سچی مچی کے نازک موڑ پر کھڑی مملکتِ خداداد کو درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونے کیلئے کڑے فیصلوں کی خبر گرم ہے۔ خدا کرے کہ یہ خبر ہر خبر کی طرح جھوٹی نہ ہو کیونکہ ہمارے ہاں ہر دوسری خبر پہلی خبر کے برعکس اور اس کی تردید ہی نکلتی ہے۔ ہواؤں کے رُخ بدلنے کے اشارے اور استعارے بھی برابر مل رہے ہیں۔ مصلحتیں اور مجبوریاں آڑے نہ آئیں تو شاید یہ ہوائیں جھکڑ اور تیز آندھیوں میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ طوفان بھی بن سکتی ہیں جسے ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ پون صدی سے اپنی مٹھی میں بند کیے ہوئے ہے۔ ان مٹھیوں کی گرفت ڈھیلی اور کمزور پڑتی بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن یہ دھڑکا بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کہیں اس بار بھی یہ سبھی کارروائیاں نمائشی اور وقتی ہی ثابت نہ ہوں‘ کیونکہ ماضی میں بھی ایسے کریک ڈاؤن کیے جاتے رہے ہیں جو سر بلندوں کو سرنگوں کرنے کے علاوہ مزاحمت کی جرأت کرنے والوں کو زیر عتاب کر کے ان اہداف کے حصول میں مگن رہے جن کے تحت احتساب اور مکافاتِ عمل جیسے بیانیوں کی برانڈنگ مقصود تھی۔
سندھ میں آئی جی کی حالیہ تقرری بھی کسی استعارے اور اشارے سے ہرگز کم نہیں۔ اس تناظر میں یہ گمان بھی غالب ہے کہ کریک ڈاؤن کی بڑی کارروائیاں اور ہوش اُڑا دینے والی خبریں سندھ کے ان مخصوص شہروں اور علاقوں سے آئیں گی جہاں کریک ڈاؤ ن کی وجوہات پلتی اور برابر پرورش پاتی چلی آ رہی ہیں۔ آئی جی کا انتخاب ہی بہت سارے سوالوں کا جواب ہونے کے ساتھ ساتھ کھلا پیغام بھی ہے کہ گلشن کا کاروبار اب اس طرح نہیں چلے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اب مخصوص اشرافیہ کے اشاروں کے بجائے قانونی تقاضوں کے مطابق فیصلے اور راستہ لیں گے۔ شاید اسی لیے بلاول بھٹو آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے پر مسلسل زور دے رہے ہیں کیونکہ مسلسل پندرہ سال جنہوں نے بلاشرکت غیرے اس صوبے کی انتظامی مشینری کو اشاروں پر چلایا اور وسائل کو بھنبھوڑا‘ انہیں اقتدار سے دوری کب برداشت ہوتی ہے۔
مجھے نجانے کیوں خوش گمانی ہو چلی ہے کہ ہنرمندانِ ریاست اس بار کالے دھن پر کھڑے سومنات کے پجاریوں پر کڑا ہاتھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ اس دھن راج کا خاتمہ بھی کر ڈالیں گے جو کئی دہائیوں سے راج نیتی کو گھر کی باندی بنائے ہوئے ہے۔ آتے جاتے اور باریاں لگاتے یہ سبھی سماج سیوک نیتا نسل در نسل حکمرانی کے لیے کیسی کیسی منصوبہ بندی اور پیش بندیاں کر کے گئے ہیں کہ جیسے یوں گئے اور یوں اقتدار میں واپس آئے۔ جوں جوں یہ برسرِ اقتدار آتے رہے توں توں عوام مرگِ نو سے دوچار ہوتے رہے۔ ان کا ہر دورِ اقتدار عوام کی بربادی اور ہلاکت کا باعث ہی بنا ہے۔ یہ ایک بار پھر واویلا کرتے نظر آتے ہیں کہ بس جیسے تیسے الیکشن ہو جائے اور یہ سبھی منہ کو لگے اقتدار کی لت میں پھر لت پت ہو جائیں۔ جوں جوں ان کے کالے دھن کے انبار لگتے چلے گئے توں توں خون بھی سفید ہوتا چلا گیا۔ عوام سے وابستگی تو درکنار انہیں مادرِ وطن سے بھی کوئی سروکار ہے نہ کوئی لگاؤ۔ دھرتی ماں کا مل کر خون پینے والے خون شریک بھائیوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے۔ سندھ میں کئی دہائیاں شوقِ اقتدار پورے کرنے والے ہوں یا پنجاب میں آٹھ مرتبہ حکمرانی کے مزے لوٹنے والے‘ یہ خاندان وفاق میں بھی کئی باریاں لگانے کے باوجود کہیں رُکنے اور تھکنے کا نام نہیں لے رہے جبکہ عوام کی کئی نسلیں ان کی حکمرانیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے کہیں زندہ درگور تو کہیں قبروں میں جا سوئی ہیں۔
ہنرمندانِ ریاست اگر واقعی اس بار سنجیدہ ہیں تو خدارا الیکشن الیکشن کھیلنے کے بجائے اس سیاسی اشرافیہ سے ماضی کے سبھی انتخابات کا حساب تو طلب کریں۔ اس مینڈیٹ کا بھی حساب لیں جسے یہ کھلے عام منڈیاں لگا کر اور کبھی بند کمروں میں بیچتے رہے ہیں۔ اگلی نسلوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر پر براجمان دیکھنے کے ان خواہشمندوں سے تو یہ بھی پوچھا جانا عین منطقی ہے کہ کس ڈھٹائی بے دردی سے ملکی خزانہ لوٹتے اور وسائل پر ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں۔ یہ ہوشربا ترقیاں‘ صبح شام انڈے بچے دیتی فیکٹریاں‘ ملیں اور کمپنیاں کہاں سے آگئیں؟ نہ ختم ہونے والے رقبے‘ اراضی‘ محلات‘ کوٹھیاں‘ بنگلے اور قافلوں کی صورت سڑکوں پہ دندناتی بیش قیمت لگژری گاڑیاں کونسی لاٹری میں نکلی تھیں؟ بے نامی جائیداوں‘ اکاؤنٹوں کے علاوہ بیرون ملک جائیدادیں اور اثاثے کون سے من و سلویٰ میں اترے تھے؟ جوں جوں حکمرانوں کے دن سنورتے چلے گئے‘ عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ اب یہ عالم ہے کہ مملکتِ خداداد میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائشی طور پر اس ناقابل برداشت قرضے کا نادہندہ ہے جس سے اس کو لینا دینا ہے اور نہ ہی اس کے آباؤ اجداد میں کوئی بینی فشری رہا ہے۔ ملکی خزانے کے ساتھ ساتھ یہ تو مفادِ عامہ کے نام پر‘ لیے جانے والے بھاری اور کڑی شرائط والے بیرونی قرضے بھی اپنے اللّے تللّوں اور شکم پروری میں اُڑا چکے ہیں۔ ایک اور الیکشن کروا کر ان کے منہ کو لگی اقتدار کی لت کو کیا پھر تازہ دم کرنا ہے؟ یہ دردناک روداد صرف دو خاندانوں کی ہے جو ملک کی عمر ِعزیز کا نصف سے زائد عرصہ کھا چکے ہیں۔ ان کے پیروکاروں‘ رشتے داروں اور سہولت کاروں کی تفصیل میں جائیں تو مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق ایسی ایسی چونکا دینے والی وارداتیں ریکارڈ پر موجود اور زبان زد عام ہیں کہ کم مایا بستیوں اور واجبی پس منظر رکھنے والے اقتدار کے ایوانوں میں یونہی نہیں جا پہنچے۔ ان دونوں خاندانوں کو اپنے ہر حرام کام میں شریک اور معاون ایسے خوشامدی چیلے سہولت کاروں کی صورت میں میسر آتے چلے گئے جو اِن کے دست و بازو بن گئے۔ اسمبلیوں سے لیکر انتظامی دفاتر تک ایک ایسا لشکر تیار کر ڈالا جو ایک اشارے پر قانون اور ضابطوں سے لیکر غیرتِ قومی کو بھی فراموش کرتا چلا گیا۔ ان کے سر چڑھے سرکاری بابوؤں کی فہرست کو‘ طویل ہونے کے باوجود سبھی جانتے ہیں۔ دور دراز شہروں اور قصبوں سے بستر اور ٹرنک لیکر آنے والے ان سرکاری بابوؤں کی شان و شوکت اور لائف سٹائل تو ملاحظہ فرمائیں۔ ان کی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کریں تو یہ عقدہ بھی کھل جائے گا کہ یہ ریاست کے نہیں بلکہ اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کے حکم کے غلام ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ کاروباری اشرافیہ بھی اس گٹھ جوڑ میں اس طرح فٹ ہو چکی ہے کہ یہ سبھی ایک دوسرے کی ضرورت بن کر ''مال لگاؤ اور مال بناؤ‘‘ جیسی بدعتوں کے پرچارک ہیں۔ خبر یہ بھی گرم ہے کہ ان سبھی ضرورت مندوں کے گرد یکساں گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ خدا کرے کہ اس بار یہ گھیرا تنگ ہوتے ہوتے پھندہ بن جائے کیونکہ ماضی میں یہ سبھی ایسے گھیرے توڑنے کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازوں کو بھی گھیر کر ساتھ ملاتے اور صاف بچتے رہے ہیں۔ ایسے میں ایک اور الیکشن‘ ایک اور منڈی‘ ایک اور کھلواڑ خدارا اب نہیں! خدا کے واسطے اس دھرتی پہ بسنے والوں کے حال پر رحم کریں۔ اس بار مصلحتوں‘ مجبوریوں اور ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ کر وہ کڑے فیصلے کر ڈالیں جو ہر دور میں صرف تقریروں اور بھاشنوں میں بھٹکتے رہے۔ اگر یہ فیصلے آج نہ کیے توآنے والا وقت اور آنے والی نسلیں ان کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved