صحافیوں کوایک دعوت پر مدعو کرکے ان سے گزارش کی کہ ان کی حکومت آ رہی ہے‘ برائے مہربانی پہلے تین ماہ ان پر ہاتھ ہولا رکھیں۔یہ جولائی 1996ء کی بات ہے جب ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت قائم تھی اوراس کے خاتمے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ صدر فاروق لغاری خود حکمران جماعت سے تھے اور انہیں وزیر اعظم سے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ اس سے تو یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ سفیر گویا سیاسی تقرر نامہ دینے مری گئیں۔ اس ملاقات کے بعد ہی صدر نے حکومت کو کرپشن کے الزام پر فارغ کر دیا۔ اب کہا تو یہ جا رہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات کے لیے کچھ حلقوں نے15 فروری2024ء کی تاریخ طے کر رکھی ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سفارتی حلقوں کو اس کا علم نہ ہو ۔تو کیا ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اسی تیاری کے سلسلے میں ہے؟
کسی بھی ملک میں ہونے والے انتخابات میں عالمی دلچسپی ہمیشہ سے ایک معمول رہی ہے اور انتخابی عمل کو ہر ملک کی طرف سے دلچسپی سے دیکھا جاتا ہے ‘ اسی سے انتخابات کی شفافیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال اگر یہاں دیکھنے کو ملے تواس پر کوئی حیرت نہ ہو‘ لیکن دلچسپی اگر خلافِ معمول کچھ زیادہ ہی پائی جائے تو بہت سے خیالات اور خدشات کا ابھرنا قدرتی امر ہے۔اس طرزِ عمل سے قومی خود مختاری پر بھی سوال اٹھتا ہے‘ مگرافسوس کہ سیا ستدانوں کی دیکھا دیکھی بیوروکریسی بھی سفارتی ملاقاتوں کی دل دادہ معلوم ہوتی ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ ہمالیہ سے بلند دوستی کا ثبوت رکھنے والے چین نے بھی کبھی الیکشن کمیشن یا دیگر افسران سے یوں ملاقاتیں کی ہوں ۔کیا ان افسران نے آج تک کسی سفارتی اہلکار سے کی جانے والی ملاقات کی رپورٹس اور بریف حکومت کو بھیجا ہے؟ کیا چینی قونصل جنرل نے تحصیلوں کی سطح پر جا کر وزٹ کئے ہیں؟ جہاں تک مجھے لگتا ہے تو چین پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور چین کی یہ پالیسی صرف پاکستان تک محدود نہیں‘دنیا کے جس جس ملک میں چین نے جامع معاشی منصوبے شروع کر رکھے ہیں‘ ہر اُس ملک کے لیے اسی کی یہی پالیسی ہے۔ چین کے ترقیاتی وژن کا کوئی دوسرا ملک مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ نہ صرف خود ترقی کی منازل طے کرنے کا خواہاں ہے بلکہ اپنے ترقی کے اس سفر میں علاقائی اور دوست ممالک کو بھی اپنا ہم سفر بنانا چاہتا ہے‘ لیکن دوسری طرف بعض ملک اپنی چال بازیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ اب ان ممالک کے سفارت کاروں کے دوسرے ممالک میں طوفانی‘ ہنگامی اوراچانک دوروں کے مقاصدکیا ہیں‘یہ ابھی تک پردۂ راز میں ہونے کے باوجود ظاہر و باہر ہے ۔
یہ درست ہے کہ انتخابات کو مانیٹر کرنے کے لیے دنیا بھر سے میڈیا کی آمد ہمیشہ کا ایک معمول رہا ہے اور ایک خبر کے مطابق آئندہ عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے بھی عالمی میڈیا کے نمائندوں کے لیے دعوت نامے تیار کیے جا رہے ہیں لیکن سفارتی عہدیداروں اور میڈیا ارکان میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سفارتی عہدیداروں کے اس قسم کے طر زِ عمل کو مداخلت کا نام دیا جا سکتا ہے‘ لیکن بد قسمتی یہ کہ یہاں پوچھنے والا کون ہے؟ اپنے دفاتر کی چار دیواری کے اندر جھانکنے تک کی اجا زت نہ دینے والے سفارت کار یہاں بے روک ٹوک آتے جاتے اور بظاہر مداخلت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ کھوج تک لگارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے لیے کن کن جماعتوں کے آپس میں اتحاد بن رہے ہیں؟ مئی2013ء میں جب ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے تو ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں ہونے والا اتحاد ایک غیر ملکی سفارت کار کی مداخلت کی وجہ سے سبوتاژ ہوا۔ میڈیا اگر یہ معلومات اکٹھی کرے کہ کون کون سی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ کن کن نشستوں پر سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کر رہی ہیں تو یہ ان کے فرائض میں شامل ہے لیکن سفارت کاروں کو اس حد تک نہیں جا نا چاہئے۔ شنید ہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے مختلف سیا سی جماعتوں کے اندرونی حلقوں اور قیادت سے سماجی اور سیاسی رابطے بڑھ رہے ہیں جو کہ کوئی حوصلہ افزا عمل نہیں ہے۔
مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد صدر زرداری نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ یہ ریٹرننگ افسران کے نتائج ہیں کیونکہ اس وقت یہ اطلاعات تھیں کہ ایک غیر ملکی وفد نے‘ جس کی قیادت سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین نے کی تھی‘ پاکستان میں اپنے سفیر کے ہمراہ دو دفعہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائدین سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اُس وقت کے غیر ملکی قونصل جنرل نے اپنے ماتحت سفارتی اہل کاروں کے ذریعے پنجاب کی بیورو کریسی اور سیاسی لیڈران سے بھی ملاقاتیں کی تھیں‘ شنید ہے کہ ان ملاقاتوں میں 2013ء کاانتخابی دنگل زیر بحث رہا ۔کیا ایک بار پھر مئی 2013ء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved