معاشرے کی بُنت جن تاروں سے ہوتی ہے‘ وہ ٹوٹ رہی ہیں۔ اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہمارے باہمی تعلقات اب بدگمانی پر مبنی ہیں۔ ہم دوسروں کے بارے میں کہی گئی ہر منفی بات بلاتحقیق مان لیتے ہیں۔ مثبت بات قبول کرنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔
شازیہ مری صاحبہ کے بارے میں کہانی بیان کی گئی اور پھر ذوق و شوق کے ساتھ پھیلائی گئی۔ 97ارب روپے۔ مبالغے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ بعد میں معافی مانگنا پڑی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم میں سے کچھ نے اہلِ سیاست کے بارے میں پہلے سے ایک مقدمہ قائم کر رکھا ہے۔ اس کہانی نے ہمارے مقدمے کو تقویت پہنچائی اور ہم نے مان لیا۔ یہ ایک کہانی نہیں۔ برسوں سے اس طرح کی کہانیاں پھیلائی جا رہی ہیں اور لوگ مان رہے ہیں۔
یہ صرف سیاست کا معاملہ نہیں ہے۔ مذہب میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہر شعبے کی اپنی لغت ہے۔ گستاخ‘ منکرِ حدیث‘ مغرب نواز‘ یہ اہلِ مذہب کی لغت ہے۔ دوسروں کے بارے میں بد گمانی پھیلانی ہو تو مذہبی رہنما ان اصطلاحوں کو اپنے حلقے میں پھیلا دیتے ہیں۔ سیاست کی طرح یہاں بھی بلاتحقیق ان کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ اخلاقیات کا اطلاق سیاست پر بھی ہوتا ہے لیکن ہم اسے سر تا پا دنیا داری سمجھتے ہیں۔ مذہب میں تو زیادہ احتیاط کی توقع ہوتی ہے۔ یہ توقع لیکن کم ہی پوری ہوتی ہے۔
لکھاری اور قاری کا تعلق بھی بدگمانی پر مبنی ہے۔ لوگ پہلے سے قائم نظریات کے ساتھ تحریریں پڑھتے ہیں۔ اُن کو اسلوب سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ نفسِ مضمون سے۔ اگر تحریر ان کے نظریات کے مطابق ہے تو لکھاری کا اعتبار ہے۔ اگر نہیں تو پھر وہ لازماً کسی کا نمک خوار ہے۔ وہ قائم شدہ نظریات کے خلاف کوئی بات سننا نہیں چاہتا۔ اس سے لکھاری اور قاری کے درمیان سیکھنے سکھانے کا رشتہ قائم ہی نہیں ہو سکتا۔ دونوں دو مختلف دائروں میں رہتے ہیں اور کبھی نہیں مل پاتے۔
رسماً لکھنے والوں کو اس طرح کے ردِ عمل کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی نے عوام کے مسائل کو بیان کر دیا یا کسی مقبولِ عام نظریے یا سیاسی بیانیے کی تشہیر کی تو وہ محفوظ رہتا ہے۔ 'سارے سیاست دان کرپٹ ہیں‘ جیسے بیانیے پر لوگ داد دیتے ہیں۔ ایک لکھاری اگر مختلف نظریہ رکھتا یا خاص خطوط پر سماج کی فکری تشکیل چاہتا ہے جو عوامی ذوق سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اسے ناگوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُسے ایک بے نوا فقیر کی طرح‘ غوغائے سگاں میں اپنا راستہ بنانا ہوتا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا۔ ہماری جدید تاریخ میں سرسید پہلے آدمی ہیں جنہیں اس صورتحال کا سامنا رہا۔ سرسید کے بارے میں تاریخ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ ایک ایسا صاف ستھرا آدمی جو مسلم قوم کے غم میں گھلا جا رہا تھا۔ اسے دنیا سے کوئی دلچسپی تھی نہ عہدے اور مال و اسباب سے۔ انہیں لیکن کیا کیا نہیں کہا گیا۔ ان کے گرد بدگمانی کی ایسی گرد اڑائی گئی کہ آج بھی بہت سے لوگوں کو ان کا صل چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ جزیات تک نقائص سے پاک ذات صرف پیغمبر کی ہوتی ہے۔ ہم مجموعی شخصیت پر کوئی حکم لگاتے ہیں۔ تاریخ نے ان کے بارے میں یہ فیصلہ سنا دیا کہ ان جیسا بے غرض رہنما‘ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو میسر نہیں ہوا۔ اپنے عہد میں لیکن انہیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا گیا۔ ان کی چند علمی آرا کو بنیاد بنا کر ان کے اخلاص کو ناپا گیا۔اصل سوال سماج کی شعوری تشکیل کا ہے۔ ہم جس دین کو ماننے والے ہیں‘ وہ باہمی تعلقات کو حسنِ ظن پر قائم کرتا ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ اچھا سوچا جائے۔ کہیں اجتماعی مفاد کا تقاضا ہو اور کوئی رائے دینا ناگزیر ہو تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا کوئی دوست اپنی بیٹے یا بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے اور آپ سے مشورہ مانگ رہا ہے تو آپ کو چاہیے کہ اپنی معلومات کی بنیاد پر اس کو صحیح مشورہ دیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کے پاس اس لڑکے یا لڑکی کے بارے میں ایسی معلومات ہوں جن سے آپ کا دوست بے خبر ہے اور یہ بے خبری اسے خسارے میں مبتلا کرسکتی ہے۔ اس کو نقصان سے بچانے کے لیے دوسرے کے بارے میں منفی معلومات کا افشا ناگزیرہو جاتا ہے۔
قومی زندگی بھی بعض اوقات تقاضا کرتی ہے کہ عوام کو بعض افراد کی قیادت سے بچایا جائے۔ اس کے لیے عام آدمی کو ان کے خیالات اور رویوں کی اصلیت بتانے کے لیے آپ ایسی باتیں کہتے یا لکھتے ہیں جو آپ کے علم میں ہوتی ہیں۔ ایسے معاملات استثنائی ہیں۔ یہ بدگمانی نہیں بلکہ عوام کو کسی بڑے خسارے سے بچانے کے لیے ان کے ساتھ خیر خواہی ہے‘ تاہم لکھنے والے کو یہ چاہیے کہ وہ اپنی بات دلیل اور سنجیدگی کے ساتھ بیان کر دے۔ پڑھنے والے کی اخلاقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دلیل کو دیکھے۔ اگر وہ قائل کرنے والی نہیں ہے تو اسے رد کر دے۔ بات کو محض اس لیے رد کر دینا کہ وہ آپ کے قائم شدہ خیالات کے خلاف‘ اخلاقاً درست ہے نہ عقلاً۔ یہ رویہ وہیں روا رکھا جاتا ہے جہاں باہمی تعلقات کی بنیاد بدگمانی پر ہوتی ہے۔
بدگمانی جتنی خطرناک ہے‘ خوش گمانی بھی اتنی ضرر رساں ہے۔ یہ دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ ہم کسی فرد کے بارے میں کسی تعصب کی وجہ سے اچھی رائے قائم کر لیتے ہیں۔ اب اس رائے کے برخلاف جتنے شواہد ہمارے سامنے رکھ دیے جائیں‘ ہم انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ بھی نفسیاتی عدم توازن ہے۔ اجتماعی معاملات میں تو اسے کسی طور روا نہیں رکھا جا سکتا۔ کسی کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ تعصب کے بجائے دلیل کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر سیاسی قیادت کا انتخاب تو بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ یہ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اسے گمان پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔وہ معاشرہ کیسے تشکیل پائے جہاں لوگ دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کریں؟ یہ مذہب ہو یا سیاست‘ لوگ رد و قبول کے لیے عقل کو معیار مانیں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے: عوام کی تعلیم۔ عوام کو یہ سکھایا جائے کہ اگر ہم دلیل کو حاکم نہیں مانیں گے تو غلط فیصلہ کر بیٹھیں گے۔ کلٹ کی پرستش سے اسی لیے منع کیا جاتا ہے کہ یہ عقل و شعور کی موت ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ میں نے اپنے شرفِ انسانیت سے اظہارِ برات کر دیا ہے۔ انسان اگر اس شرف سے محروم ہو جائے تو پھر اس میں اور حیوان میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟
آنے والی نسل کی تعلیم کا اہتمام تو ہمارے نظامِ تعلیم کو کرنا چاہیے کہ انسانی شخصیت ابتدائی برسوں میں مکمل ہو جاتی ہے۔ تعلیمِ بالغاں کی ذمہ داری ذرائع ابلاغ اور محراب و منبر جیسے قدیم سماجی اداروں نے اداکرنی ہے۔ اخبار کے کالم نگار کو بھی یہی کام کرنا ہے۔ اگر تو وہ سرسید کی طرح گالیاں کھانے کا حوصلہ رکھتا ہے تو پھر اسے ردِ عمل سے بے نیاز ہو کر یہ کام کرنا ہو گا۔ اگر وہ یہ حوصلہ نہیں رکھتا تو پھر اسے کوئی اور کام کرنا چاہیے۔
بدگمانی کی بنیاد پر قائم معاشرے کو سب سے بڑا نقصان یہ اٹھانا پڑتا ہے کہ سچائی کبھی اس کے ہاتھ نہیں آتی۔ بعض اوقات وہ اس کے سامنے پڑی ہوتی ہے اور بدگمانی کی عینک کے سبب وہ اسے دیکھ نہیں پاتا۔ اجتماعی اندھے پن کے ساتھ کبھی راستہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved