گیارہ ستمبر پاکستان میں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد جناح کے یومِ وصال کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ 1948ء کا یہی وہ دن تھا جب ملک کی سمت یکایک تبدیل ہو گئی اور آج تک اس منزل کا حصول ممکن نہیں بنایا جا سکا‘ یارانِ من جس کا خواب آنکھوں میں سجا کر ہجرت کے سفر پر نکلے تھے۔ اس گیارہ ستمبر‘ جسے ''ستم بر‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ کا ایک اور حوالہ بھی ہے۔ 2001ء میں گیارہ ستمبر‘ منگل کی صبح امریکیوں کی پُرسکون زندگی میں خوف اور دہشت کی ایسی ہلچل مچی تھی کہ جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ اس دن امریکی عظمت اور شان و شوکت کا استعارہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر زمین بوس ہو گیا تھا۔ امریکی قوت اور سطوت کی پہچان پنٹاگون کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ لوگ آج بھی یہ سوچ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ امریکہ کی جدید ترین اور انتہائی حساس ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے یہ سب کیوں اور کس طرح ہوگیا؟ اس پر اب تک سینکڑوں کے حساب سے کتابیں اور لاکھوں کی تعداد میں آرٹیکلز لکھے جا چکے ہیں اور اس صدی کے سب سے بڑے اور حیران کن سانحے پر امریکی سی آئی اے، ایف بی آئی، نیشنل سکیورٹی ایجنسی اور پنٹاگون کی ہزاروں صفحات پر مشتمل رپورٹیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ آج سانحہ نائن الیون کو 22 برس مکمل ہو گئے ہیں اور ابھی تک ایشیا سے افریقہ اور یورپ سے امریکہ تک‘ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے امریکی ایجنسیوں کے ہزاروں ایجنٹ بال کی کھال اتارنے ہیں مصروف ہیں لیکن یہ کوئی بھی نہیں بتاتا کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی کے چند گھنٹے بعد ہی امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا لیکن اس کی آج تک تصدیق نہیں ہو سکی۔ بعض امریکی تجزیہ کار بھی اس پر سوالات اٹھاتے ہیں کہ افغانستان کے غاروں میں گردے کے مرض میں مبتلا اسامہ کا اس حملے میں ملوث ہونا ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ القاعدہ کوامریکی ایئر پورٹس کے نظام کے اندر تک گھسنے اور ریڈار جام کرنے کی سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ جدید ترین سکیننگ مشینوں کی موجودگی کے باوجود مختلف ایئر پورٹس سے اڑنے والی ہر فلائٹ میں ہائی جیکر اسلحہ، چاقو اور خنجر وغیرہ لے جانے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ پیش آئے واقعات اور دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھیں تو ثابت ہو جاتا ہے کہ گیارہ ستمبر کی اس دہشت گردی کے پس پردہ وہ ہاتھ ہیں جنہوں نے القاعدہ کے عرب مجاہدین کو اپنے مقاصد اور مفاد کے لیے ترتیب دیے گئے اگلے تیس سالہ منصوبوں کیلئے استعمال کرنا تھا۔
القاعدہ کے ان لوگوں تک پہنچنے کیلئے جہادِ افغانستان کی طرف چلتے ہیں جس کے شروع ہونے کے بعد دنیا بھر سے مسلم عسکریت پسند بڑی تعداد میں پاکستان پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ ان میں کثیر تعداد عرب نوجوانوں کی تھی جنہیں جہاد کے نام پر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ ان عرب مجاہدین کی تربیت کا بیڑہ امریکی و اتحادی ممالک نے اٹھا رکھا تھا اور پاکستان کے شمالی علا قوں میں انہیں تربیت دی جا رہی تھی۔ ان میں اکثریت ان نوجوان عربوں کی تھی جو مالی طور پر خاصے مستحکم تھے اور اپنے گھروں سے بڑی بڑی رقوم ساتھ لائے تھے۔ انہوں نے اپنے ہتھیار تک خود خریدے۔ ان عرب مجاہدین کی فوجی تربیت جہاں بہت سے دوسرے لوگوں نے کی‘ وہاں ان میں امریکی و اسرائیلی یہودی بھی شامل تھے جو انگریزی اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ ان انسٹرکٹروں کی اکثریت کا تعلق اسرائیل کی خفیہ ایجنسی سے تھا اور ان میں میجر سے بریگیڈیئر رینک تک کے افسران شامل تھے۔ انہی دنوں موساد کے ایک چیف ڈائریکٹر کالی نے مجاہدین کے ٹریننگ کیمپوں کا دو بار دورہ بھی کیا اور اس کی آمد کی خبر کسی مقامی اخبار نے نہیں بلکہ نیویارک کے ایک جریدے Executive Report اور جرمنی کے اخبارات نے شائع کی۔ جرمنی کے بعض اخبارات میں اسرائیل کے ان انسٹرکٹروں کی آمد اور ان کے نام اور عہدوں بارے مکمل تفصیلات شائع ہوئیں اور مختلف عرب ممالک کے خوشحال گھرانوں سے آئے ہوئے ان مجاہدین کو تربیت دینے والے اسرائیلی انٹیلی جنس کے یہ افسران مانے ہوئے سائیکاٹرسٹ تھے۔ گوریلا جنگ کی تربیت کے دوران‘ عسکری زبان میں‘ ان کے درمیان ''بڈی‘‘ کا ایک رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ موساد کے یہ افسر ان عرب نوجوانوں کو ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی برین واشنگ بھی کرتے رہے۔ اس طرح موساد نے ان میں سے کچھ نوجوانوں کو افغانستان میں جہاد کرنے کے علاوہ اپنی لائن پر لگا دیا تاکہ وہ جب چاہیں‘ جیسے چاہیں ان سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکیں اور ان کو پتا بھی نہیں چلتا تھا کہ وہ ان سے کیا کام لے رہے ہیں۔ اس شک کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سانحہ گیارہ ستمبر میں استعمال ہونے والے چاروں جہازوں کے ہائی جیکروں کا تعلق عرب ممالک سے تھا۔ حالانکہ افغان جہاد میں پاکستان، انڈونیشیا، چیچنیا، بوسنیا اور سنٹرل ایشیا کے لوگ زیادہ تعداد میں تھے لیکن سوال یہ ہے کہ صرف عرب ممالک سے تعلق لکھنے والے لوگ ہی گیارہ ستمبر کے حملوں میں کیوں ملوث تھے۔
وجہ یہ ہے کہ یہودی فوجی انسٹرکٹروں نے عربی زبان پر مکمل عبور رکھنے کی وجہ سے عرب مجاہدین کو اپنا ٹارگٹ بنایا۔ موساد کے ان افسران نے افغانستان میں روس کے خلاف کئی معرکوں میں ان کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ کسی بھی خفیہ ایجنسی کی کامیابی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ کسی ایجنٹ یا گروہ کو اپنے مقاصد سے لاعلم رکھ کر استعمال کیا جائے اور اسے کبھی بھی اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ کسی دوسرے کیلئے کام کر ہا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہی دنوں روس کی کے جی بی سے وابستہ سینکڑوں یہودی روس سے اسرائیل پہنچے اور وہاں سے انہیں افغانستان بھیجا گیا۔ اس طرح روسی یہودیوں نے بھی دورانِ تربیت کچھ مجاہدین کو شکار کیا۔ یہ مت بھولیں کہ موساد دنیا کے ہر اس حصے میں موجود ہے جہاں ایک بھی یہودی پایا جا تا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے دنیا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی کو انکار نہیں۔ جس تکنیکی مہارت اور انتہائی سکیورٹی کے باوجود گیارہ ستمبر کا آپریشن مکمل ہوا‘ اس پر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کس نے اپنے تربیت یافتہ سرفروشوں کے ذریعہ یہ کارروائی کرائی۔
ایک بات ذہن میں رکھیں کہ امریکی صدر ابراہام لنکن اور 1963ء میں صدر کینیڈی کے قتل سے لے کر نکسن کے واٹر گیٹ سکینڈل اور بل کلنٹن کے مونیکا سکینڈل تک جب بھی کسی امریکی صدر نے اسرائیلی پالیسیوں سے ادھر ادھر ہونے کی کوشش کی تو اسے اس کی فوری سزا مل گئی۔ نائن الیون کی صبح دو گھنٹے کی اس کارروائی کے دوران جس طرح مختلف ایئر لائنوں کے طیاروں کو کمال مہارت اور منصوبہ بندی سے ہائی جیک کیا گیا‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں انتہائی خفیہ اور طا قتور ہاتھ ملوث تھے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے جب اسرائیل پر فلسطین کے مقبوضہ علاقے اور غزہ کے کچھ حصے خالی کرنے پر زور دیا تو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے صدر کلنٹن کو مداخلت نہ کرنے کا کہا تھا۔ جس کے بعد پہلی دفعہ امریکی انتظامیہ اور فلوریڈا کی ریاست میں اختلافات یکدم خوفناک حد تک بڑھ گئے۔ صدر بش اور مخالف امیدوار الگور کے مابین انتخابی فتح کا فیصلہ بھی امریکی سپریم کورٹ نے کیا تھا۔ اس وقت بش کے مدمقابل الگور اور نائب صدر ڈک چینی کے مقابلے میں کٹر یہودی لبرمین نائب صدارت کا امیدوار تھا۔ یہودی مافیا نے امریکی تاریخ میں پہلی بار صدارتی انتخابات کو مشکوک بنا کر امریکہ کی جگ ہنسائی کرائی۔ امریکی سپریم کورٹ کے دو ججوں کے فیصلے پر بش سے ہارنے والے الگور نے ایک مختصر لیکن معنی خیز بیان دیا تھا کہ ''ہم سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں لیکن اس سے متفق نہیں‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved