بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کے کچھ ہی عرصہ بعد لیاقت علی خان کا قتل سکیورٹی سٹیٹ کے تخلیق کی طرف پہلا قدم ثابت ہوا۔ دوسری جانب منصوبے کے عین مطابق برطانیہ نے ابتدائی چند سالوں ہی میں ملک بنانے والی قومی لیڈر شپ کو بدنام کرکے ٹھکانے لگانے کے بعد ''سرزمین بے آئین‘‘ کو اُن قوتوں کے سپرد کر دیا جو مغربی استعمار کے عالمی مقاصد کی تکمیل کے لیے تیار تھے۔ ایوب خان نے دس سالہ دورِ حکمرانی میں مقبول سیاسی قیادت کو کچلنے کے علاوہ دو ایسے کام کیے جو سقوطِ ڈھاکہ کی بنیاد بنے۔ ایک تو چھوٹے قد کو جواز بنا کر بنگالیوں کی فوج میں بھرتی روک کر انہیں طاقت کے بنیادی ڈھانچے سے دور رکھا گیا۔ دوسرا‘ تربیلا اور منگلا ڈیموں کی تعمیر کے دوران دانستہ طور پر مغربی پاکستان کے مزدوروں کی تین روپے اور بنگالی مزدور کی ڈھائی روپے دیہاڑی مقرر کرکے دس سالوں تک ذہنی تفریق کی زہریلی فصل کاشت کی گئی۔ بنگال کے سابق گورنر جنرل اعظم خان نے اپنی سوانح میں لکھا: جب میں نے ایوب خان کو بنگالیوں کی کسمپرسی بارے بتایا تو ان کا جواب تھا ''یہ بنگالی...ہیں، انہیں بھوکا رکھو‘‘۔ اشرافیہ یہ رویہ دراصل بنگالیوں کو علیحدگی کی طرف دھکیلنے کی اسی سکیم کا حصہ تھا جسے برطانیہ نے ہندوستان چھوڑنے کے بعد پہلی تین دہائی میں عملی جامہ پہنانا تھا؛ چنانچہ استعمار کے ایما پر اس منصوبے کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ ہٹائی گئی۔
حسین شہید سہروردی آخری بنگالی لیڈر تھے جو مشرقی پاکستان کو متحد رکھ سکتے تھے، انہیں بیروت میں قتل کر دیا گیا۔ پنجاب میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو ٹھکانے لگایا گیا۔ سندھی لیڈر شپ اور بلوچ سرداروں سے سختی سے نمٹنے کے علاوہ بابڑ میں سرخ پوشوں کے قتل عام جیسے سانحات کے ذریعے سیاسی تشددکی آبیاری کی گئی۔ مملکت کی آزادی کی ماہیت اور قومی پالیسی پہ سوال اٹھانے والے شعرا، ادیبوں اور صحافیوں کو اذیتیں دینے کے علاوہ سرخ انقلاب کا ہوّا کھڑا کرکے ایسی تحریکیں برپا کی گئیں جو کمیونزم کی مخالفت کے جنون میں مغربی استعمار کی ہر پالیسی کی حمایت پہ کمربستہ ہو گئیں ۔ اسی الٹ پھیر میں ہمارے معاشرے میں ایسی مصنوعی نظریاتی کشمکش کو وجود ملا جس نے عالمی طاقتوں کی سازشوں کو نقابِ ابہام فراہم کیا۔ دائیں بازو کی قوتیں انقلاب کے نعروں کی گونج میں اشرافیہ کی حمایت میں آگے بڑھتی چلی گئیں۔ تقسیمِ بنگال کے وقت سی آئی اے نے جرائم پیشہ گروہوں کی مدد سے بنگال میں کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کی طرز پر ایسا ہولناک تشدد پروان چڑھایا جس نے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہاکر معاشرتی ڈھانچے کو اجاڑنے کے علاوہ مقبول لیڈر شپ کو نگل لیا، یعنی عام آبادی کے ساتھ سیاسی اشرفیہ میں بھی جہالت اور بے حسی کی مطلوبہ سطح کو یقینی بنایا گیا۔ دوسری جانب بہت سے افراد نہ صرف امریکہ کے کنٹرول میں تھے بلکہ واشنگٹن کی پالیسی پہ عملدرآمد کرانے میں بھی شامل تھے۔ قصہ کوتاہ عالمی طاقتوں کی معاونت سے ایک طرف بائیں بازو کی پروگریسو جماعتوں، سیاسی کارکنوں، دانشوروں، صحافیوں اور سماجی سائنسدانوں کو قوت سے دبایا گیا، دوسری طرف استعماری سرمایے سے یہاں دائیں بازو کے دانشوروں پر مشتمل ایسی مرعات یافتہ کلاس پیدا کی گئی، جو عالمی ایجنڈے کی تکمیل اور خارجی مقاصد کی خاطر انسانوں کو استعمال کرنے میں مفاد ڈھونڈنے لگی۔ چنانچہ پچھلے سات عشروں میں لڑی جانے چھ جنگوں خاص طور پر افغانستان میں روس کے خلاف طویل گوریلا جنگ اور بیس سالوں پہ محیط امریکہ کی جنگِ دہشت گردی میں لاکھوں انسانوں کو استعمال کرکے پورے خطے کو عالمی کشمکش کا میدان کارزار بنانا بھی مشرقِ بعید پہ امریکی تسط قائم کرنے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ تاہم افغانستان سے امریکی افواج تحقیر آمیز انخلا کے بعد بالآخر وہ صبح طلوع ہوگئی جس کی امید پہ مسلمانانِ ہند نے آزاد مملکت کا خواب دیکھا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ''مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا‘‘میں ہمارے اجتماعی فکری و سیاسی سفر کے دوران پیش آنے والے تراشیدہ آلام اور اُن سے نمٹنے کے دوران قومی لیڈر شپ کی ذہنی کم مائیگی اور قائدانہ استعداد کو تاریخی اور عالمی تناظر میں جانچنے کی بجائے مقامی سیاسی عداوتوں اور سماجی محرمیوں کے حوالوں سے دیکھا گیا۔ چودہ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سیاست، معاشرت، صحافت اور اجتماعی زندگی سے جڑے خیر و شر کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے منفی و مثبت کردار کی جُزئیات تک کی تفہیم کی گئی لیکن اس بساط کے عالمی کھلاڑیوں کی شاطرانہ چالوں کی طرف دیکھے بغیر اس وقت کے ہمہ گیر تنازع کے مرکزی کردار، اشرافیہ کا دفاع اور اس کی کوتاہیوں کی پردہ پوشی میری نظر میں اس کتاب کا مرکزی خیال ہے۔ مضامین میں مصنف نے بنگال کے ایشو کو عالمی طاقتوں کی گریٹ گیم کے تناظر میں سمجھنے کے بجائے مسائل کا حل اُن مقامی کرداروں کی بے ربط سرگرمیوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی جو بجائے خود عالمی پاور پالیٹکس کی حرکیات کا شکار تھے۔ بلاشبہ وہ سیاستدانوں ، ججز اور علما سے بھی ملے لیکن مصنف نے طلبہ، صحافیوں، مزدروں حتیٰ کہ سائیکل رکشہ پُلر کی نہایت محدود سوچ اور محدود احساسات سے اثر لے کر جذباتی افسانے اور شخصی المیوں کے نوحے لکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ حیرت انگیز طور پہ اس وقت کی حکمراں اشرافیہ نے سب کچھ جاننے کے باوجود امریکہ کے خوف سے سقوطِ بنگال کی سکیم کا بھانڈا پھوڑ کے دونوں خطوں کے عوام کو حقائق بتانے سے گریز کیا۔
دنیا بھر میں آمریتوں اور فاشسٹ حکومتوں کی بقا کی خاطر عوامی امنگوں کا خون کرنے والے امریکہ نے جس طرح 1965ء کی جنگ کے دوران امداد روک کر ہمارا دفاعی نظام مفلوج کیا‘ بالکل ویسے ہی1971ء میں بھی عسکری تعاون معطل کرکے ہماری مقتدرہ کو مفلوج اور بے دست و پا کیے رکھا؛ تاہم عالمی سیاست کی جدلیات اور بنگال کی علیحدگی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے رچائے گئے سوانگ کے مرکزی کرداروں یعنی یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن نے عوام کو بے خبر رکھنے میں اپنا مفاد تلاش کیا۔ حالانکہ سوویت یونین سمیت مغرب کی عالمی طاقتوں کے علاوہ علاقائی ممالک چین، ایران اور بھارت اس حقیقت سے واقف تھے کہ عالمی کھلاڑی بنگال کو الگ مملکت بنانے کے منصوبے کو فطری سانحہ اور حقیقی واقعہ دکھانے کے لیے جنگِ کوریا کی طرح ہزاروں انسانوں کی بھینٹ چڑھانے پر کمربستہ ہو چکے ہیں؛ چنانچہ اس وقت کی اجتماعی دانش، پرنٹ میڈیا اور لکھاریوں کو انگیج کرکے بنگال کو علیحدہ کرنے کی عالمی سازش کو دونوں حصوں کی قیادت اور عوام کے مابین داخلی جارحیت کا رنگ دینے کی کامیاب کوشش کی گئی۔ اس عہد کے اخبارات، جرائد اور رسالے ملکی سیاست کے روایتی کرداروں کی تلخ نوائی سے گونجتے رہے، باہمی الزام تراشی پر مبنی بھٹو‘ مجیب اور بھاشانی کی شعلہ نوائی نے عوامی سطح پر ایسی اشتعال انگیزی اور گروہی کشمکش پیدا کر دی کہ پوری قوم اصل دشمن(امریکہ و مغربی استعمار) کے بجائے باہم ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ قومی سطح پر ایسا ماحول پیدا کرنے والے یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن اس عظیم سانحے کے ممکنہ بینی فشری تھے، جنہوں نے ہزاروں انسانی جانوں کی قیمت پر ایسا مہمل اقتدار حاصل کیا جو بالآخر تینوں کی تباہی کا وسیلہ بنا۔
مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کتاب کے مصنف نے 2000ء میں بھارتی اخبار کی طرف سے اُس حمود الرحمن کمیشن رپوٹ کے کچھ حصے شائع کرنے کو بھی ملک پر ''نہایت کاری ضرب‘‘ قرار دیا جس کی اشاعت کا مطالبہ پوری قوم پچاس سالوں سے کرتی آ رہی تھی۔ لکھتے ہیں ''انڈیا ٹو ڈے نے حمودالرحمن کمیشن کی رپوٹ شائع کرکے پاکستان پہ نہایت کاری ضرب لگائی بھارت کا بنیادی مقصد ہمارے اداروں کا امیج خراب کرنا اور انہیں عالمی تنقید کا نشانہ بنانا تھا تاکہ وہ اصلاحات کا قومی ایجنڈا مکمل نہ کر سکیں اور کشمیر کا تنازع پس منظر میں چلا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ اس رپوٹ کے شائع ہوتے ہی پاکستان میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہو گا، تمام سیاسی جماعتیں اور مذہبی شخصیتیں یکجا ہو کر مشرف حکومت پر ٹوٹ پڑیں گی اور یوں خانہ جنگی کا سماں پیدا ہو جائے گا۔ ایسے میں پرویز مشرف اپنی قوم کے سامنے ٹھہر سکیں گے نہ اقوام متحدہ میں کسی کو منہ دیکھا سکیں گے۔ خدا شکر کہ ایسی کوئی ہیجانی کیفیت پیدا نہیں ہوئی‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved